ملتان کا جلسہ فیصلہ کن معرکہ


پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ جناب عثمان بزدار کی حکومت گزشتہ اڑھائی سال کے عرصہ میں اپنے متعلق ایک ہی تاثر قائم کر پائی ہے کہ وہ ایک کمزور حکومت کے کمزور سربراہ ہیں پنجاب میں موثر حکمرانی یا گڈگورننس قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے بعض حریف تو انہیں صوبے کے سب سے نا اہل، غیر موثر وزیراعلیٰ کا خطاب بھی دیتے ہیں لیکن اب جبکہ پی ڈی ایم کی تحریک واپس پنجاب میں عور کر آ رہی ہے اور 30 نومبر 2020 کو ملتان کے جلسہ کے ذریعے تحریک کو پنجاب کے اہم مرکزی سیاسی منطقے میں داخل کرنے جا رہی ہے تو پنجاب کی بزدار حکومت اپنی کمزوری کے علی الرغم خم ٹھونک کر میدان میں اتر رہی ہے جس کا مصمم ارادہ ہے کہ ملتان میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

پنجاب حکومت نے صوبہ بھر میں عوامی اجتماعات کے انعقاد پر بھی پابندی عائد کردی ہے جس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ وہ لاہور میں بھی پی ڈی ایم کو جلسہ نہیں کرنے دے گی۔ جلسوں پر پابندی کے لیے کرونا وبا کے احیا کو بطور دلیل پیش کیا جا رہا ہے کرونا وبا کی صورتحال اور خطرناکی مسلمہ ہے لیکن پی ڈی ایم کے جلسوں کے لئے کرونا کا جواز طبی کم مگر سیاسی زیادہ ہے۔ حالانکہ حکومت پی ڈی ایم کے جلسوں کو اب تک ”جلسیاں“ کہتی آ رہی ہے بازاروں اور معاشی سرگرمیوں کے دیگر مراکز میں ”جلسیوں“ سے زیادہ افراد کے دیرمان سماجی فاصلہ کم کم ہوتا ہے فیس ماسک کا استعمال بھی اکا دکا نظر آ رہا ہے کرونا کے ہنگام جلسوں کی بندش جبھی ممکن ہے اگر ملک بھی مکمل لاک ڈاؤن ہو حکومت اس کے لیے تیار نہیں بلکہ آج ہی وزیراعظم نے اقتصادی سرگرمیوں پر پابندی کا امکان مسترد کر دیا ہے اپنے گزشتہ کالم ”حکومت دوہرے دباؤ میں“ میں اس بابت مفروضات پیش کرچکا ہوں۔

صورتحال یہ ہے کہ آج ملتان کی ضلعی انتظامیہ نے مجوزہ جلسہ گاہ کہنیہ باغ جانے والے تمام راستوں پر کنٹینر اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کر کے آمدورفت بند کردی ہے کہنہ قاسم باغ کے دروازے سر بمہر مقفل ہوچکے ہیں۔ بعید نہیں کہ 29 نومبر کی شب اس جلسہ گاہ میں پانی بھی چھوڑ دیا جائے تاکہ کسی بھی طور پر گراؤنڈ جلسہ گاہ نہ بن سکے ایسے تمام اقدامات پی ڈی ایم قیادت کے پرعزم اعلانات کی روشنی میں بہت تشویشناک نظر آتے جن میں پی ڈی ایم ہر حال میں ملتان کے ساتھ ساتھ لاہور اسلام آباد میں اپنے جلسے جاری رکھنے کا اظہار کر رہی ہے۔

30 نومبر کا جلسہ جناب بلاول بھٹو کے الفاظ میں ”پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کی بھی سیاسی تقریب ہے جسے کوئی روک نہیں سکے گا“ ۔ کیا 30 نومبر ملک میں بڑھتی سیاسی مخاصمت اور سیاسی درجہ حرارت کا نقطہ کھولاؤ ثابت ہوگا؟ کیا

پی ڈی ایم ملتان میں کسی متبادل جگہ پر سیاسی طاقت کا مظاہرہ کر کے حکومت کو نادم کرے گی؟ یا پھر قاسم باغ میں ہی جلسہ کر نے کی بھر پور کوشش کرے گی؟ ثانی الذکر عمل پیش پا افتادہ صورتحال میں سیاسی تصادم کا آغاز ہوا تو کیا حکومت مشکل حالات پر قابو پالے گی؟ چونکہ جلسے کو انتظامی قوت سے روکنے کی کوشش ہوگی جس سے قومی جمہوری تحریک اور انتظامیہ کے بیچ مڈ بھیڑ ہوگی۔ اور قیاس کیا جاسکتا ہے کہ درپیش چیلنجز میں پی ڈی ایم اس جلسے کے بطن سے نمو پذیر حالات کو اپنے اگلے قدم کے لیے مناسب سمجھتے ہوئے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کر دے گی؟

جو لاہور سے گزر تا ہوا آگے بڑھے اس صورت میں بلاشبہ لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل سکتے ہیں۔ ملتان سے اسلام آباد تک کا علاقہ مسلم لیگ کا مضبوط سیاسی گڑھ ہے جہاں وسیع عوامی تائید موجود ہے جس کی 10 فیصد تعداد بھی جلوس میں ڈھل گئی تو حالات انتہائی نازک ہوجائیں گے۔ یہ مرحلہ پی ڈی ایم کے لئے مفید جبکہ اقتدار و اختیار، دونوں کے لئے خفت کا سامان لائے گا انہیں آخری فیصلے کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا اور اگر حالات اس کے برعکس ہوئے (جس کا امکان صفر سے کچھ ہی زیادہ ہے ) پی ڈی ایم کی تحریک دم توڑ جائے گی جس سے تحریک کی قیادت کا لاعلم ہونا بعید از قیاس ہے۔ معرکہ فیصلہ کن مراحل میں داخل ہونے جا رہا ہے۔ اقتدار و اختیار اور جمہوریت کی اس کشمکش میں سے کوئی ایک کامیاب ہوگا لہذا فریقین اس مرحلے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کریں گے یہ مسلمہ بات ہے۔

ملتان جلسے کی میزبانی پیپلز پارٹی کر رہی ہے جلسے کا انعقاد اور بھر پور اجتماع اس کی ساکھ اور سیاسی وقار کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے جبکہ مسلم لیگ اور جے یو آئی بھی جنوبی پنجاب میں مضبوط سیاسی ساکھ و انفرادی قوت رکھتی ہیں۔ لگتا ہے کہ اب جلسہ پی ڈی ایم کی تحریک کے لئے سنگ میل کا درجہ اختیار کر گیا ہے جبکہ حکومت کے پاس جلسے کو روکنے کے لئے کوئی سیاسی جواز موجود نہیں اس کے دامن میں عوام کو مطمئن کردینے والی کارکردگی نام کی کوئی شے نہیں۔

مہنگائی بے روزگاری معاشی انحطاط اور مسلسل نا اہلیوں کی حامل حکمرانی عوام کو شجر اقتدار سے پیوست رہ کر بہار کی امید رکھنے کے سبھی مراحل ختم کرچکی ہے اب دفتر عمل میں سے کوئی ایسی کارگزاری نکال کر ہی عوام کے جذبات اور غصے کو کم کیا جاسکتا ہے لیکن حکومت کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ ہفتہ و عشرہ میں ایسا کچھ کر دکھائے۔ کرونا کے نام پر عوامی اجتماعات پر پابندی کا اطلاق اگر صرف پی ڈی ایم جلسوں تک محدود رہا تو حکومت کے لئے زیادہ گہری خجالت کا باعث بنے گا اور اگر ہر قسم کی سماجی تقریبات۔

کاروبار آمدورفت یا میل جول پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو بھی حکومت کو عوام کے زیادہ وسیع حلقوں کی مخاصمت، مزاحمت اور مخالفت پیش آ سکتی ہے اس نازک صورتحال میں سیاسی فریقین کے درمیان مکالمہ ہی واحد موثر راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے باہمی اتفاق رائے سے معاملات طے کیے جا سکتے ہیں حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے فرسودہ چورن کی سیل اب کردے۔ اور مذاکرات کو این آر او قرار دینے کی بجائے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کریے۔ سیاسی بحران اس کے اسباب تسلیم کر کے بات چیت کے ذریعے متفقہ حل نکالے یہ گمان رکھنا کہ اختیار و طاقت کا حلقہ اس مشکل میں طاقت کے ذریعے حالات پر قابو پالے گا دیوانگی ہوگی۔

مجھے میرا رجحان طبع آئین کی پاسداری۔ ملازمت اختیار کرتے وقت اٹھائے جانے والے حلف کی حرمت۔ اور بابائے قوم کے فرمودات اس پر پختہ یقین رکھنے پر مائل کرتا ہیں کہ سیاست میں آلودگی کے عمل کو بند کر دیا جائے تا کہ مستحکم سیاسی صورتحال مستحکم معیشت کی بنیاد پر مضبوط دفاع وطن کو ممکن بنا پائے۔ جو ان آرزو مندانہ خیالات کو عملی شکل میں دیکھنے کی امید کرتے ہیں وہ ملک کے زیادہ خیر خواہ ہیں۔ انہیں غدار کہنا سنگین غلطی ہوگی بدقسمتی سے معروضی حالات حقائق و واقعات کی سنگینی موسم گل کی امید پامال کرتی دکھائی دے رہی ہے یہ سوال اب بھی موجود اور متعلق ہے کہ کیا اس دو سالہ محنت کو جس میں اب اڑھائی سال کا اضافہ بھی ہو چکا ہے زائل یا ترک کرنے کی اجازت ارزاں ہو پائے گی؟ اس سوال کا براہ راست جواب دینے کی بجائے میں ایک واقعہ رقم کرنے پر اکتفا کروں گا۔

3اگست 1947 دھلی میں برٹش انڈین آرمی کے چیف فیلڈ مارشل آکن لک کے پرائیویٹ سیکرٹری نے اپنی رہائش گاہ پر ایک پارٹی کا اہتمام کیا تھا قائد اعظم نے تقریب میں شریک ہو کر مجوزہ پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران سے ملاقات کی تھی۔ آرمی چیف آکن لک بھی شریک مجلس تھے۔ قائد اعظم نے تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے سر سید احمد خان کی تعریف اور کہا کہ پاکستان کو عظیم ترین اسلامی ریاست بنانے کے لئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا مگر یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔

شرکا میں سے کسی نے پاکستان میں فوج کے کردار کے حوالے سے سوال کیا تو مسٹر جناح غصے میں آ گئے پہلے انہوں نے سرد نگاہوں سے سوال کرنے والے کا سر تا پیر جائزہ لیا اور پھر کہا ”پاکستان میں منتخب حکومت سویلینز کی ہوگی اور عوام کی حکومت ہوگی جو کوئی بھی جمہوری اصولوں کے بر عکس سوچ رکھتا ہے۔ اسے پاکستان آنے کا فیصلہ نہیں کر چاہیے ( ص 134۔ غلامی کے آخری پچاس دن از۔ مدھوکر ادھیایے )

گزارش یہ ہے کہ بابائے قوم کے اس حکم کی تعمیل کر نے میں اب کسی کو عار محسوس نہیں کرنی چاہیے نہ اپنی یا اپنے منصوبوں کی ناکامی کے خیال کو فوقیت دینی چاہیے۔

حکومت کو بھی اپنے طرز عمل کا ناقدانہ تجزیہ کرنا چاہیے ایک طرف اس نے میڈیا پر بد ترین سنسر شپ عائد کر رکھی ہے تو دوسری طرف وہ اپوزیشن اور عوام کے درمیان رابطے میں رکاوٹ ہے اگر حکومت سنجیدگی سے پی ڈی ایم کے جلسوں میں عوامی شرکت میں کمی لانا چاہے تو ایک تیر بہدف نسخہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کو مکمل آزادی دیدی جائے بلکہ پابند کیا جائے کہ تمام چیلنجز 2014 میں 160 دن کے دھرنے کی طرح پی ڈی ایم کے تمام جلسوں کی مکمل لائیو کوریج دکھائے تاکہ لوگوں کی بڑی تعداد گھر بیٹھے اپوزیشن رہنماؤں کی بات سن کر سیاسی نتائج اخذ کرسکے۔ ذرائع ابلاغ پر عائد بندش اور پھر اجتماعات پر قدغن کسی طور جمہوری رویے کا عکاس نہیں اس عمل سے بھی حکومتی بارے بہت منفی تاثر پھیل رہا ہے کہ نہ وہ جمہوری ذرائع سے اقتدار تک پہنچی ہے نہ ہی جمہوریت اور جمہوری رویوں کے ساتھ اس کا کوئی نسبتی رشتہ ہے۔

پی ڈی ایم نے جلسوں اور خود حکومتی کارکردگی نے حکومت کو عوامی حمایت سے بہت گہرائی تک محروم کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب اپنے تکبر اور خود پسندی کے باوجود جانب وزیراعظم کو دورہ لاہور کے دوران اچانک جناب چوہدری شجاعت حسین کی عیادت کے لئے ان کے گھر جانا پڑا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مخلوط حکومت کے اندر بھی گہرے اختلافات و فاصلے موجود تھے جو بہر حال مکمل ختم نہیں ہوئے۔ گو یہ اقدام مستحسن سماجی روایت کا آئنہ دار ہے لیکن سیاسی تناظر نے اس کی اخلاقی معاشرتی ساکھ کو متاثر کیا ہے کہا جا رہا ہے کہ اس ملاقات میں قاف لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں۔

مگر راوی نے بیان کیا ہے کہ جناب چوہدری شجاعت نے جناب عمران خان سے گلہ کیا کہ انہوں نے اپنی پہلی شادی پر انہیں مدعو نہیں کیا تھا۔ عمران خان صاحب نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا یہ تو بہت پرانی بات ہے مگر جواب میں جہاندیدہ سیاستدان نے مسکراہٹ کے ساتھ جو کچھ کہا وہ بڑا معنی خیز ہے۔ ”میں پرانی باتوں کو ہمیشہ یاد رکھتا ہوں“

کیا یہ جملہ اپنی معنویت میں غلط فہمیوں کے خاتمے کے ہم معنی ہے یا حکومت کی طرف سے اب تک ایفا نہ کیے گئے وعدوں پر تنبیہ؟

اگر ملتان کا جلسہ نہ ہوسکا تو پھر لاہور کے جلسے کا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا جس کی میزبانی محترمہ مریم نواز کرنے والی ہیں۔ انہیں ابھی سے اس بارے سنجیدگی سے اقدامات کرنے چاہئیں تاہم حکومت کو سیاسی اجتماع کو بذریعہ انتقامی طاقت، بے اثر کردینے سے اطمینان کی بجائے زیادہ گہری تشویش محسوس کرنی چاہیے کہ جمہوریت میں سیاسی احتجاج وہ عمل ہے جو چلتا رہے تو پانی کی طرح شفاف رہتا ہے اگر بہتے پانی پر روک لگ جائے تو وہ گدلا ہوجاتا ہے بد بو دار اور ناکارہ کسی کے کام نہیں آتا۔ یہ سمجھدار کے لیے اشارہ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).