نظام صحت کا انحطاط اور صحت کارڈ کی اہمیت


آئین پاکستان کے تحت تعلیم و صحت کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ مفت و معیاری تعلیم و صحت عامہ شہریوں کا ناقابل تنسیخ حق تصور کیا جاتا ہے۔ اگر ریاست اس ذمہ داری کو ذمہ دارانہ طور پر ادا کرے تو لازمی طور پر تعلیم و صحت کے شعبے بجٹ میں ترجیح حاصل کریں گے مقعول و معیاری انتظام سے دونوں شعبوں کی کارکردگی ہر طبقہ کے لئے اطمینان بخش ہو گی۔ 80 کی دہائی تک تعلیم اور صحت کا شعبہ تجارتی سرگرمی نہیں تھا ریاستی ادارے یا پھر خیراتی ادارے و تنظیمیں غیر منافع بخش طور پر ان شعبوں میں موثر کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ ضیاء مارشل لاء میں منصوبہ بندی کے ساتھ ان شعبوں کو کاروباری شعبہ بنایا گیا۔
دراصل امریکہ میں ریگن اور برطانوی وزیراعظم مسز تھیچر نے دنیا بھر میں فری مارکیٹ اکانومی کے فروغ کے لئے بھر پور اقدامات کیے۔ تاریخ میں ان کے ادوار کو نیو لبرل ازم اور تھیچرازم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ پاکستان اس دور میں دو طرح سے ان تصورات سے وابستہ ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تعلیمی ادارے سرکاری تحویل میں لئے گئے جنہیں غلط طور پر قومی تحویل کا نام دیا گیا۔ قومی ملکیت بنانے کی صورت میں ان تمام اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو ملکیتی حقوق و اختیار ملنے چاہیے تھے جبکہ سرکاری تحویل میں مذکورہ ادارے بیوروکریسی کے کنٹرول میں چلے گئے۔
بھٹو دور میں فروغ پانے والی نوزائیدہ ٹریڈ یونین نے معاشی اور ادارہ جاتی ترقی کی بجائے اپنا کردار محنت کش طبقے کے حقوق کے تحفظ تک محدود کر لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹریڈ یونینز کی لیڈر شپ مفادات کے تحفظ کے لئے فعال سودا کار ایجنٹ بن گئی۔ بیورو کریسی کی نخوت اور ٹریڈ یونین کی نام نہاد انقلابیت نے مل کر سرکاری اداروں کی ساکھ معیار تعلیم اور سب ریاستی اداروں کا نظام منہدم کر دیا۔ بلاشبہ ٹریڈ یونینز نے ملازمین کے جائز حقوق کے دفاع و تحفظ کو یقینی بنایا۔ چونکہ ٹریڈ یونین کی مستحکم روایت سے وابستگی رکھنے والی حکومت نہیں موجود تھی لہذا جلد ہی پیپلز پارٹی اور صنعتی و سرکاری محکمہ جاتی ٹریڈ یونینز میں تصادم نمودار ہو گیا اور باہمی مخاصمت نے صنعتکاری، پیدواریت اور سرکاری محکموں کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کیے ۔
ماضی قریب میں بے بسی کے شکار چھوٹے درجے کے ملازمین نے نئے دور کی تحفظاتی فضا میں اپنے دیرینہ غصے کا اظہار خود پسندی کا منفی رویہ اپنا کر دیا۔ چنانچہ بھٹو دور کی نام نہاد سرکاری تحویل کی پالیسی وہ نتائج لانے میں ناکامی رہی جو قومی ملکیت کے نظری تصور سے وابستہ اقدامات کے ذریعے ممکن الحصول تھی۔ ضیاء کی مارشل لاء کے لئے پی این اے کی جس تحریک نے مفروضہ سیاسی بنیادی مہیا کی وہ بھی دائیں بازو کی سیاسی معاشی نظریاتی جماعتوں کی عطا کردہ تھی۔ بھٹو کی ادھوری اشتراکی معاشی پالیسیوں اور جمہوری قومی سیاسی قوتوں کے ساتھ تصادم نے 1977 کے انتخابی دھاندلی کے حوالے سے احتجاج منظم کیا۔ سیاسی تحریک اور حکومت باہمی گفت و شنید کے ذریعے جب معاہدے پر متفق ہوچکے تو ضیاء نے اسے سبوتاژ کیا اور 5 جولائی 1977ء کی شب آئین کی دفعہ چھ کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار سنبھال لیا۔
