چار صحافی اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن سے دست بردار، معاملہ کیا ہے؟


پاکستان میں اشتہاری اور مفرور ملزمان کے میڈیا پر دکھانے پر پابندی کا معاملہ اور پیمرا کی جانب سے اس بارے میں جاری احکامات پر ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں سے چار صحافیوں نے اپنے نام نکلوا لیے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمعرات کو اس معاملے پر سماعت شروع ہوئی تو دو خواتین صحافیوں غریدہ فاروقی اور محمل سرفراز نے پٹیشنر میں رہنے کی استدعا کی جو عدالت نے منظور کر لی۔

اس سے قبل مذکورہ دونوں صحافیوں نے پٹیشن سے دست بردار ہونے کے لیے عدالت میں درخواست جمع کرائی تھی۔

عاصمہ شیرازی، سلیم صافی، نسیم زہرہ اور زاہد حسین درخواست میں سے نام نکالنے والوں میں شامل ہیں۔ ​جب اُن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے بات کرنے سے معذرت کر لی۔

البتہ صحافی زاہد حسین نے محض اتنا کہا کہ “میں نے تمام صحافتی زندگی میں جانب داری سے کام نہیں لیا۔ ایک غلط فہمی کی بنیاد پر میرا نام درخواست میں شامل ہوا لیکن اب نام واپس لے لیا ہے۔”

صحافیوں کی طرف سے دائر پٹیشن پر اُنہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

حکومتی ترجمان شہباز گل کہتے ہیں جب آپ کی سیاسی وابستگی عیاں ہو چکی ہے تو اب پٹیشن میں نام رہے یا آپ واپس لے لیں، اس سے کیا فرق پڑے گا۔

صحافیوں کی پٹیشن کا معاملہ کیا ہے؟

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے لندن سے پاکستان میں ایک جلسے سے خطاب کے بعد پیمرا نے رواں برس یکم اکتوبر کو ایک حکم نامے میں ٹی وی چینلز کو مفرور ملزمان کے بیانات نشر کرنے سے روکنے کا مراسلہ جاری کیا تھا۔

بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں انسانی حقوق کمیشن، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اور 16 صحافیوں کی طرف سے رواں ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی۔

درخواست گزاروں میں صحافی عاصمہ شیرازی، سلیم صافی، غریدہ فاروقی، نجم سیٹھی، زاہد حسین، منیزے جہانگیر، غازی صلاح الدین، آئی اے رحمان، سلیمہ ہاشمی، محمد ضیا الدین، زبیدہ مصطفیٰ، نسیم زہرہ، امبر شمسی، محمل سرفراز، منصور علی خان اور سید اعجاز حیدر شامل ہیں۔

نواز شریف کے الزامات پر عمران خان کے جوابی وار اور پیمرا کی پابندی، ہو کیا رہا ہے؟

پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے الیکٹرانک میڈیا پر غیر آئینی و غیر قانونی قدغن لگائی گئی ہے۔ پیمرا کے یکم اکتوبر کو جاری احکامات آئین کے آرٹیکل 19 اے سے متصادم ہیں جو شہریوں کو آزادیٔ اظہار رائے اور معلومات کی فراہمی کا حق فراہم کرتا ہے۔

عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ تعین کرے کہ کیا ایک اشتہاری اور مفرور شخص آرٹیکل 19 کے تحت آزادیٔ اظہار رائے کا حق نہیں رکھتا؟ کیا الیکٹرانک میڈیا اپنا حق استعمال کرتے ہوئے کسی اشتہاری شخص کے بیانات کی تشہیر نہیں کر سکتا؟

درخواست میں مزید استدعا کی گئی ہے کہ عدالت پیمرا کا یکم اکتوبر کا حکم نامہ غیر قانونی قرار دے اور قریقین کو آئندہ اس قسم کے احکامات جاری کرنے سے ہمیشہ کے لیے روکے۔

