بنک مل ملازمین اورصارفین کے مسائل /پی ٹی وی پر نیا حملہ


میجر جنرل نواب زادہ شیر علی خان پٹوڈی، جنرل یحییٰ خان کی کابینہ میں وزیر اطلاعات و نشریات اور قومی امور تھے۔ معروف دانشور، مفکر اور سماجی سائنسدان محمود مرزا مرحوم جو پیشے کے لحاظ سے انکم ٹیکس کے وکیل تھے، وہ نواب زادہ شیر علی کے بھی وکیل تھے۔ مرزا صاحب نے بتایا کہ ایک بار ٹیکس گوشوارے میں نواب صاحب کے بنک اکاؤنٹ میں بہت قلیل رقم تھی۔ مرزا صاحب نے استفسار کیا تو نواب صاحب نے کہنے لگے مرزا صاحب! ہم نواب لوگ ہیں ہم پیسے بنکوں میں نہیں زمین میں دفن کر کے رکھتے ہیں۔

محمود مرزا مرحوم، صاحب تفہیم القرآن مولانا ابو اعلیٰ مودودی کے بھی مشیر ٹیکس تھے۔ ایک زمانہ تھا جب ملک میں بنک بھی کم تھے اور ان کی شاخیں بھی۔ بنک اکاؤنٹ بھی نہایت کم لوگوں کے ہوا کرتے تھے۔ بنک میں ملازمت کرنے والے افراد معاشرے میں صاحب ثروت اور متمول تصور کیے جاتے تھے۔ لگے بندھے اوقات ہوا کرتے تھے۔ جوں جوں معاشرہ کا معاشی تمدن ارتقاء پاتا گیا بنکوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور اسی تناسب سے ان کی شاخیں بھی۔

اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ زمین میں دفن پیسہ قومی معیشت میں شامل ہوا اور قومی صنعت کا فروغ ہوا۔ نقصان یہ ہوا کہ قرض صنعت کاروں نے معاف کروائے اور بنکوں نے شرح سود میں اضافہ کر کے اپنا نقصان صارفین سے پورا کیا۔ گرامی قدر امین سلیمی صاحب نے ایک بار دوران گفتگو توجہ دلائی کہ دو شعبوں میں تبدیلی اچانک اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق آئی، ایک بنک اور دوسرے پیٹرول پمپس۔

غور کیا تو واقعی پیڑول پمپس جو دو دہائی قبل گندے، تاریک اور کم کم ہوا کرتے تھے، آج وہی پمپس صاف شفاف، روشن اور کثرت سے نظر آتے ہیں۔ بنکوں کی عمارات کی رعنائی بھی قابل دید ہوتی گئی اور ایک بنک کے مرکزی دفتر کی عمارت تو ایک زمانے تک ملک کی سب سے بلند عمارت رہی۔ یہ مختصر تمہید باندھی اس مقصد سے تھی کہ حال کے چند مسائل پر کچھ لکھا جاسکے۔

آج ہم میں سے ہر شخص کو بنکوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ بنک جانے پر مٹھاس کے ساتھ پہلا مطالبہ یہ کیا جاتا ہے کہ آپ بنک میں اپنا اکاؤنٹ کھول لیں۔ چلیں آپ نے بنک کے افسر تعلقات عامہ کے اخلاق سے متاثر ہو کر بنک اکاؤنٹ کھول بھی لیا تو کہا جاتا ہے کہ اس میں رقم بھی خاطر خواہ جمع کروا رکھیں۔ چلیں یہ بھی ہو گیا، چند روز بعد آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ چیک بک، اے ٹی ایم کارڈ کی مد میں چار سے پانچ ہزار روپے آپ کے اکاؤنٹ سے منہا کر دیے گئے ہیں۔ پھر ہر سال 30 جون اور 31 دسمبر کو آپ سے کہا جاتا ہے کہ اکاؤنٹ بیلنس کو بڑھائیں اور مذکورہ تاریخوں میں بنک سے رقم نہ نکلوائیں۔

