افغانستان میں امن کے لئے راستہ ہموار


جب دو فریقین کے درمیان مذاکرات کی صرف باتیں نہیں بلکہ مذاکرات ہو رہے ہوں اور ان مذاکرات میں جنگ بندی کی بات یا مذاکرات کے بین بین عارضی امن کی کوئی خیر خبر نہ ہو اور پھر وہ مذاکرات افغانوں کے درمیان ہو تو عجیب بلکہ غیر فطری سا عمل لگتا ہے، کیونکہ افغان قبائل کے بالخصوص اور عام پشتونوں کے مابین بلعموم جب مذاکرات کی پہل ہوتی ہے تو سب سے پہلے تیگہ، سیز فائر، اوربند یا ڈز بندی ہوتی ہے اور یہ تاحکم ثانی عدالتی سٹے کی طرح نافذ اور قابل عمل ہوتی ہے۔

لیکن جب سے افغانستان سے متعلق سہہ فریقی مذاکرات شروع ہوئے ہیں، طالبان اور امریکہ کے درمیان تو مذاکرات پہلے مرحلے میں ہی کامیاب ہو گئے، پھر بین الافغان مذاکرات تو پہلے ہو نہیں رہے تھے التوا میں پڑ گئے تھے لیکن جب دونوں راضی ہوئے تو مذاکرات لفظی غلطیوں یا لفظی داؤ پیچ کے سہارے ایک دوسرے کو قائل نہ کر سکے لیکن اس دوران وہ خون کی ہولی کھیلی گئی کہ پہلے کبھی مذاکرات کے درمیان ایسا عمل دیکھنے میں نہیں آیا تھا جبکہ طالبان اس کی قبول داری بھی اہنے سر نہیں لے رہے تھے اور حکومت وقت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے لیکن اچھی بات یہ تھی کہ اس تمام صورت حال کے باوجود بین الافغان مذاکرات کا یہ سخت ترین عمل جاری رہا اور بالآخر دوحہ سے کچھ اچھی خبر آئی کہ اب کی بار طالبان اور افغان مذاکراتی ٹیم کے درمیان مذاکرات نہ صرف حوصلہ افزا رہے بلکہ کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

اب اس کامیاب مذاکراتی عمل کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں فریقین کے مابین سب سے پہلے افغانستان کے اندر امن اور جانی و مالی زیان کے تسلسل کے تدارک کی بات ہوگی اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ امن کے کیے اب افغانستان میں راہ ہموار ہو سکتی ہے اگر بیرونی ہاتھوں نے سچ مچ افغانستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی سے خو د کو دور رکھا۔ دوحہ سے اس اچھی خبر کے مطابق فریقین نے اس ابتدائی معاہدے کو اہم پیش رفت قرار دیا ہے جب کہ اقوام متحدہ، امریکا اور پاکستان کی جانب سے بھی اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔

اس ابتدائی معاہدے میں اگرچہ امن مذاکرات کے لیے لائحہ عمل طے کیا گیا ہے تاہم اسے بڑی پیش رفت قرار دینے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس کے بعد مذاکرات کار جنگ بندی سمیت کئی اہم امور پر بات چیت کا آغاز کرسکیں گے۔

سوشل میڈیا کی ایک اڑتی ہوئی خبر کے مطابق افغان حکومت کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کے رکن نادر نادری کا کہنا ہے کہ اس دستاویز میں مذاکرات کا ابتدائی مرحلہ طے کر لیا گیا ہے اور اس کے بعد سے گفت شنید کا ایجنڈا اسی کی بنیاد پر طے کیا جائے گا۔ ا اور مزید سماجی رابطے کی اچھی خبر کے سہارے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ طالبان ترجمان نے بھی ٹویٹر پر معاہدے کی تصدیق کردی ہے۔

واضح رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین یہ پیش رفت قطر میں امریکا کے ساتھ طالبان کا معاہدہ طے پانے کے کئی ماہ بعد ہوئی ہے۔ دوسری جانب اس دوران طالبان کے افغان حکومت کے خلاف حملے جاری رہے ہیں جس کی میں نے اوہر سطروں میں توجہ دلانی کی سہی کی ہے اور دونوں جانب کے موقف کو قلم بند کیا ہے۔ اسی طرح ہمیں سماجی رابطے کی وساطت سے یہ بھی آگاہی ملی ہے کہ امریکا کے خصوصی نمائندہ برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ تین صفحات پر مبنی اس معاہدے میں سیاسی روڈ میپ کی تیاری اور جامع جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے قواعدوضوابط اور لائحہ عمل کا تعین کر لیا گیا ہے۔

طالبان نے ابتدائی طور پر مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے تک جنگ بندی سے انکار کر دیا تھا تاہم خلیل زاد کے مطابق افغان حکومت کے ساتھ ہونے والے حالیہ معاہدے میں فریقین مشکل امور پر بات کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں۔

پاکستان نے افغان فریقین کے درمیان معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے اورترجمان دفتر خارجہ نے دوحہ میں مختلف افغان فریقین کے مابین رولز اینڈ پروسیجرز کے حوالے سے معاہدے کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے اس سلسلے میں زاہد حفیظ چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ اس معاہدے سے فریقین کے بات چیت کے ذریعے حل کی تلاش کے عزم کی عکاسی ہوئی ہے۔ معاہدہ ایک کامیاب اور نتیجہ خیز بین الافغان مذاکر ات کی جانب اہم پیش رفت ہے جس کے لیے ہم پرامید ہیں۔ پاکستان بین الافغان مذاکر ات کی حمایت جاری رکھے گا۔

انہوں نے کہا کہ بین الافغان مذاکرات ایک وسیع البنیاد، کثیر الجہتی حل پر اختتام پذیر ہوں گے۔ اس سے ایک پرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان کا راستہ ہموار ہو گا۔ اب دیکھنا ہے کہ آنے والے دنوں میں افغانستان میں دیرپا امن کی بنیاد کا عمل کیسے اور کہاں سے شروع ہوتا ہے جس کی ضرورت نہ صرف اندرون افغانوں کے لئے ہے بلکہ بیرون دنیا کی نظریں بھی اس جانب مرکوز ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).