ناموس قمر


بہت زیادہ گئے وقتوں کی بات نہیں کہ ایک روز محلے کے لوگ چھت پر سونے کی تیاری میں مصروف تھے، چاند اس روز کچھ زیادہ ہی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ اسے دیکھ کر کچھ شاعرانہ مزاج حضرات اس کی مدحت میں کلام پڑھنے لگے اور کچھ لڑکیاں اس کے قصیدے گانے لگیں جس سے سماں اور مسحور کن ہو گیا۔ جب اس قصیدہ گوئی کو کافی دیر ہو گئی تو کچھ بزرگ بولے کہ اب وہ آرام کرنا چاہتے ہیں مگر منچلے کہاں سننے والے تھے۔ آخرکار جب قصیدہ گو خود ہی تھک ہار گئے تو خاموشی ہوئی اور سب نے سکون کا سانس لیا۔

چند لمحے ہی گزرے تھے کہ ایک ہوائی فائر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ فائر نئے ہمسائے کے گھر کی طرف سے تھا۔ وہ چاند کو دیکھ کر اس پر چیخ رہا تھا چونکہ اس کے پرانے گھر کے اردگرد اونچی، اونچی عمارتیں تھیں تو بلند قامت دیواروں نے اسے اندھیرے کا عادی کر دیا تھا۔ لہذا چاند کی روشنی اس کے آرام و سکون میں خلل انداز ہو رہی تھی، اور وہ اسے ختم کر کے دھواں بنانا چاہتا تھا۔ بس پھر کیا تھا وہ جو چند لمحے پہلے اس قمر کے قصیدے گا رہے تھے وہ کب اس کے لئے ایسے مذموم عزائم کے متحمل ہو سکتے تھے۔ فوراً سے ان کی بھی بندوقیں نکل آئیں۔

بڑے بزرگ التجائیں کرتے رہ گئے کہ ہوش کے ناخن لو، مگر جب عاشقی کا معاملہ ہو تو عقل کی کون سنتا ہے۔
پھر جہاں چند لمحے پہلے گو اندھیرا تھا مگر زندگی اور امید تو تھی، اب وہاں صرف خون اور خاموشی تھی۔

ایک لڑکا جو نا جانے کیسے بچ گیا تھا، سہما ہوا چارپائی کے نیچے سے نکلا اور پہلے تو اپنے گرد پھیلے خون اور سناٹے کو دیکھا اور پھر حقارت اور شدت غم سے چاند پر تھوکنے لگا۔ جب تھوک اس کے اپنے اوپر آتا تو وہ اور مشتعل ہو کر چیخ چیخ کر آہ بکا کرنے لگتا۔ پھر جب رہا نہ گیا تو وہ چاند کو للکارنے لگا۔

” یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے! اب تو تم خوش ہو گے! تمھاری طرف اٹھنے والی ہر بری نظر اور زبان کو ہم ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتے ہیں، چاہے اس میں ہم خود بھی مارے جائیں!“ پھر اپنے چھت پر پڑی لاشوں کو دیکھتا ہوا لڑکا بے بسی سے بولا ”آخر تم چاہتے کیا ہو!“

قمر بدلی کی اوٹ ہو گیا اور یک دم بدلی برسنے لگی۔ ایسے جیسے کسی کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا ہو۔ پھر جب بدلی ہٹی تو ایک اداس مسکراہٹ سے چاند بولا، ”شکر ہے کسی نے تو پوچھا میں کیا چاہتا ہوں۔ تو سنو میں تو صرف روشنی پھیلانا چاہتا ہوں۔ خدارا اندھیرے اور اندھیروں میں رہنے والوں سے نفرت مت کرو، اندھیرے تو روشنی کی پہچان کراتے ہیں۔ میں اندھیرا مٹانے کے لئے نہیں ہوں کیونکہ اندھیرے تو تمھاری زمین کی ضرورت اور حقیقت ہیں، میرا کام تو صرف روشنی پھیلانا اور پھیلانے کی کوشش کرتے رہنا ہے۔ کیونکہ روشنی کو کوئی قتل نہیں کر سکتا، اور ہاں اندھیرے کبھی گولی مارنے سے ختم نہیں ہوئے۔“

