وزیراعظم کا دورہ تربت، عوامی توقعات اور ”جنوبی بلوچستان“


وزیر اعظم عمران خان نے 13 نومبر کو اپنے دورہ تربت (جو مکران ڈویژن کا مرکزی شہر ہے ) میں ”جنوبی بلوچستان“ کے لئے 600 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا ا علان کیا تھا۔ 19 نومبر کو وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و سماجی ترقی اسد عمر نے وفاقی وزراء مراد سعید اور محترمہ زبیدہ جلال کے ساتھ اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کے مذکورہ ترقیاتی پیکج کی تفصیلات بیان کر تے ہوئے بتایا ہے کہ مذکورہ رقم کا زیادہ تر حصہ شاہراہوں، 16 نئے ڈیم کی تعمیر، 57 فیصد آبادی کو بجلی کی فراہمی، گیس کی فراہمی کے لئے ڈسٹری بیوشن سنٹرز کے نظام کا قیام، 3 لاکھ 20 ہزار نئے گھروں کا اضافہ اور صحت کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی سمیت دیگر منصوبے شامل ہیں۔

یہ اعلانات انتہائی خوش آئند ہیں مگر ہمیشہ سے وسائل کی عدم دستیابی کا رونا رونے والی حکومت کے وزراء نے یہ نہیں بتایا کہ 600 ارب روپے کی اس خطیر رقم کا حصول کیسے ممکن ہوگا؟ وفاقی وزیر دفاعی پیداوار محترمہ زبیدہ جلال (جو قومی اسمبلی میں کیچ مکران کے نمائندے ہیں ) نے پریس کانفرنس میں بتایاہے کہ فوجی قیادت بھی ”جنوبی بلوچستان“ کے اس ترقیاتی پیکج میں اپنا حصہ ڈالے گی۔ مگر موصوفہ نے یہ نہیں بتا یا کہ کتنا حصہ ڈالے گی۔

ذرائع کے مطابق عمران خان نے تربت یونیورسٹی کے کانفرنس ہال میں مخصوص اور محدود لوگوں کے ایک اجتماع سے خطاب میں فرمایا کہ ”ملک کی موجودہ معاشی صورت حال میں 6 سو ارب ایک غیر معمولی رقم ہے اور ہمارے مالی وسائل محدود ہیں لیکن میں یقین دلاتا ہوں کہ جہاں سے بھی ہمیں یہ مطلوبہ رقم میسر آئے گی، ہم اسے“ جنوبی بلوچستان ”پر خرچ کر کے مذکورہ منصوبوں کو ہر حال میں پایہ تکمیل تک پہچائیں گے“ ۔

اس دورہ سے اہل مکران کو امید تھی کہ مذکورہ ”بڑے اعلانات“ کے علاوہ وزیر اعظم ان مسائل کے حل کے لئے کچھ کریں گے جو یہاں کے لوگوں کو دہائیوں سے درپیش ہیں اور جن کی وجہ سے اہل مکران کی زندگی اجیرن ہے۔ جیسے کہ پاک ایران سرحد پر کاروباری مسائل۔

مکران کی زمینی اور سمندری سرحدیں ایران سے منسلک ہیں ( دراصل تاریخی اور تہذیبی طور پر سرحد کے دونوں جانب کا علاقہ مکران ہے جو پاکستان اور ایران میں منقسم بلوچستان کا قدیم اور اہم علاقہ ہے جس کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے جو آپس میں لسانی اور خونی رشتوں میں آج بھی جڑے ہیں ) ۔ یہاں سرکاری ملازمتیں محدود اور عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہیں۔ پہلے جو چند ملکی و بین الاقوامی این جی اوز اور ادارے موجود تھے وہ بھی حالات کی نذر ہو گئے۔

صنعتیں بالکل نہیں ہیں جو ناخواندہ یا کم لکھے پڑے لوگوں کوروزگار مہیا کر سکیں۔ اس لئے غربت اور بیروزگار ی سے تنگ نوجوانوں کی اکثریت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پاک ایران بارڈر پر مختلف اشیا کاکاروبار کر کے اپنے خاندان کی کفالت کر تے ہیں۔ سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے اہل مکران کو ایران کی جانب سے محدود پیمانے پر مشروط رعایت میسر ہے۔

مگر وقفے وقفے سے ایران بارڈر کی بندش اور کاروباری سرگرمیوں پر من مانی شرائط اور سختیوں سے یہاں کی عوام کرب میں مبتلا ہیں۔ مذکورہ بندش اور سختیوں کی وجہ سے نا صرف اس کاروبار سے منسلک ہزاروں نوجوان ( جن کا تعلق متوسط اور اکثریت کا انتہائی غریب طقبہ سے ہے ) ذریعہ معاش سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ ایندھن سمیت خوردنی اشیاء اور دیگر ضروریات زندگی کے حوالے سے مکران اور گرد نواح کی تمام آبادی کو قحط جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کیونکہ پیٹرول، ڈیزل، گیس، سبزیاں اور پھل، تعمیراتی سامان، قالین، دریاں، چٹائیاں، دودھ و دہی اور پنیر، گھی و کوکنگ آئل، ڈبوں اور پیکٹوں میں بند خورارک، پیسٹری، نہانے کا صابن، شیمپو اور کپٹرے دھونے کا پاؤڈر، محدود پیمانے پر اے سی و کولر اور الیکٹرانک اشیا سمیت دیگر کئی اشیاء اور ضروریات زندگی کے حصول کے لئے یہاں کی آبادی کا انحصار ایران پر ہے اور اس کمر توڑ مہنگائی میں ایرانی اشیاء کی قیمت بھی نسبتاً کم ہے۔ مکران کے عوام کا ہمیشہ سے یہی مطالبہ ہے کہ اس کاروبار کے لئے باقاعدہ ایک ضابطہ کار ترتیب دے کر اسے قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ مگر صوبائی حکام اور ملکی ذمہ داران مسلسل اس مطالبے کو نظرانداز کرتے آ رہے ہیں۔

دراصل اس کاروبار کو قانونی دائرے کار میں لانا اس مضبوط اور طاقتور نیٹ ورک کے مالی مفادات کے کے خلاف ہے جو بھتہ کی شکل میں سالانہ کروڑوں روپے کماتے ہیں اور نیچے سے لے کر اوپر تک سب کا حصہ مختص ہے۔ اگر یہ کاروبار قانونی ہو گیا تو مذکورہ رقم ذاتی جیبوں کے بجائے قومی خزانے میں چلی جائے گی اور یہ اس با اختیار اور طاقتور نیٹ ورک کو کسی صورت قبول نہیں ہے۔ مگر وزیر اعظم نے اپنے دورے میں اس اہم ترین مسئلے کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔

اسی طرح مکران کی ساحلی آبادی، جن کی روزی روٹی سمندری حیات سے وابستہ ہے، مچھلی کا غیر قانونی شکار ماہیگیروں کا ایک گمبھیر مسئلہ ہے جس کے خلاف وہ دہائیوں سے سراپاء احتجاج ہیں اور کبھی بھی ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہاں بھی طاقتور مافیا ریاستی قانون اور متعین اصولوں سے زیادہ طاقتور اور با اختیار ہے، اور ذاتی مالی فوائد کے سامنے ان کے لئے ادارہ جاتی فرائض اور ذمہ داریاں بے معنی ہیں۔ ساحلی شہر پسنی میں موجود فشنگ جیٹی (جو سمندری ریت میں دھنس چکی ہے ) کی مرمت و تعمیر، سمندری کٹاؤ اور عوام کو پانی کی عدم دستیابی جیسے مسائل جو عوام کو درپیش ہیں، مگر وزیراعظم سمیت صوبائی وزیر اعلیٰ نے مذکورہ تمام حل طلب عوامی مسائل سے خود کو دور رکھنے کی روش کو بر قرار رکھا۔

اسی طرح میرانی ڈیم کے متاثرین کو معاوضہ جات کی عدم فراہمی ضلع کیچ کا اہم مسئلہ ہے، جو گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے سرد خانے میں پڑا ہے۔ جس کی وجہ سے ضلع کیچ کے ہزاروں خاندان رل رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں محترمہ زبیدہ جلال کی جانب سے مذکورہ مسئلے کی نشاندہی کے باوجود وزیر اعظم نے اس اہم مسئلے پر بات کرنا بھی گوارا نہیں سمجھا۔ گزشتہ تین سال سے 4 جی انٹرنیٹ کی بندش سے ضلع کیچ کا ہر طبقہ سمیت خاص کر طالب علم اور تعلیمی ادارے شدید متاثر ہیں اور وزیر اعظم کے دورہ سے اہل تربت و کیچ کو اس کی بحالی کی جو امید بندھی تھی وہ صرف امید ہی رہی۔

اگر وزیر اعظم کے دورہ مکران کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو ہوشاپ روڈ کی تعمیر کے اعلان کے علاوہ اہل مکران کے لئے ایک بھی حوصلہ افزاء اور خوش کن بات نہیں ہے۔

آج کل جس بات نے بلوچوں کو اضطراب اور خدشات میں مبتلاء کر رکھا ہے وہ ”جنوبی بلوچستان“ کی اصطلاح ہے جو حکمرانوں کی زبان سے بار ہا ادا کیا جا رہا ہے اور وزیر اعظم نے بھی اپنے دورے میں اسے دہرایا ہے۔ بلوچ قوم کو خدشہ ہے کہ ”جنوبی بلوچستان“ کی اصطلاع در اصل مستقبل قریب میں بلوچستان کی تقسیم کا منصوبہ ہے جس میں آواران، لسبیلہ، واشک، خاران، نوشکی، چاغی اور مکران ڈویژن کے تینوں اضلاع یعنی کیچ، گوادر اور پنجگور شامل ہیں۔

مذکورہ نو اضلاع کے لئے تواتر کے ساتھ ”جنوبی بلوچستان“ کی اصطلاع کا استعمال بلوچستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لئے رائے عامہ کو ہموار کر نا ہے۔ اپنی سیاسی و شخصی بقاء کے لئے مصلحت کے شکار اور غیر سیاسی طاقتوں کے محتاج ایک مجبور مخصوص اور محدود طبقہ کے علاوہ بلوچستان کی اہم سیاسی پارٹیاں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور نیشنل پارٹی بلوچستان کی تقسیم کے کسی بھی منصوبے کی سختی سے مخالفت اور اسے مسترد کر چکی ہیں۔

بلوچ عوام اور قوم پرست حلقوں سمیت مذکورہ پارٹیاں پہلے سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بلوچستان کے جزیروں کو وفاق کی ملکیت قرار دینے کے فیصلے پر سخت ناراض اور اضطراب کا شکار ہیں جبکہ نیشنل پارٹی نے اس فیصلے کے خلاف احتجاجی جلوسوں کا انعقاد بھی کیا ہے۔ ”جنوبی بلوچستان“ کے مسئلے کے حوالے سے بلوچوں کا موقف ایک ہی ہے کہ ”بلوچستان صرف بلوچستان ہے اوربلوچستان ایک ہے“ ۔ جس طرح جب سندھ کی تقسیم کی بات کی جاتی ہے تو اس میں انتظامی حد بندی اور انتظامی سہل کاری کے حوالے سے تمام جواز اور دلائل بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں اور سندھ دھرتی سے جڑی قومی شناخت کا عنصر غالب آ جاتا ہے جو ایک فطری بات ہے۔ بالکل یہی صورت حال بلوچستان میں ہے۔

ریاست کے خیر خواہ پالیسی سازوں کے لئے یہ بات قابل غو ر ہو نا چاہیے کہ مختلف اکائیوں میں رہنے والے مختلف زبان و تاریخ اور تہذب و تمدن کے مالک اقوام کو ایک جدید ریارستی جغرافیہ میں پرو کر رکھنے کے لئے انتظامی امور اور آسانیوں کے نام پر حدبندیوں کے جواز اور دلائل سے زیادہ شناخت کا تحفظ بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اپنی مخصوص سرزمین پر صدیوں سے آباد اقوام، جس سرزمین نے صدیوں کے ارتقاء کے بعد ایک مخصوص زبان، تاریخ اور تہذیب و تمدن کی آبیاری کر کے مختلف قبائل کو ایک ہی مٹی میں گوند کر ایک قومی شناخت بخشی ہو، اس سر زمین کو انتظامی سہل کاری کے نام پر تقسیم کر نا اس قوم کے لئے اتنا ہی اذیت ناک ہے جیسے کہ ایک جسم کو کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کر نا ہے۔

اگر حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو ملک کے تمام صوبے صرف انتظامی اکائیاں نہیں ہیں بلکہ قومی اکائیاں ہیں۔ اس لئے مختلف شناخت کے حامل تاریخی اکائیوں کو متحد و مضبوطی کے ساتھ ایک ریاستی ڈھانچے میں ڈالنے کے لئے مکمل معاشی اور سیاسی حقوق کی رسائی اور برابری کی ضمانت کے ساتھ ساتھ ثقافتی تحفظ بھی درکار ہے جو قومی شناخت سے وابستہ ایک جذباتی معاملہ ہے اور یہ جذبات غیر مشروط طور پر اپنی مخصوص زمین سے جڑا ہوا ہے۔

جذبات کی قدر اور احترام ہی دراصل اتحاد اور اپنانے کا بہترین اور موثر اظہار ہے اور ملکی استحکام، ترقی و خوشحالی اور مضبوطی کا ضامن بھی۔ اس لئے صوبائی اور وفاقی حکام کو چاہیے کہ بلوچوں کے خدشات کو مد نظر رکھ کر ”جنوبی بلوچستان“ کے حوالے سے اپنا موقف واضح کریں تاکہ مزید بد دلی اور انتشار سے بچا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).