مقصد، نصب العین اور عدل


یہ تین باتیں کسی انسان اور قوم کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ جب ارادہ کیا جائے اس کو مقصدیا مقصدیت کہتے ہیں۔ نصب العین مقصد اعلیٰ کو بھی کہتے ہیں۔ حوصلہ رکھنا، کسی چیز کو حاصل کرنا، تلاش کرنا نصب العین اور عدل کے معنی انصاف کرنے کے ہیں۔

زندگی گزارنے کے لئے ہر انسان کا کوئی نہ کوئی مقصد ارادہ اور نصب العین ہوتا ہے اسی طرح کسی قوم کے لئے بھی اس کے بغیر زندگی بے معنی اور فضول ہے۔ ایک کامیاب معاشرہ کے تصور اور عام انسان کی زندگی کے لئے اس کا تعین کرنا بہت ضروری امر ہے۔ آج جن قوموں نے دنیا میں ترقی اور بلند مقام حاصل کیا ہے یہ ان کے بنیادی اصول تھے۔ قیادت کا بنیادی مقصد انسانوں کی درست رہنمائی اور ان کے مسائل کا آسان حل فراہم کرنا ہوتا ہے۔ باشعور، باصلاحیت اور دیانت دار قیادت نہ صرف انسانی مسائل کے حل میں ہمیشہ مستعد و سرگرم رہتی ہے۔ بلکہ معاشرے کی خوشحالی، امن اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

قیادت متعین مقاصد کے حصول کے لئے عوام کے بلا جبر کردار کے مجموعہ کو قیادت کہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پیارے نبی اکرمﷺ ہرجہت سے مسلمانوں کے سرپرست و رہبر تھے۔ آپﷺ نے ہمیں دنیا کے بہترین اصول دیے اور خود ان پر عمل کر کے دنیا کو بتایا کہ اسی سے ایک عام شہری، معاشرہ اور قومیں ترقی پاسکتی ہیں۔

قائداعظم یعنی سب سے عظیم رہبر کو بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک مقصد اور نصب العین کے تحت برصغیر پاک و ہند میں ایک لمبی سیاسی جدوجہد کی۔ 1940 ء میں محمد علی جناح نے ہندوستان کے مسلمانوں کے ایک علیحدہ وطن کے لئے قرارداد پاکستان پیش کی جس کا مقصد نئی مملکت کے قیام کا مطالبہ تھا۔ جس کے بعد 14 ؍اگست 1947 ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ آپ نے 11 اگست کو کراچی میں اسمبلی کی صدارت کرتے ہوئے فرمایا!

آپ آزاد ہیں، آپ ریاست پاکستان میں آزاد ہیں کہ چاہیں تو اپنے مندر میں جائیں یا مسجد میں اور یا اپنی کسی دوسری کی عبادت گاہوں پر، آپ کا تعلق بھلے کسی مسلک یا عقیدے سے ہو۔ اس سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے سامنے اس بات کو نظریہ سمجھ کر رکھنا چاہیے اور آپ دیکھیں گے کہ ہندو، ہندو اور مسلمان مسلمان رہیں گے۔ کیونکہ یہ ہر انفرادی بندے کا ذاتی عقیدہ ہے۔ جبکہ سیاسی نظر میں وہ ریاست کے شہری ہیں۔

ہمارے قائد بانیٔ پاکستان کا یہ وہ مقصد، نصب العین تھا اور عدل سے انہوں نے ایک عام شہری اور معاشرہ کو جو پیغام دیا وہ وہی کر سکتا ہے جو قوم اورملک کے ساتھ مخلص، دیانتدار اور وفا شعار ہو۔ آج ہمیں قائد کے علاوہ کوئی رہبر اور رہنما میسر نہیں چراغ لے کر ڈھونڈیں تب بھی نظر نہیں آئے گا۔ ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ مذہبی انتہا پسندی ہے ان کے رہنماؤں نے فرقہ واریت کو خوب ہوا دی اور پاکستانی قوم کو منتشر کر دیا۔

