حسن کی دیوی افرودیتی کے روپ


جاتی بہار کا ایک عام سا دن تھا۔ چیت ختم ہونے والا تھا بیساکھی کی تپتی ہواؤں کو سہنے کے لیے تن کے تندور تیار تھے۔ رات خلاف توقع چھینٹے پڑے جس کی ٹھنڈک سے جاتے چیت پر بیتے پھاگن کے اثرات کا شائبہ تھا۔

کتھئی پروں پہ سفید دائرے لیے تتلیاں اڑتی پھر رہی تھیں۔ کبوتروں کی غٹرغوں خاموش کا غرور توڑ رہی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد گلی سے مانوس اور مخصوص آوازیں کواڑوں اور کانوں پر دستک دیتی ہوا کے دوش آگے کی جانب بڑھتی جا رہی تھیں، جن میں خوانچہ فروشوں کی آوازیں نمایاں تھیں۔

فراغت کے اوقات میں، میں چلتا ہوا پچھلی طرف درختوں کے جنگل کی جانب نکل جایا کرتا تھا اور کوئی پر سکون جگہ تلاش کر کے کچھ دیر بیٹھتا اور خود کلامی کیا کرتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ بھرے شہر میں میری فریکوینسی کسی سے نہیں ملتی تھی، بس ویسے ہی شہر پر آشوب سے گھٹن سی محسوس ہوتی اور فطرت اور خاموشی مجھے مجھ پہ روشن کرتی تھیں، خود سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ کبھی کبھار خود سے ملاقات بھی ضروری ہوتی ہے۔

اس روز بھی میں جنگلی خود رو جھاڑیوں سے بچتا بچاتا ’پھولوں کو دیکھتا‘ ماحول میں ہوا کی سرسراہٹ کو سنتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا، اچانک ایک آہٹ نے مجھے چونکا دیا، یہاں کوئی ہے، میں نے آواز کی سمت دیکھا۔

مجھ سے کچھ فاصلے پر ایک بیضوی شکل کا تالاب تھا، شفاف رنگ بدلتا ہوا، پانی کبھی ہلکا نیلا، کبھی گہرا سبز، چیری بلاسم کے کھلتے پھولوں کی چھاؤں میں، جامنی مائل گلابی جالی کا لباس کیا وہ کوئی حور تھی ’پری تھی یا جل پری؟

اس کی کٹورا آنکھیں مجھ پہ مرکوز تھیں، کہنے لگی، ” تم کون ہو“
زبان اجنبی تھی۔ ہم کس زبان میں ہمکلام تھے۔ میں اس زبان سے ناآشنا تھا۔
مگر میں جو بولتا تھا اسے سمجھ آتی تھی۔

میں نے اس سے پوچھا۔
”کیا آپ زہرہ ہیں؟“
”وینس، افرودیتی“

”ہاں تم مجھے کیسے جانتے ہو؟“

”اے حسن کی معبودہ! میں ایک شاعر ہوں اور وہ کون سا شاعر ہو گا جو آپ سے بے خبر ہو۔ ”

وہ مسکرائی۔ ایسے لگا جیسے اس کی مسکراہٹ سے پورپ سے لے کر پچھم تک روشنی پھیل گئی ہو ایک دودھیا سفید روشنی۔
کیا آپ وہی افرودیتی ہیں، جو قبرص کے جزیرے پر عبادت کے اعلی مرکز پافوس کے قریب پیدا ہوئی تھی ؟
میری شناسائی پر وہ حیران تھی۔
”تم میرے متعلق جو بھی جانتے ہو مجھے سب بتاؤ۔“

میں زہرہ جمال کو پہچان گیا تھا کیونکہ میرے پاس اوائل جوانی سے ہی اس کا ایک مجسمہ تھا۔ وہ صرف جنس اور محبت ہی نہیں بلکہ ان تمام کیفیات اور جذبوں کی دیوی تھی جن کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کے ساتھ سماجی رشتوں رابطوں اور تعلقات میں بندھے ہوئے تھے۔ وہ یونان کی دیوی تھی۔

آپ وہی دیوی ہیں نا، انتہائی پاکیزہ، مہذب، شائستہ، مثالی محبت کی معبودہ۔
میں نے کہا،
مجھے معلوم ہے آپ میری خاطر مشرق وسطیٰ سے یونان کی طرف آئی تھیں۔ میں وہ منظر دیکھتے رہنا چاہتا تھا!
وہ اولین کنواری دیوی کا ایک حسین روپ تھی۔
”کیا میں آپ کو روپا کہہ کے پکار سکتا ہوں“
یا ماہ رو
یہ نام بہت حسین ہے اور میں نے پہلی بار سنا ہے۔
میں تمہارا حسین تخیل ہوں تم جس نام سے مجھے پکارو میں وہی ہوں۔

ایک بار پھر اس کی زلفیں ہوا میں بکھریں اور آسمان سرمئی بادلوں سے ڈھک گیا۔ سر کے نور افشاں بالوں سے لے کر سیمیں پاؤں تلک اس کا پورا بدن بے داغ اور دل آویزی کا بے مثال شاہکار تھا۔

میں اس کی دلنواز مسکراہٹ کا اسیر ہو چکا تھا۔ وہ ملکہ خنداں تھی وہ کبھی تو شیریں انداز میں متبسم رہتی، کبھی اسیران حسن کا ٹھٹھا اڑانے لگتی۔

اچانک میری نگاہ اس کے تاج کی طرف اٹھی کیا گلاب کے پھولوں سے بنا حسین تاج تھا، گلابی اور لال گلابوں سے بنا ہوا بیش بہا مہکتا تاج۔ میں نے سن رکھا تھا کہ گلاب اپنی گلابی پن اور لالی کے لیے اسی کا شرمندہ احسان ہے۔ جہاں اس کا قدم پڑتا دھرتی سبزہ و گل سے بھر جاتی۔ خوبصورت پھول کھل اٹھتے سمندر میں موجیں شاد کام ہو جاتیں، خرام اور مست ہوائیں آگے آگے ہو لیتیں بادل ساتھ ساتھ اس کے رتھ کے رواں رہتے۔

میں نے دیکھا اس نے اپنے کمر بند کو چھوا کیا حسین کمر بند تھا جو اس کی طاقت اور حسن کو دو آتشہ کر دیتا۔

وہ مجھ سے رخصت چاہتی تھی اس یقین کے ساتھ کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔ میری نثر کو مرصع بنائے گی میرے تخیل کو جھولا جھلائے گی، میری تنہائی کو آباد رکھے گی، کبھی مجھے اشعار کے باغوں میں لے کر گھومے گی، کبھی میرے لفظوں میں افسانوی روپ بھرے گی۔

میں نہیں چاہتا کہ وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہو میں نے دل کی بات کہنے کی جسارت کی۔
دل کی بات کہہ دینے کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے۔

وہ میرے قریب ہوئی اتنے قریب کہ مجھے محسوس ہوا، اس کی روشنیاں میری روشنیوں میں جذب ہو گئیں دفعتاً میرے حواس جاتے رہے۔ میں اپنی آنکھوں سے اس کا حسین رتھ نہیں دیکھ سکا جو اس کے شوہر نے اس کو تحفے میں دے رکھا تھا۔ کیونکہ ایتھننر شہر میں وہ ایک باوقار شادی شدہ دیوی تھی۔ مگر مجھے اس سے کیا وہ دنیا کے لیے افرودیتی مگر میرے لیے وہ میری ماہ رو تھی۔

میں آپ کا حسین رتھ دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے عرضی پیش کی۔ جس پہ افرودیتی سوار ہو کے جنگلوں بیابانوں اور دلوں کو زرخیز کرتی ہے ابھی خیال میرے من میں تھا کہ وہ پھر نظر آئی،

کہنے لگی، ”میں جس سے محبت کرتی ہوں اس کی ہر تمنا پوری کرتی ہوں لو دیکھو میں رتھ پہ سوار ہوں مگر دل تھام کے رکھنا میری رخصتی وسیع ظرف کی طلبگار ہوگی۔ کیا تم اس کے لیے تیار ہو، میں نے اقرار میں سر ہلایا۔ میں تیار ہوں مگر منظر اتنا حسین تھا کہ میں برداشت نہ کر سکا اور ساکت ہو گیا۔

بس اتنا یاد ہے کہ بے مثال رتھ دل فریب نقش و نگار سے سجا تھا اور اس رتھ کو سفید فاختائیں، قمریاں اور راج ہنس کھینچ رہے تھے چار سفید راج ہنس تھے جن کی سبک گردنوں میں سنہری قوس قزح کے رنگوں سے بنی نازک زنجیریں تھیں حسن کی معبودہ کے پیچھے بہت سی چھوٹی چڑیاں اور نایاب پرندے مسرور محو گیت گاتے پرواز تھے۔

مجھے معلوم تھا وہ وہی تھی جس کی تلاش میں میں نے بہت سے جنگلوں کا سفر کیا تھا۔ اس کی تمام تر علامات مجھ پہ ظاہر ہو چکی تھیں۔ ہاں یہ وہی تھی میرے قریب انار کے درخت تھے۔ صنوبر حنا اور گلاب مخمور تھے اور کیوں نہ ہوتے ان کے سروں پہ حسن کی معبودہ کا آشیرباد تھا۔ وہ تخیل کی شاہزادی تھی۔ جب میری آنکھ کھلی وہ اپنا حسین تحفہ مجھے دے کر جا چکی تھی۔ میرے ہاتھ میں ایک سیپ تھا اس کے قرار و مسکن کی نشانی۔ جس میں حروف اور تخیل، کے سچے موتی تھے۔ میری نظمیں اور مصرعے اسی کی محبت کا فیضان ہیں وہ بار ہا میرے قریب آئی۔ کئی دفعہ تو مجھے احساس ہوا وہ مجھے اپنے ساتھ لے جا چکی ہے۔

میری افرودیتی، میری روپا، میری ماہ رو جس کا رین بسیرا ہر عاشق کا دل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).