پیمرا کا حکم نامہ کیا تھا؟

رواں برس یکم اکتوبر کو پیمرا نے ملک کے تمام لائسنس یافتہ ٹی وی چینلوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ مفرور اور اشتہاری قرار دینے جانے والے افراد کے انٹرویوز، تقاریر اور خطابات نشر نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کی ریکارڈنگ چلائی جا سکتی ہے۔

پیمرا کے اس حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اشتہاری مجرم کی تقاریر نشر کرنے والے چینل کے لائسنس معطل ہو سکتے ہیں۔

کسی مفرور کے لیے کوئی ریلیف نہیں: جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ اس پٹیشن کی پہلی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت مفرور ملزموں کو ریلیف نہیں دے سکتی۔ یہ پارلیمنٹ کا سوال نہیں بلکہ عدلیہ پر اعتماد کا ہے۔ غیر قانونی حکم کو بھی کوئی مفرور کہیں چیلنج نہیں کرسکتا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ ہر مفرور چاہے گا کہ اسے آن ایئر ٹائم دیا جائے۔ ملزم پہلے سرنڈر کریں پھر قانونی حقوق سے فائدہ اٹھائیں۔

انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مفرور کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی مگر الزام عدلیہ پر لگا۔ پرویز مشرف کیس میں کہہ چکے ہیں کسی مفرور کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے۔

صحافیوں کے پٹیشن پر اختلافات؟

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اس پٹیشن میں سے چار صحافیوں نے جمعرات کو دست بردار ہونے کے لیے عدالت میں درخواست جمع کرائی۔ ان میں اینکر پرسن نسیم زہرہ، زاہد حسین، عاصمہ شیرازی اور سلیم صافی شامل ہیں۔

ان چاروں صحافیوں نے عدالت میں وکیل کے ذریعے اس پٹیشن سے نام واپس لینے کی استدعا کی جو عدالت نے منظور کر لی۔

اس پٹیشن پر صحافیوں کے اختلافات کا آغاز اس کی پہلی سماعت کے بعد ہی سامنے آ گئے تھے۔ صحافی عاصمہ شیرازی نے اس حوالے سے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ میں نے پیمرا احکامات کے خلاف اور آزادی صحافت کے لیے اس پٹیشن کا حصہ بننے کی غرض سے رضامندی ظاہر کی تھی لیکن عدالت میں یہ پٹیشن جس طرح پیش کی گئی اس سے لگتا ہے کہ یہ کسی مخصوص شخص کے لیے دائر کی گئی۔

صحافی منصور علی خان نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پٹیشن کسی سیاسی جماعت کی حمایت میں نہیں ہے۔ جب ہمارے وکیل سلمان اکرم راجہ سے عدالت سے سوال کیا کہ آپ کس کے لیے ریلیف مانگ رہے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ اس سے کوئی ایک شخص متاثر نہیں بلکہ بہت سے فریق ہیں۔

اشتہاری ملزموں کی تقاریر دکھانے کی اجازت کیوں دیں؟ اسلام آباد ہائی کورٹ

انہوں نے کہا کہ “ہم تو اظہار آزادی کی بات کر رہے ہیں۔ اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو صرف نواز شریف یا اسحاق ڈار کے لیے نہیں ہو گا بلکہ سب کے لیے ہو گا۔ ہمارے لیے بھی ہو گا اور پرویز مشرف کے لیے بھی ہو گا۔”

ان کے بقول درخواست میں نواز شریف اور اسحاق ڈار کا نام بطور ریفرنس استعمال کیا گیا تھا۔

ٹی وی مالکان کی طرف سے عدالت میں درخواست دائر نہ کرنے سے متعلق سوال پر منصور علی خان نے کہا کہ یہ مالکان کا فیصلہ ہے۔ اگر وہ نہیں آتے تو ان کی مرضی۔ یہ فیصلہ ٹی وی چینل کی انتظامیہ کا ہونا چاہیے کہ کس کا انٹرویو نشر کرنا ہے اور کس یا نہیں، پیمرا کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے۔

اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے کہا کہ جو لوگ صحافیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، انہوں نے درخواست کو پڑھا ہی نہیں۔ ان کے بقول یہ درخواست کسی سیاسی جماعت کے لیے نہیں بلکہ پیمرا کے خلاف ہے جو لوگ کہہ رہے کہ اس درخواست کا تعلق نواز شریف سے ہے تو درخواست کو پڑھے بغیر ہی اس پر بحث شروع کر دی گئی ہے۔

غریدہ فاروقی نے کہا پاکستان کے آئین اور قانون میں ایسی کوئی شق نہیں جس کے تحت آپ صحافیوں پر ایسی پابندی لگا سکتے ہیں۔ کوئی قانون مجرم اور اشتہاری کے انٹرویو نشر کرنے سے نہیں روکتا۔

صحافیوں کی طرف سے اس پٹیشن کی اطلاع آنے پر اور سوشل میڈیا پر اسے دو شخصیات سے منسوب کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اداروں کو آئینی حدود میں رہنا ہو گا: شاہد خاقان عباسی

وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو بغیر پڑھے عدالتوں میں پٹیشن کرتے جا رہے ہیں۔ شبہاز گل کے بقول آپ نے اصل صحافیوں اور صحافت کا بھی نقصان کیا ہے۔

شہباز گل نے ان صحافیوں کی طرف سے پٹیشن سے دست بردار ہونے کے بعد دوبارہ ٹوئٹ کی اور کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے جرنلسٹ ونگ میں شامل بہت سارے لوگ اب مفرور نواز شریف کے حق میں دی گئی پٹیشن واپس لے رہے ہیں۔

پاکستان یونین آف جرنلسٹس (پی یو ایف جے) کے ایک دھڑے کے جنرل سیکرٹری ناصر زیدی ہیں جنہوں نے عدالت میں پی یو ایف جے کو اس پٹیشن میں فریق بنایا ہے۔ تاہم پی ایف یو جے کا ایک اور دھڑا بھی موجود ہے جس کے سیکرٹری رانا عظیم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ صرف ان کی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس سے منسلک ہے۔

رانا عظیم کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی طرف سے دائر اس پٹیشن پر انہوں نے عدالت عالیہ میں درخواست دائر کی ہے کہ انہیں بھی فریق بنایا جائے۔ کیوں کہ ان کے بقول اُن کی تنظیم کے نام کو غلط طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

رانا عظیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی صحافی کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرنا چاہتا ہے تو ان کے میڈیا سیل کو جوائن کر لے لیکن ان سینئر صحافیوں نے تمام عمر کبھی کسی صحافی کو بے روزگار کیے جانے پر، تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور ان کی مشکلات پر بات تک نہیں کی اور اب سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن کر عدالتوں میں جا رہے ہیں اور ان کے لیے ریلیف چاہ رہے ہیں۔

پیمرا کے احکامات کے خلاف عدالتوں سے رجوع

پیمرا کے احکامات کے خلاف عدالتوں سے پہلی مرتبہ رجوع نہیں کیا جا رہا بلکہ ماضی میں بھی کئی معاملات میں میڈیا ہاؤسز اور صحافی عدالتوں کا رخ کر چکے ہیں۔

مئی 2017 میں سلیم صافی کے کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے ساتھ کیے گئے انٹرویو کو بھی پیمرا کی جانب سے روک دیا گیا تھا جس پر جنگ گروپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

عدالت نے یہ پروگرام نشر کرنے کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد یہ انٹرویو نشر کیا گیا۔

اسی طرح اکتوبر 2019 میں پیمرا کی طرف سے ایک چینل کے صحافی کو دوسرے چینل کے پروگرام میں جانے پر پابندی کے حکم نامے کے خلاف بھی صحافیوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور پیمرا کو اپنا حکم نامہ تبدیل کرنا پڑا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa