برطانیہ کے کینکس پر خواتین کے کنوارے پن کے متنازع ٹیسٹ کٹس کی دستیابی کا انکشاف


Female doctor with patient, file pic
بی بی سی نیوز بیٹ اور 100 ویمن کی جانب سے کی گئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ میں میڈیکل کلینکس پر خواتین کے لیے بنائے گئے متنازع کنوارے پن کے ٹیسٹ دستیاب ہیں۔

یہ ٹیسٹ خواتین کے جنسی اعضا میں آلہ داخل کر کے کیے جاتے ہیں اور اسے عالمی ادارہ صحت اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جا چکا ہے اور یہ دونوں ادارے اس عمل پر پابندی بھی لگوانا چاہتے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیسٹ ناصرف غیرسائنسی ہیں بلکہ ان کے ذریعے یہ بھی ثابت نہیں ہو سکتا کہ کوئی کنوارا ہے یا نہیں اور مزید یہ کہ یہ تشدد کی ایک قسم ہے۔

اس ٹیسٹ کے دوران اندام نہانی یا وجائنا کا معائنہ کیا جاتا ہے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ آیا اندام نہانی میں موجود بیرونی جھلی یعنی ہائمن درست حالت میں ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا دنیا میں سیکس ہر جگہ ایک جیسا ہے؟

’سیب ٹیسٹ‘ جیسی رسومات اور شادی کا خوف

کنوارہ پن ثابت کرنے کے لیے سرجری کا سہارا

’مسئلہ میری بیوی میں نہیں مجھ میں ہے اور اب میں اپنا علاج کروا رہا ہوں‘

بی بی سی کی جانب سے کی گئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ متعدد نجی کلینک ہائمن کو درست حالت میں کرنے کے لیے ہونے والے عمل کی تشہیر کر رہے تھے۔ اور جب ان رابطہ کیا گیا تو اس وقت وہ 150 سے 300 پاؤنڈ میں کنوارے پن کا ٹیسٹ بھی کر رہے تھے۔

بی بی سی نے 21 ایسے کلینکس کی نشاندہی کی ہے اور ان میں 16 سے اس حوالے سے رابطے بھی کیے۔ ان میں سے سات نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ’کنوارے پن کا ٹیسٹ‘ کرتے ہیں جبکہ متعدد دیگر ایسے بھی تھے جنھوں نے اس حوالے سے وضاحت نہیں کی۔

تمام کلینکس نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ہائمن کی مرمت کے لیے کی جانے والی سرجری کرتے ہیں جس پر 1500 سے 3000 ڈالرز رقم خرچ ہوتی ہے۔ این ایچ ایس انگلینڈ کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ پانچ برس کے دوران انگلینڈ میں ہائمن کو درست حالت میں بحال کرنے کی 69 سرجریاں کی گئی ہیں۔

نیوز بیٹ نے ایک ایسی خاتون کی کہانی سنی ہے جس کی کارما نروانا نامی فلاحی تنظیم کی جانب مدد کی گئی تھی اور جو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر تشدد اور زبردستی شادی کا شکار ہوئی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘میرے والدین کے ساتھ میرا جذباتی طور پر پرتشدد رشتہ رہا ہے جو میری شادی اپنی مرضی سے کروانا چاہتے تھے۔’

بھاگ جانے کے علاوہ کوئی حل نہیں تھا

’ایک دن میری برادری کے کسی بزرگ نے مجھے اپنے دوستوں کے ساتھ گھر سے باہر دیکھ لیا اور میری والدہ کو بتایا کہ ان دوستوں میں سے ایک میرا بوائے فرینڈ ہے۔ پوری کمیونٹی میں اس حوالے سے بہت ساری افواہیں پھیل گئیں۔‘

اس واقعے کے بعد ان کے والدین نے ان کا ’کنوارے پن کا ٹیسٹ‘ کروانے کی دھمکی دی۔

’میرے والدین اور اس لڑکے کا خاندان، جس سے وہ میری شادی کروانا چاہ رہے تھے، چاہتے تھے کہ میں کنوارے پن کا ٹیسٹ کرواؤں تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ میں کنواری ہوں اور شادی کی جا سکے۔‘

‘میں بہت ڈری ہوئی تھی اور مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ مجھے لگا کہ میرے پاس بھاگ جانے کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے اس لیے میں نے یہی کیا۔‘

A bride in Sudan holding a bouquet of flowers

پریا منوٹا کارما نروانا کی ہیلپ لائن چلاتی ہیں۔

‘ہمیں ایسی لڑکیوں کی کالز بھی موصول ہوئی ہیں جنھیں اس حوالے سے خدشات ہیں۔ شاید وہ پریشان ہیں کہ ان کے گھر والوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ رشتے کے بندھن میں بندھ چکی ہیں یا یہ کہ وہ کنواری نہیں ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے گھر والے ان پر ٹیسٹ کروانے کے حوالے سے دباؤ ڈال رہے ہیں اور وہ پریشان ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔‘

‘غیرت کے نام پر تشدد اور زبردستی کی شادی جیسے مسائل کا آغاز کسی غیرازدواجی رشتے میں بندھنا ہو سکتا ہے، یا اپنا ساتھی خود چننا یا پھر کسی کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرنا۔ ہمیں یہ بھی علم ہوا ہے کہ متعدد ایسی خواتین کو قتل بھی کیا گیا ہے۔ دیگر متاثرہ خواتین کو ان کے خاندان نے الگ کر دیا۔’

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کنوارے پن کے ٹیسٹ دنیا بھر کے 20 ممالک میں کیے جاتے ہیں اور ادارے کے مطابق اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ان کے ذریعے یہ ثابت ہو کہ کسی خاتون یا لڑکی نے سیکس کیا ہے یا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہائمن متعدد وجوہات کے باعث متاثر ہو سکتی ہے جس میں ٹیمپون کا استعمال اور ورزش شامل ہے۔

گذشتہ برس امریکی گلوکار ٹی آئی کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے ایک پاڈکاسٹ کے دوران یہ انکشاف کیا تھا کہ ان کی وہ اپنی اپنی بیٹی کا ہر سال ٹیسٹ کروا کر یہ جانتے ہیں کہ ان کی ہائمن متاثر تو نہیں ہوئی۔

‘پلاسٹک کے چمٹے اور خون کے جعلی نمونے’

اس کے علاوہ بی بی سی کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہائمن کی مرمت کے لیے کٹ 50 پاؤنڈ میں آن لائن فروخت ہو رہی ہے۔

جرمنی سے ایک کٹ 104 پاؤنڈ کی بھی ملتی ہے۔ اس میں 60 ملی لیٹر کی اندام نہانی کو سکیڑنے کے لیے ایک جیلی نما مادہ، پلاسٹک کی چمٹیاں، ایک بلڈ کیپسول، اور تین ایسی پڑیاں جن میں جعلی خون کے نمونے تھے۔ کٹ کو استعمال کرنے سے متعلق کوئی ہدایات نہیں دی گئی تھیں۔

ڈاکٹر اشفاق خان ایک گائناکولوجسٹ ہیں اور ان کے مریض اکثر انھیں کنوارے پن کا ٹیسٹ کرنے اور ہائمن کی مرمت سے متعلق درخواست کرتے رہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘مجھے یہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ یہ برطانیہ میں غیرقانونی کیوں قرار نہیں دیا گیا۔ اسے غیر قانونی قرار دے دینے چاہیے۔ اس سارے عمل کا بنیادی مقصد یہ پتا کرنا ہے کہ ہائمن کا ایک حصہ غائب ہے تو آپ کنوارے نہیں ہیں، یہی بات غلط ہے۔

ہائمن یا اندام نہانی میں موجود جھلی متعدد وجوہات کی بنیاد پر متاثر ہو سکتی ہے اور اگر میں یہ کہتے ہوں کہ ہاں یہ متاثر ہے اور میں اسے ٹھیک کردیتے ہوں تو میں آپ کو سرٹیفیکیٹ دے رہا ہوں، لیکن یہ ایک جھوٹا سرٹیفیکیٹ ہے۔

‘معاشرے میں آگاہی پیدا کرنا’

ان کا ماننا ہے کہ اس عمل کے خلاف مزید کارروائی کی ضرورت ہے۔

انھوں نے نیوز بیٹ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘ویسے ہی جیسے فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن یا خواتین کے جنسی اعضا کاٹنے کے خلاف موثر انداز میں بات کی گئی تھی اور دنیا بھر کے رہنماؤں نے اس مسئلے کے حوالے سے بات کی تھی۔’

‘اور میرے نزدیک یہ ایک جرم ہے۔ اور ہم ایک ایسے عمل کے ساتھ خود کو منسلک کر لیتے ہیں جو اخلاقی اعتبار سے غلط ہے۔’

اس سال کے اوائل میں دی مڈل ایسٹرن ویمن اینڈ سوسائٹی آرگنائزیشن کی جانب سے کنوارے پن کےٹیسٹ پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے مہم کا آغاز کیا گیا تھا اور اس موضوع پر مزید آگاہی فراہم کرنے کے بارے میں بھی بات کی گئی تھی۔

اس ادارے کی بانی ہلالے طاہری کا کہنا ہے کہ ‘حالانکہ ہم چاہیں گے ہائمن کی مرمت پر پابندی عائد کریں، آگاہی کے بغیر اس عمل پر پابندی عائد کروانے سے نقصان زیادہ ہو سکتا ہے۔ ان ٹیسٹوں پر صرف اس لیے کاروبار کیا جا رہا ہے کیونکہ یہاں کنوارے پن سے منسل ایک فرسودہ سوچ موجود ہے۔

‘اگر ہم اپنی برادریوں کو آگاہی فراہم کریں تو ہم اس سوچ کو بدل سکتے ہیں پھر شاید ہائمن کی مرمت کی بھی ضرورت نہ پڑے اور اس پر کاروبار بھی ختم ہو جائے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32492 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp