یہی ہے زندگی، کچھ خواب، چند امیدیں ( ”آدھے ادھورے خواب“ پر تبصرہ)۔


پچھلے دنوں، ایک گفتگو کے دوران میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ جس طرح پوری دنیا کے ادب میں ایک عام انسان کو ہیرو بنایا جا تا رہا ہے، ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ کیوں اردو ناول میں ہر ہیرو بزنس مین، زمین دار، ڈاکٹر، انجینیئر یا کوئی خاص اور نمایاں خصوصیات کا حامل کردار ہوتا ہے، کوئی استاد اس کا مرکزی اور سب سے طاقت ور کردار کیوں نہیں ہو سکتا؟ سوال اپنی جگہ بہت اہم تھا اور جواب اس لیے وہاں نہیں دیا جا سکا کیوں کہ اس وقت تک ”آدھے ادھورے خواب“ ہاتھ نہیں آیا تھا۔ اب جو ہاتھ آیا ہے تو جواب بھی ہاتھ آ گیا ہے اور یہی اس پر لکھنے کا سبب بھی ہے کہ اگر میری طرح کوئی اور بھی اس تاخیر کا شکار ہے تو اب بھی وقت ہے۔

”آدھے ادھورے خواب“ ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی کا ناول ہے، جسے بعض لوگ ناولٹ بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ پہلی بار جہانگیر بک ڈپو، لاہور سے 2010 ء میں منظر عام پر آیا ؛ 2016 ء میں اس کی دوسری اشاعت نیشنل بک فاؤنڈیشن سے طبع ہوئی جب کہ 2018 ء میں اس کی اب تک کی آخری اشاعت سنگ میل پبلی کیشنز، لاہورکی وساطت سے منصۂ شہود پر آ چکی ہے۔ اس کا ایک ترجمہ پنجابی زبان میں ہوا ہے اور سندھی اور پشتو تراجم زیر طباعت ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو ایک عجیب امر ہے کہ ناول آس پاس ہی موجود تھا اور اس کا سر ورق بھی نظروں سے گزر چکا تھا، تاہم کبھی پڑھنے کا موقع نہیں مل سکا، نہ جانے کیوں؟ بہر حال اب جو مصنف سے عطا ہوا تو ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالا۔ وجہ اس کا موضوع اور طرز تحریر۔ دونوں علاحدہ علاحدہ بحث کے متقاضی ہیں۔

ناول ”آدھے ادھورے خواب“ کوئی روایتی رومانوی ناول نہیں بلکہ تعلیم کے ذریعے معاشرتی تبدیلی کا بیانیہ ہے۔ یہ ایک خواب ہے، جسے ایک استاد ’پروفیسر سہارن رائے‘ کی آنکھوں سے دیکھا اور دکھایا گیا ہے۔ ناول میں کہیں آغاز و انجام نہیں بلکہ ایک تسلسل ہے۔ کہانی کا ہر باب استاد پروفیسر رائے، اس کے طریقۂ تدریس، رویے اور تصورات کے گرد گھومتا ہے، جن کے مطابق ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ معاشی عدم مساوات ہے اور اس کے حل کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اور معاشرتی اداروں میں روابط قائم کیے جائیں نیز تعلیم کے غیر رسمی ذرائع دریافت کیے جائیں۔

یوں ایک استاد اپنے طلبہ کے ساتھ ’کریٹیکل لٹریسی‘ کو عام کرنے کی فکر میں غلطاں نظر آتا ہے ؛اس کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے ؛ صعوبتیں اٹھاتا ہے اور بالآخر[ جیسا کہ ہوتا آیا ہے ]راندۂ درگاہ قرار پاتا ہے۔ تاہم منظر سے ہٹنے سے پہلے اپنی فکر اور مقصدیت اپنے طلبہ میں منتقل کر جاتا ہے، جس کے سبب ناول کا اختتام اس کا نقطۂ آغاز بن جاتا ہے، جہاں پروفیسر رائے کے نظریات سے ثروت مند ہونے والی نئی نسل ’پروفیسر رائے‘ بن کر نئے ’تصوروں‘ ، ’امتثالوں‘ ، ’بینشوں‘ اور ’شمائلوں‘ کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے۔

ایسے موضوع کا احاطہ کرتا کوئی ناول اس سے قبل میری نظر سے نہیں گزرا۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہو سکتی ہے کہ کبھی ایک ماہر تعلیم نے فلسفہ ہائے تعلیم کے ابلاغ کے لیے ناول کی صنف کی طرف توجہ نہیں دی۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے نہ صرف اس طرف نظر کی بلکہ ممکن کر دکھایا کہ تعلیم اور فلسفہ ٔ تعلیم کو بہ طور موضوع علمی اداروں اور کانفرنسوں کے علاوہ ناول میں بھی برتا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ آغاز میں بھی کہا کہ ڈاکٹر شاہد صدیقی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے مرکزی کردار کے لیے عام روش سے ہٹ کر ایک استاد کو منتخب کیا، جسے نہ ستائش کی تمنا ہے نہ صلے کی پروا اور نہ اس کی شخصیت اور رہن سہن لائق توجہ ہے۔ ہاں اگر کوئی بات ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ ناقابل اصلاح معلم، مصلح، مبلغ اور دوست ہے، جو ترقی پسندانہ خیالات کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ بھی کردار نگاری کے حوالے سے دو تین امور توجہ طلب ہیں۔ پہلا یہ کہ ناول نگار نے انتہائی عام کرداروں کو اپنے ناول میں جگہ دی ہے۔

یہ ایسے کردار نہیں جو نایاب ہیں اور کبھی ملنے کے نہیں۔ بلکہ ان کی خاصیت ہی یہی ہے کہ آپ انھیں ہر جگہ بآسانی تلاش کر سکتے ہیں۔ یعنی یہ کردار غیر معمولی نہیں ہیں، ان معنوں میں بھی کہ نہ پروفیسر رائے کے نقوش و خیالات انھیں اپنی ذات میں بے مثال بناتے ہیں اور نہ مصنف امتثال آغا کی شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے اسے ”دنیا کی حسین ترین لڑکی“ ثابت کرنے کے بعد ہیروئن کے سنگھاسن پر بٹھاتے ہیں۔ وہ سراپا نگاری پر اس قدر کم توجہ دیتے ہیں کہ امتثال کی تو شکل و صورت تک ٹھیک سے نہیں بن پاتی اور پروفیسر رائے کی شخصیت میں بھی ہمیں صرف ان کے لمبے بال یاد رہ جاتے ہیں۔

کرداروں کی اسی عمومیت نے انھیں خاصیت عطا کی ہے اور اس کی توجیہ یہ ہو سکتی ہے کہ ناول نگار کے نزدیک کردار نہیں بلکہ ان سے لیا جانے والا ”کام“ اور ان کے توسط سے دیا جانے والا ”پیغام“ اہم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ناول میں کرداروں کے لیے صیغۂ واحد متکلم کا انتخاب کیا گیا ہے کہ پروفیسر رائے، امتثال آغا، تصور، بینش ؛ سب کے خیالات ”میں“ ہی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ اسے اس اعتبار سے ایک اچھا تجربہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ ”میں“ کے اس استعمال سے براہ راست ان کی نفسیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

تاہم غور طلب امر یہ ہے کہ سب کی ”میں“ ہونے کے باوجود تمام کردار ایک مقصد کے تحت اس طرح گھل مل چکے ہیں کہ ایک دوسرے سے علاحدہ نہیں کیے جا سکتے۔ جب کہ کرداروں کی پیش کش میں تیسری اہم بات یہ ہے کہ کبھی تو ناول پر مصنف کی آپ بیتی کا گمان ہوتا ہے تو کہیں یہ آپ بیتی جگ بیتی میں بدل جاتی ہے۔ گویا یہ ہم سب کی کہانی ہے، جو اپنے بہاؤ میں ہمیں بھی بہا لے جاتی ہے۔ تاہم یہاں ایک سوال ہے کہ ڈاکٹر شاہد صدیقی کے کالم کی کہانی کے کردار ہوں یا ناول کے، ان میں ادھورا پن کیوں ہے؟ وہ کون سا خلا ہے، جو انھیں بظاہر مکمل ہو کر بھی مکمل نہیں ہونے دیتا؟ اور اس کا جواب تو ظاہر ہے کہ مصنف ہی دے سکتے ہیں۔

اب آتے ہیں اسلوب کی طرف، تو فلسفوں کے بیان کے سبب یہ ناول جس قدر پیچیدگی اختیار کر سکتا تھا، اتنا پیچیدہ ہر گز نہیں ہے۔ ناول نگار انتہائی سہولت سے اپنی بات نہایت سادہ، رواں اور آسان الفاظ میں اپنے محبوب کردار پروفیسر رائے کی زبانی بیان کرتے ہیں اور ملک کے اتنے بڑے مسئلے کا حل چٹکیوں میں بتا دیتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ عمل کون کرے اور کون کرنے دے۔ تاہم، وہ استعارات اور امثلہ سے کام لے کر اپنی بات کو مزید سہل بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور قاری کو اپنا ہم خیال و ہم نوا بنانے میں کوئی کسر نہیں رہنے دیتے۔

علاوہ ازیں ہر باب میں مناظر اور مکالموں کا جو اہتمام کیا گیا ہے، وہ جہاں ناول نگار کی شخصیت اور طرز زندگی کا پر تو دکھائی دیتا ہے وہیں زبان و ادب کو نئی اور دلکش تشبیہات بھی فراہم کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ یہ ناول کی زبان اور اس کے مکالمے ہی تو ہیں تو ناول کو بوجھل نہیں ہونے دیتے اور باآسانی پڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔ پھر بین المتونیت کا استعمال بھی ہے، جو اگر ایک طرف ناول کی ادبی جہت کو نمایاں اور قاری کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے تو دوسری طرف کرداروں کی نفسیات اور ان کی دل چسپیوں کی تفہیم میں بھی مدد دیتا ہے۔

مجموعی طور پرکہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اپنے اس ناول کے ذریعے، ایک بہتر زندگی گزارنے کے لیے، ہمیں کچھ خوابوں اور کچھ امیدوں سے روشناس کروایا ہے اور تعلیمی اور سماجی تبدیلی کے ساتھ ساتھ افراد کی شخصیت سازی کا درس بھی دیا ہے۔ انھوں نے اگرچہ آدھے ادھورے ہی سہی لیکن جو خواب ہمیں دکھائے ہیں ان کی تکمیل بھی ایک خواب ہے، جس کے شرمندۂ تعبیر ہونے کے ہم سب منتظر ہیں۔ تاہم جس طرح ناول میں صرف ایک پروفیسر رائے کی زندگی ان خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے کافی نہیں، اس کے لیے کئی اور پروفیسر رائے درکار ہیں۔ اسی طرح تعلیم کے سبب سماجی تبدیلی لانے کے لیے بھی اس موضوع پر یہ ایک ناول کافی نہیں۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی سے التماس ہے کہ مزید لکھیے اور لکھتے رہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).