تحریک، سرگرمی اور بجٹ


پاکستان میں ہم نے پچھلے سات عشروں میں دیکھا ہے کہ ترقی اور خاص طور پر انسانی ترقی ہمارے بجٹ بنانے والوں کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں ہے جنہوں نے عوام کی بنیادی ضرورتوں مثلاً تعلیم اور صحت کو مسلسل نظرانداز کیا ہے اور ان کے بجائے دیگر ترجیحات کو اولیت دی ہے۔

مثلاً تعلیم کی بجائے تباہی کے اوزار جیسے بم اور گولا بارود، ٹینک اور توپوں کو ترجیح دی ہے۔ ہم نے کتابوں کے بجائے بموں کے انبار جمع کیے ہیں اور اس پر شرم کرنے کے بجائے ہم فخر کا اظہار کرتے ہیں۔

عوام کے لیے ہمارا صحت کا نظام بری حالت میں ہے۔ تعلیمی ادارے اچھی تعلیم سے نابلد اور محروم ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہماری حکومتیں چاہے آمرانہ فوجی حکومتیں ہوں یا نام نہاد جمہوری آخر کیوں عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دیتیں؟

اس سوال کے کئی جواب ہوسکتے ہیں۔ انسانی ترقی کو ترجیح بنانے کے لیے ہمیں کچھ پالیسی فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور ان فیصلوں کے لیے یا تو سیاسی سطح پر دوراندیش لوگ موجود ہوں جو فیصلہ سازی کرسکیں یا پھر سول سوسائٹی جن میں ماہرین، معلم اور دانش ور شامل ہوں جو تحریک اور سرگرمی کا حصہ بن سکیں جن سے حکومتوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی ترجیحات بدلیں اور انسانی ترقی کو اولیت دیں۔ تحریک اور سرگرمی کے بغیر کچھ بھی کرنا بہت مشکل ہے اس لیے اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم کوئی کیمپین یا مہم چلا سکتے ہیں، احتجاج کا راستہ اپنا سکتے ہیں تاکہ تعلیم و صحت وغیرہ کے لیے مطالبات آگے بڑھائے جائیں۔ جب ہم جان بوجھ کر عدم سرگرمی کو اپناتے ہیں تو معاشرے میں فیصلہ ساز لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ اپنی حرکتیں جاری رکھیں اور غلط فیصلے کرتے رہیں جس کے خود فائدے اٹھائیں لیکن عوام بنیادی سہولتوں سے محروم رہیں۔ اس طرح کی کسی ممکنہ سرگرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے فیصلہ ساز قوتیں اور طاقتور حلقے اپنے لامحدود وسائل کا استعمال کرتے ہیں جو دراصل عوام کے وسائل ہی ہوتے ہیں۔

اس طرح معاشی ترجیحات کا یک رخہ بیانیہ پیش کیا جاتا ہے۔ انسانی ترقی کے لیے مطالبے کرنے والی کسی تحریک یا سرگرمی کو کچلنے کے لیے بنیادی حقوق پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں۔ مظاہروں پر پابندی لگانے کی کوششیں کی جاتی ہیں جو صرف پاکستان میں نہیں بل کہ امریکا اور ایران سے لے کر بھارت اور چین تک ممکن ہے۔ عوام کو ایسی سرگرمی سے دور رکھنے کے لیے منظم فسادات بھی کرائے جاتے ہیں تاکہ لوگ پرامن سیاسی سرگرمیوں سے بھی دور رہیں اور خود کو محفوظ رکھنے میں ہی مصروف رہیں۔

اس کے علاوہ الزامات کا بھی سہارا لیا جاتا ہے یعنی لوگوں کے خلاف بھی مقدمات قائم کیے جاتے ہیں کہ انہوں نے امن وامان کا مسئلہ پیدا کیا۔ اکثر پرامن سیاسی سرگرمیوں کو بائیں بازو کا قرار دے کر لعن طعن کی جاتی ہے۔ الٹے سیدھے القابات لگائے جاتے ہیں۔ کبھی ”این جی او“ کے نام کو اتنا بدنام کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ کوئی قابل شرم چیز ہو۔ کبھی ریاست دشمنی کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ چاہے وہ ارمان لونی یا اروندھتی رائے، نوم چومسکی ہوں یا شیریں عبادی سب پر الزام لگائے جاتے ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو تو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے کیوں کہ وہ بنیادی انسانی ضرورتوں کی فراہمی کے لیے ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں۔ جب آپ عوام کے لیے تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں مانگیں تاکہ صرف چند مخصوص طبقات کے علاوہ سب کی یہ ضرورتیں پوری کرنا ریاست کا ذمہ ٹھرائیں تو ریاستی اہل کاروں کو یہ باتیں اچھی نہیں لگتیں کیوں کہ وہ خود اور ان کے پورے خاندان کو یہ سہولتیں وافر مقدار میں میسر ہوتیں ہیں اور خود انہیں مرتے دم تک پینشن اور صحت کی فراہمی ریاست اپنے ذمے لیتی ہے۔