آغاز میں ضیاء حکومت کو عالمی سطح پر قدرے عدم قبولیت کا سامنا تھا لیکن ایران میں شاہ ایران کی برطرفی اور افغانستان میں ثور انقلاب نے سامراجی دنیا کو پاکستان کی طرف للچائی نظروں سے متوجہ کیا۔ راتوں رات ضیاء کی فوجی آمریت سرمایہ دار عالمی کلب کے لئے آنکھ کا تارہ بن گئی۔ افغان انقلاب کو سبوتاژ کرنے کے لئے پاکستان کی سرزمین اور حکومت کی ضرورت و اہمیت دو چند ہو گئی چنانچہ اس پیٹرو ڈالر اتحاد نے پاکستان کے تجارتی طبقے کو جو ابھی تک قومی صنعتکاری کے مقام تک نہیں پہنچا تھا گود لے لیا۔ یوں ملک میں فوجی آمریت، ملائیت اور دائیں بازو کے رجعتی رجحانات پھیلنے لگے۔
صدر کارٹر کی جگہ ریگن واشنگٹن میں صدر بن گئے۔ تو عالمی اور مقامی سطح پر فری مارکیٹ اکانومی کے پرستاروں کی چاندی ہو گئی۔ ملک میں نجی ہسپتال اور تعلیمی ادارے کھمبیوں کی طرح اگنے لگے جنہوں نے مذکورہ دونوں شعبوں کے لائق قابل اور محنتی افراد کو زیادہ پرکشش مراعات کے ذریعے پہلے اپنے اداروں میں خدمات انجام دینے کے مواقع دیے۔ اس عمل سے بھی سرکاری تعلیمی ادارے اور ہسپتالوں کی ناقص کارکردگی پر مزید برا اثر پڑا۔ سرکاری اداروں کی سرکاری سرپرستی میں تباہی مگر نجی اداروں کی حوصلہ افزائی کے اس طولانی چکر نے چند سالوں میں نجی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی مصنوعی اہمیت والی ایسی ثقافت پروان چڑھائی کہ ان اداروں سے بچوں کی تعلیم اور مریضوں کا علاج کرانا بلند سماجی رتبے کی علامت بن گیا۔

نجی مراکز صحت کی سرپرستی اور سرکاری ہسپتالوں کی تباہ حالی حکومتی اقدامات کا براہ راست نتیجہ تھا۔ جناب بھٹو نے کراچی میں آغا خان ہسپتال کو مفت زمین دینے سے انکار کیا تھا۔ انہوں نے مارکیٹ سے کم قیمت پر مگر ہسپتال اور یونیورسٹی میں نصف ملازمین حکومت کے ذریعے تعینات کر نے نیز ادارے کے بورڈ میں نصف سرکاری افراد کی نمائندگی کی شرط عائد کی تھی۔ بھٹو نیم سوشلسٹ جاگیردارنہ زاج رکھتے تھے۔ جب پکے اور کھرے سرمایہ دار مزاج کے رسیا و ہمنوا جنرل ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کیا تو کراچی کی اربوں روپے مالیت کی زمین آغا خان ہسپتال کو کسی شرط کے بغیر بلا معاوضہ عطیہ کردی گئی (نیب نے قومی خزانے کو پہنچنے والے اس نقصان پر کبھی توجہ نہیں دی) یہ آغاز تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے افغان رد انقلاب کے ساتھ آنے والے ڈالروں سے ملکی تجارتی طبقہ نے صنعتی شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری شروع کی اور ساتھ ہی مراعات کے حصول و نیک نامی کے لئے نجی ہسپتال قائم کرنے شروع کر دیے۔
کسی کو سرکاری زمین مفت مل گئی تو اس نے ٹرسٹ بنا کر اپنے مرحوم والدین کی روح کے لیے ایصال ثواب ممکن بنایا نیز ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز میں اپنے اہل خانہ یا عزیز و اقارب کی تقرری کے ذریعے لاکھوں روپوں کی تنخواہوں کا وسیلہ بھی پیدا کیا۔ جناب نواز شریف نے ایک جانب شریف سٹی کمپلیکس کی بنیاد رکھی تو دوسری جانب مشہور کرکٹر جناب عمران خان کو لاہور میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لئے مفت زمین عطیہ کی۔ نیز ذاتی جیب سے ہسپتال کو کروڑوں کا چندہ بھی دیا۔ یہ عمل دیگر کھلاڑیوں اور شوبز کی معروف شخصیات کے لئے پرکشش اور نیک نام رستہ تھا جس پر چلنے سے دنیا و آخرت دونوں سنورتے تھے ملک بھر میں اس طرح کے نجی ہسپتال بنانے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایسی نیکی کمزور معاشی حیثیت رکھنے والے دیہی علاقوں میں کم کم ہی دکھائی دی جہاں سرکاری طور پر بھی علاج معالجے کی سہولتوں کا فقدان ریاست کے کردار اور آئین میں دی گئی ضمانت کا منہ چڑا رہا تھا۔
سرکاری معاونت۔ مفت اراضی اور دیگر سہولیات کے ذریعے بننے والے نجی ہسپتال اب بہت بڑا کاروبار بن چکے ہیں اب خالصتاً تجارتی بنیادوں پر ہر شہر میں گلی گلی نجی ہسپتال قائم ہیں کیونکہ یہ انتہائی نفع بخش تجارتی شعبہ بن گیا ہے۔ سرکار کی جانب سے مفت اراضی دینے سے شروع ہونے والا مذکورہ عمل اب دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے مذکورہ نجی ہسپتالوں میں علاج معالجہ بہت مہنگا ہے جبکہ ملک کی بیشتر آبادی ان ہسپتالوں سے علاج کی متحمل نہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات ہیں نہ علاج کی بہتر سہولت۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہاں علاج کرانے سے چھوٹے اور درمیانے متوسط طبقے کے سماجی رتبے پر دھبہ بھی لگتا ہے چنانچہ اب نجی ہسپتالوں میں علاج کے لئے عوام کی قوت خرید میں اضافے کرنے کی سرکاری پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ یہ سب کچھ آزاد تجارت کے تصوراتی نام پر ہوتا ہے جس کے بانی مبانی آدم اسمتھ نے برملا اعتراف کیا ہوا ہے کہ عملاً فری مارکیٹ اکانومی اور تجارتی مقابلے کا حقیقتاً کوئی امکان ہی نہیں ہوتا۔ گزشتہ دور میں جناب نواز شریف نے بھی صحت کارڈ کا اجرا کیا تھا۔ کارڈ ہولڈر کو کسی بھی ہسپتال سے علاج کرانے کی اجازت کے ساتھ تین لاکھ روپے کی مالیت کا اعانتی (قوت خرید) کارڈ دے دیا گیا تھا گویا سرکاری خزانے سے ادائیگی کے ذریعے نجی ہسپتالوں سے علاج کرانے والے صارفین کی تعداد اور مالی استعداد میں اضافہ کیا گیا تھا۔ جناب عمران خان نے اسے انصاف صحت کارڈ کا نام دیا۔ سرکاری فنڈ سے سیاسی فوائد سمیٹے اور ساتھ کارڈ کی مالی قوت دس لاکھ روپے کر دی ہے۔
کے پی اور پنجاب میں اس کا اجراء شروع ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ جب سرکاری ہسپتال تباہ حال ہیں تو غریب اور کم آمدنی والے افراد اگر مذکورہ صحت کارڈ کے ذریعے اپنے پیاروں کا علاج کرا لیں تو اس میں برائی کیا ہے؟ میں بھی اس بات کو براہ راست ہدف تنقید نہیں بنا رہا کہ صحت کی سہولت وہ بھی مفت فراہم کرنا ریاستی ذمہ داری اور مستحسن اقدام ہے۔ میرا استدلال یہ ہے کہ صحت کارڈ کا حامل کوئی بھی شخص علاج کے لئے سرکاری ہسپتال تو جائے گا نہیں وہ سیدھا نجی ہسپتال کا رخ کرے گا۔ اسے جو فائدہ ملے گا وہ اپنی جگہ۔ مگر کیا اس عمل کے بعد سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر ہو پائے گی؟ میں سمجھتا ہوں کہ سرکاری رقومات سے نجی ہسپتالوں کے کاروبار کی ترقی کے لئے تعاون کرنے کی بجائے اگر حکومتیں سرکاری رقومات کو سرکاری ہسپتالوں کی بہتری پر صرف کریں تو بعید از قیاس نہیں کہ سرکاری شعبے کے ہسپتال جلد علاج معالجہ کی بہتر طور پر سہولت مہیا کرسکیں گے۔ اور یہ قدم مستقل بنیاد پر تمام شہریوں کو علاج معالجہ کی معیاری مفت اور موثر سہولت مبہم پہنچانے کی آئینی ذمہ داری احسن طور پر سرانجام دینے کا اہل بنا دے گا۔

دراصل جو کچھ ہو رہا ہے وہ مفاد عامہ کے برعکس پہلے سے مالدار طبقے کی مزید منافع خوری کے لئے سرکاری وسائل مختص کرنے والا عمل ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے اسی پس منظر میں سمجھا اور پر کھا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ غریب و مستحق افراد کی مدد کارخیر ہے لیکن یہ عمل درپیش مسائل کا موثر علاج نہیں۔ بہترین کار خیر منصفانہ معاشی نظام قائم کرنا ہے جس کے بعد وسائل کی بقدر ضرورت ہر کسی تک تقسیم و رسائی ہو۔ خیرات کرنا درست سہی مگر اعلیٰ انسانی قدر یہ ہے کہ سماج میں خیرات لینے والا کوئی نہ ہو۔ یہ افضل ترین عمل اور مثالی انصاف و سماجی نظم و نسق ہوگا
جب عمران خان صاحب سیاست میں نہیں تھے یا جب وہ اقتدار میں نہیں تھے تو ان کی جانب سے شوکت خانم کینسر ہسپتال کے قیام کے لئے جدوجہد کے کچھ معنی تھے لیکن جب وہ اقتدار میں آچکے تو کے پی پشاور میں انہیں سرکاری طور پر کینسر کے علاج کا معقول بندوبست کرنا چاہیے تھا؟ برسراقتدار رہ کر بھی سرکاری سطح پر صحت کی سہولیات بہم کرنے سے فرار انسان دوست طرز عمل قطعی نہیں۔ کیا خان صاحب تسلیم کرتے تھے کہ جس طرح وہ شوکت خانم کو بہتر طور پر چلانے کی انتظامی صلاحیت رکھنے کا دعویٰ کر تے ہیں بطور حکمران وہ اپنی اس صلاحیت و استعداد کار کے ذریعے ایسے ہسپتال نہ بنا سکتے ہیں اور نہ ہی چلا سکتے ہیں جو مستحق افراد کا بلا معاوضہ علاج کر سکیں؟
کیا اس کے معنی یہ نہیں کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ شوکت خانم عوامی چندے سے بننے والے ایسے ہسپتال ہیں جو نفع بخش بھی ہیں اور اپنے بورڈ آف گورنرز کو خوب مالی مراعات بھی مہیا کرتے ہیں؟ نیز اگر سرکاری سطح پر اسی طرح یا اس سے بہتر طور علاج معالجہ شروع ہو جائے تو بشمول شوکت خانم دیگر نجی ہسپتالوں کا کاروبار بھی ٹھپ ہو جائے گا؟
عوام کو صحت کارڈز نہیں، صحت مند ماحول اور صحت عامہ کے مستحکم مضبوط موثر معیاری ہسپتال ادارے مہیا کریں جہاں انہیں علاج کی سہولت میسر ہو اور عزت نفس پر دھبہ لگنے کا خدشہ بھی نہ ہو۔ یہی آئین کی منشا ہے اور ایک فلاحی عوامی ریاست کی غرض و غایت جس کے لیے خوش کن سطحی نعروں کی بجائے ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ تبدیلی اور سونامی جیسی منفی اصطلاح کے بطن سے نا اہلی کے سوا کچھ برامد ہونے والا نہیں۔ اب تو ہم نے تجربہ کر کے بھی دیکھ لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).