ان کو قائد کے نصب العین سے ہٹا دیا اس میں سیاست دانوں کی مصلحت اور مفاہمت کی سیاست پروان چڑھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج عام شہری خوف اور پریشانی کا شکار اور فکرمند ہے۔ افسوس کہ عدل کا نظام کہیں نظر نہیں آتا۔ شعبہ ہائے زندگی میں اس کا فقدان ہے ریاست، عدالتیں، پولیس اور دیگر ذمہ دار ادارے بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ آئے دن بچوں کا اغوا، معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتیاں، قتل و غارت اور اقلیتوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ایک ماہ میں تین احمدیوں کا قتل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ریاست پاکستان اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی اور وہ مذہبی انتہاء پسندی کو روکنے میں ناکام ہے اسی لئے آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے جا رہے ہیں۔

جس فلاحی معاشرہ میں عادلانہ نظام موجود نہ ہو وہ ریاست مدینہ کا نعرہ کیسے لگا سکتی ہے۔ اصل ریاست مدینہ میں تو عیسائی، یہودی اور دیگر اقوام ایک ساتھ رہتی تھیں اور خوشحال تھیں۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ان 70 سالوں سے ہمیں ہر حکومت نے نیا نعرہ دے کر ناسمجھ عوام کو اپنے پیچھے لگا یا ہواہے۔ پاکستانی سیاست میں جھوٹ، دھوکہ، فریب، مصلحت مفاہمت کے علاوہ کچھ نہیں۔ لیکن یاد رکھیں جب خداتعالیٰ کی طرف سے پکڑ آتی ہے تو کسی کو چھپنے کی جگہ نہیں ملتی اور مکافات عمل کے واقعات پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں۔

پچھلے حکمرانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا کیا ہم سب بھول گئے؟ ایک نہ ایک دن سب کو انصاف کے کٹہرے میں آنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورةالمائدہ آیت: 9 میں فرماتا ہے۔ ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ ہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔

یقیناً اللہ اس بات سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔ علاوہ ازیں المطففین کی سورة میں میزان کی طرف انسان کو متوجہ فرمایا گیا ہے کہ تم تبھی کامیاب ہوسکتے ہو اگر عدل پر قائم ہو۔ یہ نہ ہو کہ لینے کے پیمانے اور ہوں اور بانٹنے کے پیمانے اور۔ اس میں اس دور کی تجارت کا بھی تجزیہ فرما دیا گیا ہے۔ بڑی بڑی قومیں جب بھی غریب قوموں سے سودا کرتی ہیں تو لازماً اس سودے میں ہمیشہ غریب قوموں کا نقصان ہوتا ہے۔ فرمایا۔

کیا یہ لوگ سوچتے نہیں کہ ایک بہت بڑے حساب کتاب کے دن وہ اکٹھے کیے جائیں گے۔ جس میں ان دنیا کے سودوں کا بھی حساب ہوگا یہ وہ یوم الدین ہے جس کا ذکر فرما کر متنبہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں یہ بھی حکم ہے کہ اگر تمہیں اپنے عزیز (قریبی) رشتہ داروں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دیں یہی عدل و انصاف ہے۔ اور یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ریاست کے اداروں، سیاستدانوں، مذہبی رہنماؤں اور ہر شہری کو متعین کردہ مقصد، نصب العین اور عدل و انصاف کو مدنظر رکھنا ہوگا۔

ان اصولوں پر اجتماعی طور پر عمل کرنے سے من حیث القوم ترقی ہو سکتی ہے ورنہ سب کچھ بہہ جائے گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی قومیں ایک تو مجرم کہلاتی ہیں دوسرا وہ ماضی کا قصہ بن جاتی ہے۔ لہٰذا ان ریاست کے اداروں سے نیک دلی، عاجزی اور مؤدبانہ درخواست ہے کہ بانیٔ پاکستان کی تحریک، جدوجہد، ان کے اصولوں کو فراموش اور پامال نہ کریں ورنہ تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اب اصلاح کے لئے اوپر سے کوئی نہیں آئے گا جنہوں نے آنا تھا آ گئے انہی کی باتوں پر عمل کریں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).