لیکن اگر اس سب کا مطالبہ آپ عوام کے لیے کریں آپ کو متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور آپ کے مطالبات اور بیانیے کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ پھر دائیں بازو کے عناصر کو سامنے لایا جاتا ہے جو قوم پرستی اور مذہبیت یا حب وطنی اور فرقہ واریت کا پرچار کر کے بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا دیتے ہیں چاہے وہ بھارت میں ہندو قوم پرست ہوں یا ناتزی جرمنی کے آریائی یہ سب جمہوریت اور اچھی تعلیم کے دشمن ہوتے ہیں اور اپنے بیانیے کو زبردستی سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو بھی انسانی حقوق اور عوامی مسائل ضروریات کی بات کرے اسے نشانہ بناتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ جب بھی سماج میں اس طرح کے رجحانات پروان چڑھائے جا رہے ہوں تو انہیں للکارا جائے مگر پرامن طریقے سے کیوں کہ تشدد کا نقصان عوام کو ہی ہوتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا حالیہ برسوں میں جب بھی عورت آزادی مارچ کیے گئے پاکستان کے مختلف شہروں میں انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی سرگرمی یا تحریک آئے گی کہاں سے اور کیسے؟

جو کہ بجٹ میں بنیادی ضرورتوں کو ترجیحات بنانے کا مطالبہ کرے۔ جو صحت اور تعلیم کے لیے مطالبے کرے۔ کچھ لوگ تو بنیادی طور پر فطری لحاظ سے ہی سرگرم ہوتے ہیں اور جس مقصد کو صحیح سمجھتے ہیں اس کے لیے متحرک ہونے میں دیر نہیں لگاتے۔ وہ اپنا وقت، توانائی اور وسائل بھی اسی مقصد کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ مگر ایسے لوگوں کو بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے اور بعض صورتوں میں جان کے لالے بھی پڑجاتے ہیں۔ اگر وہ مارے نہ بھی جائیں تو ان کے گھروں میں گھس کر مار پیٹ کی جاتی ہے بچوں اور عورتوں تک کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جب ایسا ہوتا ہے تو بہت سے سرگرم لوگ ہمت کھو دیتے ہیں اور اپنی ذاتی زندگیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ دیگر طریقوں سے اپنے مقاصد کے لیے کام کرتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ لکھنے پڑھنے یا فن وثقافت کے ذریعے مقصد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر بعض معاشرے میں اسے قبول نہیں کیا جاتا اور خود دانشور، لکھاری، صحافی، باشعور فن کار وغیرہ بھی سماج میں مروج کردہ علم دشمن رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں

سماج کو علم و فن کا بھی دشمن بنا دیا جاتا ہے تاکہ کہیں سے بھی کوئی سمجھ یا شعور کی بات سامنے نہ آسکے جو عوام کو کسی سرگرمی میں شامل کرسکے۔ معاشرے میں علم دشمن اور فن کے مخالف بیانیوں کو فروغ دیا جاتا ہے جس سے سماجی دباؤ میں مزید اضافہ ہوتا ہے جو ریاستی دباؤ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ جمہوری معاشروں اس کے صحافیوں، دانش وروں، سول سوسائٹی کے ارکان کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ حکومت اور ریاست کی بداعمالیوں کو تنقید کا نشانہ بنائیں مگر غیرجمہوری اور آمرانہ معاشروں میں انہیں ہراساں کیا جاتا ہے اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے جس سے معاشرہ مزید جہالت کی پاتال میں دھنستا چلا جاتا ہے۔

اور ریاست کی غلط ترجیحات کے خلاف آواز اٹھانے سے لوگ ڈرنے لگتے ہیں۔ معاشرے میں جمہوری اور سیاسی سرگرمی باقی رہنے کے لیے تحریک کی ضرورت ہوتی ہے جو نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کرسکے۔ اس طرح کی تحریک خود انسانوں کے اندر پیدا ہونی ضروری ہے جس کی مدد سے لوگ خود اپنے طور پر فیصلے کرسکیں اور بھلے برے کی تمیز کر کے ریاست کو مجبور کریں کہ وہ اپنی ترجیحات بدلے۔ لیکن ہوتا یہی ہے کہ اس طرح کی کسی بھی تحریک یا سرگرمی کو روکنے کے لیے ریاستی ڈھانچہ سامنے آ جاتا ہے جو معاشرے کے بالادست طبقوں کو تو کھلی چھوٹ دیتا ہے مگر عوامی ضروریات اور مطالبات سے روگردانی کرتا رہتا ہے یا صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلاتا ہے۔

