جڑانوالہ کا کیا ہو گا؟


چھوٹے شہروں میں بسنے والے لوگوں کا دکھ یہ ہے کہ ان کی زندگی کا زیادہ حصہ بڑے شہروں میں صحت و تعلیم کی سہولیات کی تلاش میں گزر جاتا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے مطابق تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حقدار ہیں۔ درحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں ترقیاتی منصوبوں کی بھرمار اور اسپتالوں کی کثیر تعداد موجود ہے مگر چھوٹے شہروں میں ایک ٹی ایچ کیو کے باہر آئے روز سہولیات کی عدم فراہمی پر شہری احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔ پسماندگی کا مطلب محض غربت یا کمزوری بھی نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہوتا ہے کہ جس میں لوگوں کو مرکزی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات اور ریاستی ڈھانچے سے الگ کر دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ بے اختیار، بے آواز اور مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی بس سانس لینے کا نام ہے اور صبح کو شام اور شام کو صبح ہونے کا انتظار زندگی کا مقصد۔ با اختیار طبقات نے دولت اور طاقت کے ذرائع پر قبضہ جما رکھا ہے جس کے باعث کسی نے کبھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور سرمایہ داروں کے مفادات کو سامنے رکھ کر شہری ترقی کا فارمولا تیار کیا جاتا ہے۔

جڑانوالہ شہر کے مسائل کا اگر ذکر کیا جائے تو یہاں صحت عامہ کی سہولیات کا فقدان ہے، کچھ ایسا ہی میں بچپن سے اپنے شہر جڑانوالہ میں دیکھتا آیا ہوں کہ میرے والد صاحب کبھی میری بیمار دادی کو فیصل آباد کے الائیڈ اسپتال لے کر جا رہے ہوتے تھے تو کبھی امی کی دوائی لینے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سرکاری اسپتال کا ڈاکٹر سہولیات نا ہونے کے باعث مریض کو فیصل آباد لے جانے کا کہہ دیتا ہے۔ کیا جڑانوالہ میں رہنے والے شہری کی زندگی لاہور، کراچی یا اسلام آباد میں رہنے والے شہری سے کم قیمت رکھتی ہے؟ گھر کی دہلیز پر حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولیات سے مستفید ہونے والے شہری کا مقام بسوں میں دھکے کھاتے شہری سے بڑھ کر ہے جو بیمار بچوں کو اٹھائے علاج کی خاطر لاہور تک کا سفر کرتا ہے؟ یہ تو بھلا ہوں ان چودھری یعقوب باجوہ ٹرسٹ جیسی فلاحی تنظیموں کا کہ وہ آئے روز میڈیکل کیمپس لگانے کا اہتمام کرتی رہتی ہیں جس سے مفت علاج معالجے کے ساتھ ادویات بھی مل جاتی ہیں۔ یہ کام ریاست کا ہے مگر جب ریاست اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہو جائے تو یہی فلاحی تنظیمیں ہم غریبوں کی مدد کا ذریعہ بنتی ہیں۔

سابق وفاقی وزیر طلال چودھری کے اس حلقے کو دیکھا جائے تو اس میں ترقیاتی کام نا ہونے کے برابر ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سابق وفاقی وزیر اپنے حلقے کو ترقی دینے کی بجائے اپنی سیاسی جماعت میں جگہ کو مستقل کرنے کی کوششوں میں دن رات ایک کرتے رہے۔ ہمارے شہر جڑانوالہ کے ہر مسئلے کا حل فیصل آباد کا سفر ہے۔ آخر ایسا کب تک ہو گا؟ یہاں کے شہری حکومت وقت سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے اربوں روپوں کے منصوبوں کا محور صرف لاہور، ملتان، کراچی یا اسلام آباد ہی کیوں؟ کیا چھوٹے شہروں میں بسنے والے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلا کر دوسرے شہروں میں روزگار کی تلاش کے لیے بھیجتے رہیں گے؟ کیا ان کے اپنے خواب نہیں کہ جن کی تکمیل کے لیے انہیں اپنا گھر نا چھوڑنا پڑے؟ کب تک جڑانوالہ کے بزرگ ہر ہفتے کی شام اپنے بچوں کے آمد کے انتظار میں کئی بار دروازے تک آئیں گے؟

اگر پسماندہ شہروں میں تعلیم کی فراہمی اور تعلیمی نظام کی بہتری کو سامنے رکھا جائے اور آنے والی نسلوں کو بہترین تعلیمی سہولیات کی بدولت سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کا تجربہ دیا جائے تو وہ با اختیار لوگوں کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی آواز بننے والا رکن اسمبلی کسی مفاد پرست گروہ کا سربراہ نہیں بلکہ معاشرے کا عوام دوست رکن ہو جو مسائل کی نوعیت کو سمجھتا ہو۔ اس کے نزدیک ڈیرے کے پاس سڑک کا بننا اتنا اہم نا ہو جتنا کہ بچوں کے سکول کی طرف جانے والی سڑک ہو۔ وہ عوامی مفاد کی خاطر حکام بالا کی توجہ علاقے کی جانب مبذول کروانا جانتا ہو اور حلقے کے مسائل پر بات کرنے کے لیے اس کے پاس ٹھوس دلائل موجود ہوں تاکہ کسی بھی پلیٹ فارم پر اسے ناکامی کا سامنا نا کر نا پڑے۔ کئی برسوں سے یہاں لوگ اس امید کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں کہ وہ اپنی آواز بننے والے نمائندے کو اسمبلی کا رکن بنتے دیکھ سکیں۔

ان بنیادی سہولیات کی فراہمی کے بعد شہر کی فضاء بدل سکتی ہے۔ یہاں کے لوگ اپنے نفع و نقصان کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں اور اپنے لیے نقصان دہ پالیسیوں کو قبول کرنے سے انکار کر کے شہری ترقی میں مددگار پالیسیوں کو اپنانے پر زور دے سکتے ہیں۔ شہر کے لیے ضروری کیا ہے؟ سڑکیں، تعلیم، روزگار یا پھر صحت اس بارے وہ اپنے منتخب نمائندوں سے بات کر کے حکومتی ایوانوں تک اپنا موقف پہنچا سکتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ جڑانوالہ کے شہری نچلے طبقے سے اٹھ کر آنے والے لوگوں کو سپورٹ کریں اور آنے والی نسلوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ووٹ کا صحیح اور جائز استعمال کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).