انقلاب اسلامی کے متعلق جیمز ڈیوس کا نظریہ


گزشتہ تحریروں میں ہم نے مختلف مقامات پر کارل مارکس کے نظریہ انقلاب کو اشارتاً بیان کیا ہے جس کے مطابق کسی بھی معاشرے کے اندر رونما ہونے والی سیاسی و اجتماعی تبدیلیوں کی وجہ صرف اور صرف اقتصادپر مبنی ہوتی ہے۔ معاشرے کے اندر اقتصادی بدحالی خودکار طریقے سے طبیعی طور پر مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی انقلاب کو جنم دیتی ہے جس کے لیے کسی منظم آئیڈیالوجی یا رہبری کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ کارل مارکس کے نظریے کے بالکل برعکس ایک نظریہ انقلاب فرانسیسی ماہر علم سیاست الیکسز ڈی ٹوکول (Alexis de Tocqueville) کا بھی موجود ہے جس کے مطابق کسی بھی معاشرے کے اندر انقلاب کی وجہ اقتصادی بدحالی نہیں بلکہ اقتصادی خوشحالی ہوتی ہے۔

الیکسز کے بقول معاشی طور پر پسماندہ افراد کو سیاسی معاملات کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا اور وہ ہمیشہ اپنے پیٹ کو بھرنے کی فکر میں رہتے ہیں، ان کا ہم وغم سیاسی حالات نہیں بلکہ روزی روٹی کمانا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس معاشی طور پر مستحکم افراد جو کہ روزی روٹی کی فکر سے آزاد ہوتے ہیں وہ سیاسی حالات اور اس میں تبدیلی کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں اور عملی طور پر چارہ جوئی بھی کرتے ہیں۔

انہی دو مشہور نظریات کے عین وسط میں جیمز چوننگ ڈیوس (James Chowning Davies) کا نظریہ انقلاب موجود ہے، جیمز ڈیوس کے مطابق کسی بھی معاشرے کے اندر انقلاب کی وجہ صرف اقتصادی بدحالی یا اقتصادی خوشحالی نہیں ہے بلکہ انقلاب ایسے معاشرے میں وقوع پذیر ہوتا ہے جہاں عوام ایک طویل مدت سے اقتصادی خوشحالی سے لطف اندوز ہو رہے ہوں، عوام کا معیار زندگی بہت بلند ہو، ضروریات سے بڑھ کر سہولیات تک جا پہنچیں، حکومت سے توقعات بہت بڑھ چکی ہوں، ایسے میں اگرکسی بھی حادثے یادیگر وجوہات کی بنا پر ملکی اقتصادی حالت خراب ہو جائے تو تیزی سے بڑھتی ہوئی عوامی توقعات اور موجودہ آمدن میں فاصلہ انقلاب کا نقطہ آغاز بن جاتا ہے۔

مثلاً سونامی سے پہلے جاپان دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت سمجھا جاتا تھالیکن سونامی کے بعد بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہوا اور مملکت چلانے کے لیے ایک مدت تک بیرونی امداد پرانحصار کرنا پڑا۔ جیمز ڈیوس کے مطابق اگر اس طرح کی صورتحال واقع ہو جائے اور عوام کے اندر سیاسی سوجھ بوجھ کی بھی کمی ہو تو انقلاب کا آغاز ہو جاتا ہے۔ پاکستان جہاں ایک دن کے لیے بھی بجلی اتنی مقدار میں موجود نہیں رہی کہ عوام اس سہولت سے لطف اندوز ہو سکیں، لہذا اس بابت ان کی توقعات بھی زیادہ نہیں ہیں۔

البتہ یہاں یہ نکتہ تکرار کرنا لازمی ہے کہ ہے انقلاب کی اصل وجہ سہولیات یا رفاہ کی عدم موجودگی نہیں ہے بلکہ موجودہ حالت پر عدم رضائیت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ملک کے اندر عوام بد ترین حالات میں بھی اظہار ناراضگی نہ کریں۔ پاکستان میں جاگیرداروں کے زیر سایہ پلنے والی عوام اپنے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک برداشت کر لیتے ہیں لیکن اپنے وڈیرے اور سردار کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتے۔

جیمز ڈیوس کے مطابق انقلاب اسلامی ایران کی وجہ بھی عوام کا اقتصادی خوشحالی سے اقتصادی بدحالی کی طرف آنا تھا۔ 1952 کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ایران میں اقتصادی ترقی شروع ہوئی جو تقریباً 1975 تک مسلسل بڑھتی چلی گئی۔ اس عرصہ میں لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا، بڑھتی ہوئی اقتصادی خوشحالی اور معیار زندگی نے عوام کی حکومت سے توقعات کو بھی بلندی پر پہنچا دیا۔ یکا یک علمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنے سے ایران کے اندر معاشی صورتحال خراب ہونا شروع ہوئی، معاشی حالت اور عوامی توقعات کے مابین فاصلہ بڑھتا چلا گیا اور ایک وقت آیا جب یہ فاصلہ غیر قابل تحمل ہو گیا جس کے بعد انقلابی تحریکوں کا آغاز ہوا۔

جیمز ڈیوس کے اس تجزیہ پر تنقید کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ جیمز نے اقتصادی خوشحالی کے زمانے کا نزدیک سے جائزہ نہیں لیا۔ اگر وہ اس زمانے کا بغور جائزہ لیتا تو اسے معلوم ہوجاتا کہ وہ دورانیہ عوام کی نہیں بلکہ شاہ ایران کی خوشحالی کا زمانہ تھا۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عوام کو اس زمانے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ایران تیل کی دریافت سے پہلے ایک زرعی ملک تھا، لوگوں کی گزربسر کا ذریعہ زراعت اور کھیتی باڑی تھا۔

شاہ ایران نے صنعتی ترقی کے فروغ کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان سے عام آدمی کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ شاہ ایران نے شہنشاہیت کے 2500 سالہ جشن کے موقع پر جو انتظامات کروائے تھے اس میں کچھ بھی ایران کے اندر سے نہیں منگوایا گیا تھا، یہاں تک کہ ہر ملک سے آنے والے مہمانان کے ساتھ اسی ملک کے باورچی منگوائے گئے۔ امام خمینی نے اسی جشن کے بارے میں کہا تھا کہ اس جشن میں جتنا کھانا ضائع ہوا ہے یہ پورے ایران کے لیے ایک سال کے لیے کافی تھا۔

جیمز ڈیوس نے دیگر ماہرین سماجیات و سیاسیات کی طرح انقلاب اسلامی کے آئیڈیالوجیکل پہلو کو یکسر نظر انداز کیا اور صرف عالمی خبروں سے اندازہ لگایا کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ایران کی عوام خوشحال ہو گئی ہوگی اور اس طرح تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں گرنے سے عوام اقتصادی بدحالی کو تحمل نہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہوں گے۔ جیسا کہ ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ تہتر سالوں سے قرضوں کی صورت میں ملک کے اندر اتنی خطیر رقم آنے کے باوجود بھی عوا م کی معاشی حالت دن بہ دن پہلے سے بدتر ہوتی جا رہی ہے کیونکہ وہ پیسہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے خرچ ہونے کی بجائے حکمرانوں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیمز ڈیوس نے جس عرصے کو اقتصادی خوشحالی کا زمانہ قرار دیا ہے وہ واقعی اقتصادی ترقی و خوشحالی کا زمانہ تھا لیکن صرف شاہ ایران کے لیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).