پی ڈی ایم جلسوں پر کیوں مصر ہے؟


صورت حال عجیب سی ہے۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی دوسری لہر آ چکی ہے۔ اس مرتبہ متاثرین میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو شہرہ آفاق ہیں۔ عام لوگوں کا تو ذکر ہی کیا۔

پاکستان میں سیاست دان، مذہبی رہنما، شوبز سے متعلق افراد، کھلاڑی، بیوروکریٹ، جج، وکیل، فوجی، سرکاری اور نجیملازم، کاروباری اور عام لوگ سبھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ اس مرتبہ پھیلاؤ کی رفتار پہلے کے مقابلے میں تیز ہے اوراس کی ہلاکت خیزی کی شرح بھی کچھ زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔

باشعور اقوام ایسے میں سب سے پہلے اپنی حفاظت کا سوچتی اور اس کے لیے انتظامات کرتی ہیں۔ اور جو ایسا نہیں کرتیں وہ بانہیں پھیلا کر مصیبت کو گلے لگاتی ہیں۔

پاکستان میں مگر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ حکومت اور اپوزیشن بھی اس مرتبہ غیر سنجیدہ ہیں۔

عوام کو تو خیر کیا کہا جائے، اندھی عقیدت اور نفرت پر مبنی جذبات نے سوچنے سمجھنے کے قابل چھوڑا ہی کہاں ہے، مگر عوام کی حفاظت کی ذمہ دار حکومت بھی انتہائی غیر سنجیدہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ سونے پہ سہاگہ اپوزیشن بھی ایسے کٹھن وقت میں خم ٹھونک کر میدان میں اتری ہوئی ہے۔

اکتوبرکے مہینے کے شروع تک پاکستان میں نئے کورونا کیسز کی شرح کم تھی۔ پھر اپوزیشن اور حکومت نے پاکستانکے مختلف شہروں میں جلسے شروع کیے اور گلگت بلتستان کے انتخابات کی وجہ سے وہاں بھی جلسوں کا انعقاد کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں دیکھتے ہی دیکھتے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آ گئی جس کی وجہ سے تعلیمی ادارے بھی بند کرنے پڑ گئے۔

حکومت نے تاخیر سے سہی مگر صورت حال کا ادراک کیا

اور کوئی جلسہ جلوس نہ کرنے کا اعلان کیا کیونکہ جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد شامل ہوتی ہے اور اس میں کوروناوائرس سے متعلق ایس او پیز پر عمل تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اپوزیشن جماعتیں بھی صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے کچھ عرصہ کے لیے اپنے جلسے جلوس معطل کرنے کا فیصلہ کریں گی کیونکہ عوامکی حفاظت بہرحال مقدم ہونی چاہیے۔

مگر اپوزیشن کے سخت اور بے لچک موقف اور جلسوں پر مسلسل اصرار ان شبہات کو بھی جنم دیتا ہے کہ کہیں ناکہیں اپوزیشن کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو تیز تر کرنے کی شعوری کوشش میں مصروف ہے تاکہ حکومت کو مزید معاشیدباؤ میں لایا جا سکے۔

وزیراعظم عمران خان مکمل لاک ڈاؤن کے امکان کو مسترد کر چکے ہیں، جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت کوروناوائرس سے نبٹنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ اگر حکومت موثر طور سے کورونا سے نبٹنا چاہتی ہے تو مکمل لاک ڈاؤن نافذکیا جائے۔ اگر حکومت پورے ملک میں اسی سال مارچ کی طرح لاک ڈاؤن لگاتی ہے تو پہلے سے ہی دگرگوں ملکیمعیشت مزید تنزلی کا شکار ہوتی چلی جائے گی اور اپوزیشن کے ہاتھ حکومت کو رگیدنے کا موقعہ آ جائے گا۔

اور اگرحکومت لاک ڈاؤن نہیں کرتی تو بڑھتے ہوئے کورونا کیسز کی وجہ سے طبی شعبے پر بے انتہا دباؤ آئے گا (جو کہ آ رہا ہے ) اور متاثرین کی بڑھتی تعداد کے باعث حکومت شدید تنقید کی زد میں آ جائے گی۔ اقوام متحدہ اور صحت سے متعلق بینالاقوامی ادارے بھی ماضی میں کورونا سے نبٹنے کی منصوبہ بندی کو دیکھتے ہوئے حکومت پر مکمل لاک ڈاؤن کے لیے دباؤڈال سکتے ہیں اور حکومت کو بالآخر مجبوراً لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑ سکتا ہے۔

اس صورت حال کو ذہن میں رکھتے ہوئے نظربظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اسی سوچی سمجھی حکمتعملی کے تحت اپنے جلسے منعقد کر رہی ہیں تاکہ حکومت کو معاشی محاذ پر مفلوج کیا جائے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکومت نے پاکستان پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر آج ملتان میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے میں ابتدائی طور پر شدید رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بعد بالآخر رکاوٹیں ہٹا کر اپوزیشن کو عین آخری لمحات میں فری ہینڈ دے دیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم اس جلسے میں اور جلسے کے بعد کیا موقف اختیار کرتی ہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad