خشوگی اور سعودیہ کے آخری سلطان


حال ہی میں جمال خشوگی کے قتل کا مقدمہ ترکی کی عدالت میں شروع ہو گیا۔ مگر یہ جمال خشوگی کون تھا؟ ہماری عوام کی یاداشت ماشاء اللہ کافی کمزور ہے اس لیے ان کو بتاتے چلیں کہ جمال ایک سعودی صحافی تھا۔ جمال خشوگی بیچارے کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ ہو گا کہ محض سعودی قونصل خانے ایک دستاویز لینے جانا اتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ خشوگی ترکی میں ایک خاتون سے شادی کرنا چاہتا تھا اور اسی لئے اسے سعودی قونصل خانے جانا پڑا۔

باہر اس کی منگیتر اس کی منتظر تھی۔ دونوں کے ذہنوں میں ایک نئی زندگی کے خواب تھے۔ وہ خواب جو کہ اب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوں گے۔ جمال کو ہلاک کرنے اور اس کی لاش کے ٹکڑے کر کے ٹھکانے لگانے کے لئے 14 سعودی ایجنٹ دو دن قبل ہی استنبول پہنچ گئے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ 2 اکتوبر کو خشوگی آئے گا۔ انہیں معلوم تھا کہ اسے قتل کرنا ہے۔ اس کی لاش کے ٹکڑے کرنے ہیں اور ٹھکانے لگانے ہیں مگر خشوگی کا جرم تھا کیا؟

جمال خشوگی کی عمر 59 سال تھی۔ وہ افغانستان میں روسی افواج کی آمد کے بعد اسامہ بن لادن اور دیگر عربوں کے ساتھ افغانستان بھی آیا تھا اور اسامہ کا اس دور میں دوست بھی تھا۔ جمال گو کہ بڑے بڑے سعودی اور امریکی اخبارات میں لکھتا رہا لیکن عرف عام میں لبرل نہ تھا بلکہ وہ اسلامی خیالات کا حامل تھا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے خیالات کو چھپانا جانتا تھا۔ وہ اپنی جوانی میں اخوان المسلمون کا رکن رہا تھا۔ سعودیہ میں اس نے بہت سا وقت سعودی شاہی خاندان کی قربت میں بھی گزارا مگر محمد بن سلمان صاحب کے ولی عہد بننے کے بعد اپنے نظریات کے باعث جمال کو استنبول کو اپنا آشیانہ بنانا پڑا۔

وہ امریکا بھی جاتا رہا اور واشنگٹن پوسٹ کے لئے مضامین لکھتا رہتا جن میں سعودیہ کی نئی پالیسیز کے خلاف اپنی آواز بلند کرتا رہا۔ وہ بتاتا رہا کہ یہ عجیب و غریب حرکات، یہ لبنان کے وزیر اعظم کو اغواء کرنا، یہ یمن کی لڑائی، یہ شہزادوں کی گرفتاری اور نظر بندی، یہ سب مل جل کر سعودی عرب کے لئے خوفناک ثابت ہو گا۔ جمال کی محض اتنی سے جرات، محض اتنی سی زبان درازی بھی آل سعود کے 33 سالہ ولی عہد سے برداشت نہ ہو سکی۔ کہا جاتا ہے کہ جمال کو مارنے سے قبل اس کی انگلیاں کاٹی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ آری سے اس کے جسم کے ٹکڑے کیے گئے۔

محمد بن سلیمان کو بچانے ان کے حلیف ٹرمپ صاحب آگے آئے اور اس سعودی رام کہانی پر ایمان لانے کا دعویٰ کر دیا کہ یہ حرکت سعودی ریاست میں موجود کچھ ایسے عناصر کی ہے جو محمد بن سلیمان کے حکم کے تابع نہیں ہیں۔ خیر خشوگی تو اب واپس آ نہیں سکتا اور یہ بھی ممکن تو نہیں کہ محمد بن سلیمان کو سزا مل سکے۔ ہاں ممکن ہے کہ جو قاتل بھیجے گئے تھے وہ سزا پا جائیں مگر اس سارے قضیے نے ایک بات بہت کھول کر ثابت کر دی ہے اور وہ بات یہ کہ آل سعود اب بہت عرصہ سرزمین نجد و حجاز جسے ”سعودی عرب“ کہا جاتا ہے، پر حاکم نہ رہ سکیں گے۔ محمد بن سلیمان میں وہ تمام خواص موجود ہیں جو گرتی ہوئی بادشاہتوں کے آخری سلطانوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ زار روس نکولس دوئم کی سی سلطنت میں اصلاحات کی جلدی، یہ وہی آخری زار کی طرح جنگوں میں الجھنے کی روش اور وہی مخالف آوازوں کو کچل دینے کا جنون۔

محمد بن سلیمان صاحب کو لگتا ہے کہ ان کے پاس پیسہ ہے، امریکا کا ساتھ ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ مگر وہ تاریخ سے ناواقف ہیں۔ پیسہ شاہ ایران رضا شاہ کے پاس بھی کم نہ تھا اور امریکا کا وہ جتنا بڑا ایجنٹ تھا شاید ہی کوئی اور ہوا ہو گا۔ پھر اس کے پاس بڑی فوج تھی اور سعودی فوج کی طرح نا اہل بھی نہ تھی اس کی فوج مگر جب حالات بدلے تو روپیہ، پیسہ، فوج کچھ اس کے کام نہ آیا، افسوسناک اور عبرتناک بات یہ کہ امریکا نے تو اپنے خاص دوست رضا شاہ کو اپنے ملک میں پناہ تک نہ دی اور برطرف شاہ کو مصر میں پناہ لینی پڑی۔

بادشاہتیں ڈر پر چلتی ہیں مگر ڈر کو اس شاہی پکوان میں نمک کا درجہ حاصل ہوتا ہے، نمک زیادہ بڑھ جائے تو ہانڈی کھانے کے قابل نہیں رہتی۔ پھر سارے عالم سے لڑ کر بھی ملک نہیں چل سکتے اور صرف غیروں کے زور پر بھی حکومتیں نہیں چل سکتیں۔

استنبول میں مقیم خشوگی کی تحریروں سے محمد بن سلیمان کو آخر ایسا کیا خطرہ لاحق تھا کہ اس کی یوں جان لے لینا سعودیہ پر لازم ہو گیا؟ زندہ خشوگی بیچارہ شاید اس کا 1 فیصد بھی آل سعود کے لئے مسائل نہ پیدا کر پاتا کہ جتنے مردہ خشوگی کرے گا۔ محمد بن سلیمان اپنی طاقت کے نشے میں یہ فراموش کر بیٹھا ہے کہ آل سعود کے لئے کوئی اور نہیں وہ خود سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔ یوں لبنان کے وزیر اعظم کو اغواء کرنا، یوں یمن کی لایعنی جنگ میں پھنسے رہنا، یوں اپنے ہی خاندان پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑنا، یہ سب مل جل کر آل سعود کی حکومت کو لے ڈوبے گا جو آل سعود نے بڑی مشکلوں سے برطانویوں سے سازباز کر کے اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانیہ کی مدد کر کے حاصل کی تھی، خشوگی کی استنبول میں افسوسناک موت اسی تباہی اور زوال کی ابتداء تھی۔ اس کی انتہا آل سعود کو نگل جائے گی۔

قسمت کا کھیل بھی عجیب ہے، محمد بن سلیمان نے یہ حرکت استنبول میں کروائی۔ وہی استنبول جو کبھی سلطنت عثمانیہ کا دارالخلافہ ہوا کرتا تھا۔ وہیں اب اس کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وہی شہر جہاں سے آل سعود کی ابتدائی بغاوتوں کو کچلنے کے احکام جاری ہوئے تھے۔ وہی شہر جہاں پر ایک آل سعود کے جد کا سر کاٹ کر بغاوت کی پاداش میں باسفورس میں پھینک دیا گیا تھا۔ اسی شہر میں ہوا جمال کا قتل آل سعود کے زوال کا نکتہ آغاز ہے۔ مگر ابھی محمد بن سلیمان کو اپنی غلطی کا شعور نہیں ہے۔ جب احساس ہو گا تو ہاتھوں میں کچھ ہو گا نہیں۔ ملک بھی نہیں، پیسہ بھی نہیں، فوج بھی نہیں۔ جان بچے تو جلاوطنی اور نہ بچی تو قذافی کی طرح عوامی غول کے ہاتھوں موت۔ اف یہ تاریخ کے بار بار پڑھائے ہوئے سبق اور انسانوں کا نہ سیکھنا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).