بجٹ بناتے ہوئے بھی اصل وسائل عوام کے لیے نہیں بل کہ مخصوص مراعات یافتہ اشرافیہ یا بدمعاشیہ کے لیے مختص کیے جاتے ہیں۔ جو لوگ بجٹ سازی کا اختیار رکھتے ہیں وہ عوام کو یہ اختیار نہیں دینا چاہتے کہ بجٹ میں مختص کیے گئے بڑے بڑے حصے کو سوالات کا نشانہ بنائیں۔ اس سے قومی سلامتی کو خطرہ پیدا ہونے کا احتمال دلایا جاتا ہے۔ اور اس کے لیے سماج میں آزادی سے ہونے والی سرگرمیوں اور تحریک کو روکنے اور کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح کہ سرگرمی یا تحریک کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی اکثریت نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر تیار ہو، نہ کہ فرقہ وارانہ اور قوم پرستانہ نعروں کے جھانسے میں آئے۔

بجٹ کا بڑا حصہ کھانے والے کوشش یہ کرتے ہیں کہ ہر جمہوری اور سیاسی تحریک جو انسانی ترقی اور حقوق کی بات کرے اسے تشدد یا فسادات کا نشانہ بنا دیا جائے تاکہ پھر خود ریاست بہانہ بناکر شدید ردعمل کا اظہار کرے اور عوامی سرگرمی کو کچل دے۔ مثال کے طور پر نام نہاد ”عرب بہار“ کو یاد کیجیے جس میں امن و امان کو بہانہ بناکر ریاستی اداروں نے اپنا تسلط باقی رکھا۔ چاہیے وہ امریکا اور برما ہوں یا مصر اور بھارت یا پاکستان اور تھائی لینڈ پر جگہ ریاستی ڈھانچے کی کوشش ہوتی ہے کہ عوامی تحریکوں اور سرگرمیوں کو کچلا جائے۔

گو کہ ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں پرامن مظاہروں نے بھی حکومتیں تبدیل کیں مثلاً سابقہ چیکوسلواکیہ، مشرقی جرمنی اور پولینڈ وغیرہ مگر وہاں اعلی فیصلہ سازوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب ریاستی ڈھانچہ مزاحمت نہیں کر سکتا اور عوامی سرگرمی روکی نہیں جا سکتی۔

امریکہ میں سول حقوق کی تحریک مجموعی طور پر پرامن رہی اور ریاستی ڈھانچے کو مجبور کیا کہ وہ عوامی حقوق بحال کرے مگر وہاں بھی بالادست سفید فام کوشش کرتے رہے کہ پرامن تحریکوں کو فسادات میں بدل دیا جائے تاکہ ریاست اس سرگرمی کو بڑی طاقت سے کچل دے۔ مختصر یہ کہ عوامی تحریک اور سرگرمی کے ذریعے ریاست پر دباؤ ڈالنا بڑا ضروری ہوتا ہے تاکہ انسانی حقوق کی پامالی بند ہو اور عوامی ضرورتیں پوری ہوں۔ عام طور پر پرامن تحریکوں کو پرتشدد بنانے میں خود ریاستی اداروں کا فائدہ ہوتا ہے کیوں کہ اس طرح

انہیں طاقت کے استعمال کا جواز مل جاتا ہے یا پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر فیصلہ ساز مسلسل اندھے اور بہرے پن کا مظاہرہ کریں تو خود لوگ بھی پر تشدد ہو جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ایسے ہی اندھے اور بہرے پن کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں ایک تباہ کن خاموشی ہے جو عوام کے بنیادی مطالبات کا جواب دینے کو تیار نہیں ہے۔ عوام کی بنیادی ضروریات کو مسلسل نظرانداز کرنے سے جو نا خوش گوار صورت حال پیدا ہو سکتی ہے اس سے بچنے کے لیے جمہوری اور سیاسی تحریکوں اور سرگرمیوں کو جاری رکھنا ہوگا اور عوام کی شمولیت بہت ضروری ہے جسے جعلی ہتھکنڈوں سے روکنا بہت خطرناک ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).