” تم نے پوچھا کہ میں کیا چاہتا ہوں تو سنو، تم سب ہی تو کہتے ہو میں بہت مسحور کن ہوں، بہت خوبصورت ہوں تو میں دیکھنا چاہتا ہوں میں کیسا ہوں، میں تمھاری زمین پر اپنا عکس دیکھنا چاہتا ہوں۔ دریاؤں اور سمندروں کی پہنائی میں نہیں کیونکہ ان کی وسعتوں کے باوجود وہاں میری روشنی جامد رہتی ہے، بڑھتی نہیں۔ مجھے ایسی جامد تکریم کی حاجت نہیں، چونکہ میں تنہا ہوں مجھے تو اپنی روشنی بڑھانے کی تمنا ہے، میں تو تمھارے گھروں کے ہر، ہر چھت اور آنگن میں دھرے شفاف پانی سے بھرے دھلے ہوئے برتنوں میں اپنا عکس دیکھنا چاہتا ہوں۔

صرف تمھارے صاف ظروف اور ظرف سے ہی میری روشنی بڑھ سکتی ہے۔ گدلے پانی اور خاک آلود برتنوں میں یا خون کی ندیوں میں میرا عکس دکھائی نہیں دیتا۔ صرف شفاف پانی میں۔ صرف دھلے برتنوں میں۔ اس سے مجھے فرق نہیں پڑتا کہ برتن پرانا، ٹوٹا ہو بس میں صرف چاہتا ہوں کہ گدلا ہونے پر برتن دھلتا رہے، تاکہ میرا عکس دھندلائے نہ۔ میری روشنی کو بڑھانے کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں۔ مگر تم ٹھہرے تن آسان اور سہل پرست لوگ۔ تم چاہتے ہو تمھارے ایک قدم میں تمھیں منزل مل جائے۔ ”

”میں ایسے ہی روشن نہیں ہو گیا۔ روشنی پھیلانے کے لئے بہت محنت درکار ہے۔ خود جلنا پڑتا ہے، اپنے داغ دھبے صاف کرتے رہنا پڑتے ہیں۔ مایوسیوں کے اندھیروں سے نبرد آزما رہنا پڑتا ہے، تن اور من دونوں کی بازی لگانی پڑتی ہے، اپنی لو کو جلائے رکھنے کے لئے بڑی قربانیاں اور بڑی ریاضتیں درکار ہیں۔ مگر تم ٹھہرے گفتار کے غازی، یہ ریاضتوں کا سفر کیا سمجھو گے۔“

”بہت رنجیدہ دل سے مجھے کہنا پڑتا ہے کہ تمھاری تمام مدحت اور قصیدہ گوئی اور تمھارے لاعلم ہمسایوں کی دشنام طرازیاں میری روشنی کی کمی یا زیادتی میں ایک ذرے کا بھی کردار ادا نہیں کرتیں۔ گو کہ میں تمھارے جذبات کی قدر کرتا ہوں مگر افسوس کے وہ سب میرے لیے بے سود ہیں اور صرف تمھارے وقت کا زیاں ہے۔ کیونکہ جس گھر کے ظروف اور پانی صاف ہوں گے اس میں میرا عکس خود بخود دور تک اجلا دکھائی دے گا، تمھیں کسی کو بلا کر میرا قصیدہ نہیں سنانا پڑے گا میری روشنی خود ہی سب کہہ دے گی۔ لوگ خود ہی اس عکس کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔“

یہ کہ کر چاند پھر بدلی میں جا چھپا، اور لڑکے کو اپنے اوپر پھر قطرے گرتے محسوس ہوئے۔ وہ بھی آنکھیں پونچھتے ہوئے آہستہ قدموں سے اٹھا اور اردگرد بکھرے خون اور مٹی میں لتھڑے گندے برتن اٹھا کر دھونے لگا۔ چاند کی حقیقت جاننے کے بعد وہ سوچ رہا تھا کہ کل رات وہ اسے مایوس نہیں کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).