پنجابی تہذیب کا ایک روایتی مقامی سفر


پان، تھوک اور گٹکے کے رنگین ملاپ سے تشکیل پائے ہوئے آمیزے نے لاری اڈے پر مختلف الانواع رنگ بکھیرنے کے ساتھ ساتھ دماغ کی دبی رگوں کو ہلا کر رکھ دینے والی ایک مہک سے فضا کو معطر کر رکھا تھا۔ وہ تو شکر خدا کہ کرونا کی وجہ سے پیدا ہونے والے نامساعد حالات کی بناء پر جیب میں ایک عدد ماسک میسر تھا کہ جس کو ناک اور منہ پر ایک خاص زاویہ سے چڑھاتے ہوئے ناک میں زبردستی گھسنے والی ہواؤں کی راہ میں رکاوٹ حائل کر دی۔

تھوڑا سا آگے بڑھے اور چنیوٹ اڈے میں کھڑی گاڑیوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی ہی تھی کہ چند احباب نے ہاتھوں ہاتھ میرا اس طرح سے فقیدالمثال استقبال کیا کہ مجھے اپنے اوپر کسی معزز شہری کا شبہ ہونے لگا۔ لیکن اس استقبال میں جھنگ، فیصل آباد، سرگودھا، نلکا اڈہ، رجوعہ موڑ، پنڈی بھٹیاں اور چناب نگر کے نعروں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ خیر ایک زورآور صاحب نے اپنے زور بازو کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ایک ہائی روف گاڑی کی درجہ اول کی نشست پر بٹھاتے ہوئے فی الفور ایک بیش قیمت ٹکٹ آنجناب کے ہاتھوں میں تھما دی۔ ٹکٹ کے اوپر درج رقم دیکھ کر تو میرے ہاتھوں کے طوطے ہی اڑ گئے کیونکہ مطلوبہ رقم کے برابر پیسے تو شاید میری جیب بشمول بینک اکاؤنٹ میں بھی میسر نہ ہوتے۔ رحم طلب نگاہوں سے ٹکٹ والے شخص کو دیکھتے ہوئے فوراً سوال داغ ڈالا۔

’بھائی جی! نئے نقشے میں فیصل آباد کہیں کشمیر تو نہیں منتقل ہو گیا جو اتنا زیادہ کرایہ مانگا جا رہا ہے؟‘

جواباً ایک طائرانہ نگاہ ہمارے وجود پر ڈالی گئی اور ساتھ ہی گاڑی سے اترنے کا اشارہ دیتے ہوئے ٹکٹ واپس لے لی گئی۔ ہم نے بھی کمال فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاڑی کی اس نرم و گداز سیٹ کو خیرباد کہا اور ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا۔

’بھائی! پھر فیصل آباد کی گاڑی کس طرف ہے؟‘

اس موقع پر بھی لب ہلانے کی زحمت سے بچتے ہوئے مدمقابل سے ایک کھٹارا سی اٹھارہ سیٹوں والی گاڑی کی طرف اشارہ کر دیا گیا۔ اس شاہکار کو دیکھ کر تعلیمی دور میں اردو کی کتاب کا مرزا کی بائیسکل والا باب یاد آ گیا۔ بادل نخواستہ تمام قوتوں کو مجتمع کر کے اس نام نہاد گاڑی تک پہنچے۔ کنڈیکٹر نے اپنے افریقائی پرمسرت چہرے کے ساتھ ایک سوالیہ نگاہ آنجناب پر ڈالی:

’فیصل آباد؟‘
’جی‘ معصومانہ انداز میں مختصر جواب دیا گیا۔

جواباً گاڑی کی پچھلی سمت کی ایک نشست پر اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہاں بیٹھ جائیں، تاکہ نئی آنے والی سواریوں کی وجہ سے آپ کو مشکل نہ ہو۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ نشست پر براجمان ہوتے ہی ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے پاؤں ٹھیک طرح سے گاڑی کی زمین پر نہیں لگ رہے۔ جب نگاہ کی تو معلوم پڑا کہ ایک عدد گیس سلنڈر ہماری سیٹ کے نیچے سے تاکا جھانکی کر رہا ہے۔ قبل اس کے کہ نشست کی تبدیلی کے لئے محترم کنڈیکٹر صاحب کے حضور درخواست گزاری کی جاتی، مدمقابل سے ایک ٹکٹ تھماتے ہوئے کرائے کا مطالبہ کر دیا گیا۔ خیر اس دفعہ ٹکٹ پر درج رقم نے تسلی دی اور جناب نے مطلوبہ رقم کنڈیکٹر صاحب کو تھما دی۔ رقم پکڑتے ہی کنڈیکٹر صاحب نے باہر جا کر فیصل آباد، فیصل آباد کی رٹ لگا دی۔

لگ بھگ آدھا گھنٹہ گزر جانے کے باوجود گاڑی میں مسافروں کی نشستیں پر نہ کی جا سکیں۔ گاڑی کی روانگی کے بارے میں استفسار کیا گیا تو معلوم پڑا کہ جب تک ایک نشست بھی خالی ہے گاڑی روانہ نہیں ہو سکتی۔ اور میں بے وقوف اپنے ساتھ کی دو اور اپنے سے آگے کی دو خالی نشستوں کو ہی خالی نشستیں سمجھ رہا تھا۔ وہ تو بعد میں پتا چلا کہ ڈرائیور کی نشست کی پچھلی جانب جو مسافروں کے سامان رکھنے کی جگہ ہے وہ بھی قانون ساز اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی مانند ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ کووڈ۔ 19 کے ایس او پیز گئے بھاڑ میں۔

میرے برابر والی نشستوں پر کچھ ہی دیر میں چنیوٹ کا ایک روایتی ضعیف العمر جوڑا اپنے ساتھ کثیر سامان لادے آ دھمکا۔ بزرگوں کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مجھے تھوڑا سکڑنا بھی پڑا لیکن سوچا خیر ہے۔ اگلی دو نشستوں پر بھی جلد ہی ظاہری حلیے کے اعتبار سے ایک نو بیاہتا جوڑا بھی براجمان ہو گیا۔ مخصوص نشستوں پر دو خواتین دو عدد کاکے اٹھائے آن پہنچیں تو گویا کوٹہ پورا ہو گیا۔ اب جو کنڈیکٹر نے ’استاد جی‘ کی ایک صدا لگائی تو مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ایک بڑھی ہوئی توند والا شخص صدارتی دروازے کی جانب سے ڈرائیونگ سیٹ پر آن دھمکا۔ لفظ ’دھمکا‘ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اس کے بیٹھتے ہی گاڑی نے اپنے پورے وجود کی حرکت سے اس کی آمد کا اعلان کیا تھا۔

گاڑی سٹارٹ ہوئی تو اندازہ ہوا کہ اس سفر کے آغاز میں ہی دعائے سفر واجب کا درجہ رکھتی ہے۔ ڈرائیور نے کنڈیکٹر کو اشارہ کیا تو اس نے ذومعنی اشارے کو سمجھتے ہوئے دیگر دو بندوں کی مدد سے گاڑی کو جو دھکا لگایا تو ٹی بی کے بوڑھے مریض کی کھانسی کی مانند گاڑی نے بھی اسٹارٹ ہونے میں ہی عافیت جانی۔ گاڑی کیا اسٹارٹ ہوئی تمام مسافروں نے بھی اپنی اوقات دکھانی شروع کر دی۔ مخصوص نشستوں کی سواریوں نے کرائے کے اضافے پر جو احتجاج کیا تو بات تبدیلی سرکار کے ایوانوں تک جا پہنچی۔

موقع غنیمت جانتے ہوئے ایک جیالے اور دو عدد پٹواریوں نے توپوں کا رخ ہمارے ہینڈسم کپتان کی طرف کر دیا۔ ٹائیگر فورس کے ایک نمائندے کو اپنی دماغی رگ پھڑکتی محسوس ہوئی تو جناب نے سارا ملبہ سابقہ حکومتوں کی نا اہلی پر دھر دیا۔ غرض پرائم ٹائم کے کسی بھی ٹاک شو سے زیادہ مزیدار بین الجماعت ٹاکرا سڑک پر رینگتی اس گاڑی میں چل رہا تھا۔ سازگار ماحول دیکھتے ہوئے ایک دو صاحبان وقتاً فوقتاً سگریٹ اور نسوار کے استعمال کو اپنا قانونی حق سمجھ کر تماش بینوں کا کردار ادا کرتے رہے۔ دل کر رہا تھا کہ حسن نثار صاحب کو بلا کر کہوں کہ جناب یہ ہوتا ہے ’اصل چوراہا‘

غیر ہموار راستے اور جگہ جگہ کھدائیوں کی وجہ سے گاڑی جو جمپ کھاتی تو نشست کے نیچے سے گیس سلنڈر دہائیاں دیتا کہ خدارا مجھے بچا لو۔ ایسا نہ ہو کہ میں ایک خودکش دھماکے سے اپنے ساتھ ساتھ تم سب کو بھی لے اڑوں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ میں اسے کیسے سمجھاتا کہ ان نشیب و فراز کی وجہ سے خود میرا بدن کس اذیت کا شکار ہے؟ خیر ماحول کا خوشگوار کرنے کے لیے ڈرائیور نے اپنے ذوق کے عین مطابق کسی گجر کا کوئی مجرے والے گانا لگا دیا لیکن سیاسی شور کی وجہ سے نصیبو لال کی آواز بھی کہیں دب کر رہ گئی۔

ساتھ بیٹھے بوڑھے جوڑے کو بھوک نے ستایا تو بابا جی نے نشست کے نیچے سے ایک خربوزوں والے شاپر سے ایک عدد خربوزے کا انتخاب کیا۔ میں نے حیرت بھری نگاہ بابا جی پر ڈالنا چاہی۔ لیکن میرے دیکھتے ہی دیکھتے بابا جی نے خربوزے کو گھٹنے پر رکھتے ہوئے اپنے آہنی ہاتھوں کا جو ایک وار کیا تو ایک ہلکی سی سسکی کے ساتھ خربوزہ دو ٹکڑے ہو گیا۔ بابا جی نے کمال مستعدی سے درمیان والا گودا کھڑکی سے باہر پھینکا اور بقیہ دونوں حصوں کو بابا اور بابی مزے لے لے کر کھانے لگ پڑے۔

اگلی نشستوں پر براجمان نوجوان جوڑے نے جو دیکھا کہ ہر کوئی آپا دھاپی میں مگن ہے تو موقع غنیمت جانتے ہوئے دونوں کے رومانوی جذبات جاگ اٹھے۔ ایک کنوارے شخص کے سامنے ہالی ووڈ کی طرز پر کوئی خفیہ سفری رومانس چل رہا ہو تو اس منظر کا درد ایک بالغ کنوارہ ہی جان سکتا ہے۔ ماسک کے لگاتار استعمال اور دل میں اٹھتی ٹیسوں میں شدت پیدا ہوئی تو سانس کی نالی فرط جذبات پر قابو نہ پا سکی جس کا اظہار کھانسی کے ایک شدید جھٹکے سے ہوا۔

کھانسی کی شدت کی وجہ سے لوگ میری جانب متوجہ ہوئے تو بدقسمت جوڑے کو بھی محتاط رویہ اختیار کرنا پڑ گیا۔ ساتھ بیٹھے بابا جی نے کھانسی کے تدارک کے لئے خربوزے کا اپنا بچا ہوا ٹکڑا پیش کیا جسے میں نے شکریہ کے ساتھ واپس کر دیا۔ اگلی نشستوں میں سے ایک شخص نے پانی کی بوتل پیش کی تو آنجناب نے اس بوتل سے پانی کے چند گھونٹ پی کر کھانسی کو رام کیا۔

مجھے کھانسی سے آرام کیا آیا، گاڑی میں بھی چند لمحوں کے لئے خاموشی چھا گئی۔ اچانک ہی ایک صاحب بصیرت شخص نے شدید کھانسنے کو کرونا کی علامت قرار دیا تو سب کی توجہ میری جانب مبذول ہو گئی، مگر میری معصومانہ صورت دیکھ کر گفتگو کو دوسرا رخ دیتے ہوئے کرونا کی وجہ سے پیدا ہونے والے نامساعد حالات پر تبصرہ شروع ہو گیا۔ اب جو ایک وقفہ کے بعد ٹاک شو دوسرے مرحلے میں داخل ہوا تو اسٹیبلشمنٹ، فوج، عدلیہ اور میڈیا کو بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ گاڑی ارفع کریم آباد کے قریب ایک چونگی پر رکی تو ساتھ بیٹھے بابا جی نے ایک پھیری والے سے گنڈیریاں خرید فرمائیں جو بقیہ سفر میں بابا بابی نے خوب مزے لے کر کھائیں۔

گاڑی جونہی فیصل آباد کی شہری حدود میں داخل ہوئی تو مخصوص نشستوں پر بیٹھی خواتین میں سے ایک کا لاڈلہ کاکا نیند سے جاگ اٹھا۔ شاید وہ شہر کی فضا کا عادی نہیں تھا، لہٰذا کاکے نے تمام تر قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رو رو کر وہ احتجاج کیا کہ دوسرا کاکا بھی بیدار ہو کر اس احتجاج میں شامل ہو گیا۔ پنجاب پولیس کی مانند دونوں خواتین نے انہیں خاموش کرانے کے لیے تشدد سمیت ہر حربہ استعمال کیا لیکن ان کاکوں کی صدائے احتجاج فیصل آباد کے لاری اڈے تک اپنے راگ سناتی رہی۔

ٹریفک میں پھنسنے کی بنا پر کافی دیر بعد گاڑی جو فیصل آباد لاری اڈے پہنچی تو دل کو تھوڑی تسلی ہوئی کہ چلو سفر تمام ہوا۔ جونہی اڈے میں اپنی مخصوص جگہ پر گاڑی رکی تو ہر مسافر کی خواہش تھی کہ پہلے وہ اترے۔ آنجناب نے یہاں بھی کمال صبر کا مظاہرہ کیا۔ لیکن جونہی گاڑی سے نیچے اترے وہی چنیوٹ لاری اڈے والے مناظر۔

’نسوار، تھوک، پان، اور گٹکے کے رنگین ملاپ سے تشکیل پائے ہوئے آمیزے کے مختلف الانواع رنگ اور ان کی منفرد خوشبوئیں۔ رکشے والوں کی جو نگاہ پڑی تو سب مجھے خوش آمدید کہنے ایسے دوڑ پڑے، گویا میں کوئی مسافر نہیں بلکہ وہ داماد ہوں جو شادی کے بعد پہلی دفعہ اپنے سسرال آیا ہو۔

اعتزاز حسن کہوٹ
Latest posts by اعتزاز حسن کہوٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).