بنکوں کے اس رویے کا اتنا غلغلہ ہے کہ جون اور دسمبر میں وہ لوگ بھی جن کے بنک اکاؤنٹ ہوتے بھی نہیں ہیں وہ بھی ہر کسی کو یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ یار! آج کل بنک پے منٹ نہیں کر رہے۔ یہاں تک کی صورتحال تو پھر بھی قابل قبول ہے۔ ایک تازہ صورتحال جو بنک صارفین کو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ بنکوں کی جانب سے صارفین پر یہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ انشورنس پالیسی بھی لیں، اگر وہ نہ لیں تو بنک ملازمین کا روز کا ضد کی حد تک کا اصرار انھیں انشورنس پالیسی لینے پر مجبور کر تا ہے، جسے وہ سال دو سال چلانے کے بعد مزید پریمئیم ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے ہیں، اور انھیں پریمئیم کی مد میں جمع کروائی جانے والی رقم کٹوتی کے بعد ایک عرصے کے بعد لوٹا دی جاتی ہے۔

لائف انشورنس پالیسی کے حوالے سے الطاف گوہر نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ تیسری دنیا کہ تمام ممالک کا اس پر اتفاق تھا کہ سروس سیکٹر میں غیر ملکی اداروں کو داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ پاکستان کے ایک نگران وزیر اعظم معین قریشی امریکہ میں ایک مشاورتی کمپنی چلاتے تھے۔ امریکن لائف انشورنس نے انھیں یہ ٹھیکہ دیا کہ وہ پاکستان میں انھیں اپنا کاروبار شروع کرنے کی اجازت دلوائیں، جس کے لیے معین قریشی نے اس وقت کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز کو دو خط لکھے۔

اس سے پہلے پینتالیس سال تک حکومت پاکستان کی یہ پالیسی رہی تھی کہ کسی غیر ملکی کمپنی کو انشورنس کے دائرے میں داخل نہیں ہونے دیا جائے۔ قسمت نے یاوری کی اور معین قریشی پاکستان کے نگران وزیر اعظم بنا دیے گئے اور آتے ہی یہ اعلان کر دیا کہ حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ غیر ملکی انشورنس کمپنیوں کو پاکستان میں کاروبار کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

موجودہ صورتحال میں قصور بنک ملازمین کا ہے نہ صارفین کا۔ بنک ملازمین جن کی ملازمت ایک زمانے میں سکون کی ہوتی آج ان پر ایک ٹانگ پر کھڑا ہونے والا محاورہ بالکل صادق آتا ہے۔ آج ان پر اکاؤنٹ کی تعداد بڑھانے، ڈپازٹ لانے اور انشورنس پالیسیاں فروخت کرنے کا دباؤ اس قدر ہے جسے کم کرنے کے لیے وہ صارفین کو مجبور کرتے ہیں۔

بنک کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے صارفین کو وہ سہولیات دیں جو ان سے متعلق ہیں، آج انشورنس پالیسیاں ہیں، ہیلتھ پالیسیاں ہیں تو کل کو کچھ اور ہوگا۔ امید ہے کہ بنکوں کے اعلیٰ ترین عہدیداران اور مرکزی بنک اس معاملے پر مناسب حکمت علمی وضح کریں گے۔

ریوڑیاں ابھی تک بٹ رہی ہیں کہ نعیم بخاری پی ٹی وی کے چیئرمین بنا دیے گئے ہیں۔ موصوف سے جب سوال کیا گیا کہ کیا پی ٹی وی پر حکومت اور اپوزیشن کو مساوی وقت ملے گا؟ تو جواب میں ظل الہی رعونت سے فرماتے ہیں کہ پی ٹی وی ریاستی ادارہ ہے اور اس پر صرف اور صرف حکومت کو وقت ملے گا۔ غالبؔ کا شعر یاد آ گیا کہ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ /کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ بیچارے ریاست اور حکومت کے فرق سے بھی نابلد ہیں۔

نعیم بخاری شاید یہ بھول گئے کہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے مسلم لیگ حکومت (ن) کے گزشتہ دور حکومت میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کرنے کی ضد کی تھی اور اس کے لیے جو دلائل گھڑے گئے تھے وہ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ کنٹریکٹ ملازمین کے حوالے سے بھی جناب کا جواب با انداز جگت تھا کہ کنٹریکٹ ملازمین تو ہونے ہی نہیں چاہیے اور ان کی تنخواہوں کو بھی ہدف بنایا۔ ایک طرف پی ٹی وی کو ریاستی ادارہ قرار دے رہے ہیں اور دوسری جانب ریاست کی اہم ذمہ داری روزگار کی فراہمی سے ہی نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ خدا جانے پی ٹی وی کے لیے یہ نیا تحفہ نوید مسرت ثابت ہوتا ہے یا آخری کیل؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).