ماضی کی رومانوی آوازیں


ناسٹلجیا انگریزی زبان کا لفظ ہے جسے مشتاق احمد یوسفی نے یادش بخیریا کا نام دیا ہے۔ خیر آپ کو علم معانی کے بکھیڑوں میں کیا الجھانا، آپ کو سادہ زبان میں سمجھاتا ہوں ناسٹلجیا سے مراد ہے ماضی میں کھونا۔ یعنی ماضی کو خوبصورت جاننا، ماضی کے حالات واقعات اور چیزوں کی محبت میں گرفتار رہنا۔ جب آپ کسی بوڑھے کو اپنے ماضی کے گن گاتے سنیں تو سمجھ جائیں کہ بابا جی ناسٹلجیا کے مریض ہیں۔ یہاں میں نے مریض کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ کسی حد تک ناسٹلجیا کو نفسیاتی بیماری گردانا جاتا ہے۔

میرے خیال میں ناسٹلجیا ان لوگوں کے لئے بیماری ہے جو ماضی کے گن گاتے اور حال کو کوستے رہتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اپنے ماضی کے سحر میں مبتلا ہونے کے ساتھ اپنے حال سے بھی مطمئن ہوں ان کے لئے یہ بیماری نہیں ہو سکتی۔ میں بھی اپنے ماضی کے سحر میں مبتلا ہونے کے ساتھ اپنے حال سے مطمئن ہوں اور اپنے مستقبل کے بارے میں پرامید ہوں۔ اس آرٹیکل میں میں ماضی کی چند خوبصورت اور سحر انگیز رومانوی آوازوں کا ذکر کروں گا جو گردش زمانہ کی وجہ سے یا تو بالکل ختم ہو چکی ہیں یا ختم ہوتی جا رہی ہیں۔

ابھی دھان کی فصل کی کٹائی کا موسم ختم ہوا ہے تو مجھے دھان کی فصل کی کٹائی کے ساتھ جڑی رومانیت یاد آ رہی ہے۔ جب دھان کی فصل تیار ہوتی تھی تو کھیت کے درمیان میں سے خوب رگڑ کر فصل کو درانتی سے کاٹا جاتا تھا تاکہ دھان چھانٹنے کے لئے جگہ بنائی جا سکے۔ اسے ’پڑ‘ بنانا بھی کہتے تھے۔ پھر کسی لکڑ ( سہاگے ) وغیرہ کا انتظام کیا جاتا تھا، یا مٹی کی چھوٹی سی دیوار بنائی جاتی تھی۔ جس پر دھان کو مار مار کر چھانٹا جاتا تھا۔

لیکن سب سے رومان انگیز چیز لوہے کا ڈرم ہوتا تھا۔ جب ڈرم پر دھان کو دھوبی پٹرا کی طرح مارا جاتا تو چھن چھن کی دلفریب آواز پیدا ہوتی۔ جب تمام فصل چھانٹی جاتی تو ہوا چلنے کا انتظار کیا جاتا، پھر ہوا کے رخ پر دھان کو اچھال اچھال کر صاف کیا جاتا تھا۔ یہ کام وقت طلب، محنت طلب کے ساتھ انتہائی سحرانگیز بھی ہوتا تھا۔ مگر آج کل تو ہارویسٹر مشین آتی ہے اور کسی بلا کی طرح چند گھنٹوں میں کھیتوں کے کھیت اپنے پیٹ میں ڈال لیتی ہے اور پھر فوراً ہی اسے اگل دیتی ہے تاکہ اسے بوریوں میں بھرا جا سکے۔

مجھے راہٹ اور کوہلو پے چلنے والے، کھیتوں میں ہل چلانے والے بیلوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی آواز یاد آتی ہے۔ اگرچہ میرے ہوش سنبھالنے تک بیلوں کی جگہ ٹریکٹر اور پانی کی موٹریں یا پیٹر لے چکے تھے تاہم یہ میرے ماضی کی سہانی یادوں کی آواز ہے۔ مجھے ٹانگے والے گھوڑے کے پاؤں کے نیچے لگے نعل کی آواز سے محبت ہے۔ جب گھوڑے کے سم پکی سڑک پر لگتے اور کھٹ کھٹ کی سحر انگیز آواز پیدا کرتے۔ مجھے بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے اونٹوں کے پاؤں میں پہنائے ہوئے چھنکنوں کی آواز سے محبت ہے۔

جب صحرا کے جہاز چلتے اور گھنگھرو بجتے۔ مجھے سائیکل کی گھنٹی کی آواز اور سائیکل کے ٹائروں کی تاروں میں ڈالی جانے والی گوٹیوں کی آواز سے محبت ہے۔ لیکن اب ان سب کی جگہ موٹر کاریں، موٹر سائیکل اور دوسری چیزیں لیتی جا رہی ہے۔ ابھی میں نے اپنی ماضی کی خوبصورت آوازوں کا ذکر کیا تو مجھے ترقی اور ٹیکنالوجی کا دشمن نہ سمجھیئے گا۔ بلکہ یہ سمجھیئے گا کہ کبھی کبھی اپنے ماضی کو یاد کر لینے میں قباحت ہی کیا ہے۔ ماضی کو یاد کرنے سے بندہ اپنی اصلیت سے جڑا رہتا ہے۔ ہماری زندگی کا رومانس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جدید دنیا میں جدید ٹیکنالوجی اور مشینری نے کام کو آسان بنا دیا ہے۔ جس میں محنت اور وقت کم لگتا ہے۔ مگر جتنا زیادہ وقت بچتا ہے لوگ اتنا ہی زیادہ مصروف ہوتے جا رہے ہیں کسی کے پاس قدرت کی خوبصورت آوازوں کو سننے کا وقت ہی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).