کاوان کا آخری خط


کاوان کا مجھے ایک خط ملا ہے۔ جس میں اس نے بے شمار شکوے، شکایتیں، دکھ اور تکلیفوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ وہی کاوان ہے جسے ہم دنیا کے تنہا ترین ہاتھی کے طور پر جانتے ہیں۔ اب چونکہ کاوان اسلام آباد کے چڑیا گھر سے کمبوڈیا میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے مختص علاقے میں پہنچ چکا ہے۔ جہاں وہ دیگر ہاتھیوں کے ساتھ آزادانہ زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن اس کی سوچ پر بے شمار تکلیف دہ نقش ہیں جو یہ خط پڑھ کر مجھ پر عیاں ہوئے۔

کاوان نے خط میں لکھا ”تم نے مچھر، کتوں اور چڑیا گھر کے دیگر جانوروں پر لکھا، لیکن تم کو میرا کبھی خیال نہیں آیا کہ میں پینتیس سال سے کس طرح جیتا رہا ہوں۔ میں کیا چڑیا گھر میں ہر جانور اسی درد کو جیتا ہے۔ جو درد اور پیڑ میں اور دوسرے پنجرے کے جانور صدیوں سے محسوس کر رہے ہیں وہ تم انسان کبھی محسوس نہیں کر سکتے۔ کیونکہ تم بے حس ہو، تم کو صرف ہمارا تماشا دیکھنا ہے۔ اور ہماری مجبوری سے لطف اٹھانا ہے۔ ایک لمحے کے لئے کسی پنجرے میں بیٹھ کر دیکھ لو لگ پتا جائے گا۔“

خط پڑھتے پڑھتے میری آنکھوں کے سامنے کاوان آ گیا۔ زنجیروں میں جکڑا ہوا، خاموش، دیوار سے سر ٹکائے کھڑا تنہا کاوان۔ وہ شاید دنیا سے بے نیاز تھا یا پھر دنیا کو اگنور کر رہا تھا۔

یوں تو میں کبھی کاوان سے نہیں ملا۔ پھر اس نے مجھے خط کیوں لکھا، اسے میرا پتہ کس نے دیا۔ میرے ذہن میں یہ سوالات تھے۔ پھر مجھے ان سوالات کے جواب بھی خط میں ہی مل گئے۔

”مجھے تمہارا پتہ اسلام آباد کے پرانے کھاپڑ صحافی نے کافی عرصہ پہلے دیا تھا۔ اور میں نے تم کو کئی خط بھی لکھے۔ لیکن مجھے کسی کا نہ جواب ملا اور نہ کبھی تمہارا ان خطوط کے بعد کوئی ردعمل سامنے آیا۔ یہ میرا آخری خط ہے۔ جو میں کمبوڈیا جانے سے پہلے تمہیں لکھ رہا ہوں۔ پتہ نہیں تم کو ملے یا نہ ملے۔“

میں پھر کاوان کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس کا مجھے کوئی خط نہیں ملا۔ شاید آرڈنری پوسٹ کیا ہوگا۔ اس لئے نہیں ملا! کیونکہ کچھ دوستوں نے بھی مجھے بھیجے گئے آرڈنری خطوط کے بارے میں پوچھا تھا، جو مجھے کبھی نہیں ملے۔ کاوان کے خطوط بھی پاکستان پوسٹ کی آرڈنری ڈاک میں کہیں گم ہو گئے۔ پھر یہ خط کیسے مجھ تک پہنچا۔ میں نے لفافہ پلٹ کر دیکھا جس پر بھیجنے والے کا نام اور پتہ لکھا تھا۔ یہ وہی اسلام آباد کا مشہور صحافی تھا، جس کے بارے میں کاوان نے خط میں بھی لکھا ہے۔

” یہ مشہور اور کھاپڑ صحافی مجھے پاکستان بھر کی خبریں سناتا تھا۔ میں خبریں سن کر حیران و پریشان ہوتا۔ بچوں سے زیادتی کے واقعات، روز بے شمار قتل، لوٹ مار اور ڈکیتیاں، بھوک، بدحالی اور ایسی انگنت خبریں کہ جن کو سن کر خوف طاری ہو جائے۔ یہاں تک کہ مذہبی جگہوں پر بھی کوئی محفوظ نہیں۔ میں یہ روز خبریں سن کر سوچتا کیا کوئی پوچھنے والا نہیں؟ کوئی روکنے والا نہیں؟ انسان نہیں کچھ کر سکتا تو کوئی اور بھی نہیں ہے۔ ؟“

مجھے کاوان کی باتوں سے لگا کہ وہ ناستک ہے۔ اس لئے ایسی باتیں کر رہا ہے۔ یہ سوچ کر پھر میں خط کی طرف متوجہ ہوا۔

”جب یہاں انسان کا انسان سے برتاؤ دیکھا تو مجھے خیال آیا، جب یہ اپنے لئے اچھا نہیں سوچتے تو میرے لئے کیا خاک سوچیں گے۔ یہ سوچ کر میں مایوس ہو گیا اور جینے کی چاہت ہی ختم ہو گئی۔

میری دوست سہیلی ( ہتھنی ) دو ہزار بارہ مٰیں مر گئی، میں پچھلے آٹھ سالوں سے تنہا ہوں۔ انسان تنہائی کا درد محسوس ہی نہیں کر سکتے۔ تنہائی میں کوئی کوئی مثبت سوچتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت تنہائی میں مایوس ہو کر غلط راستوں پر چل پڑتی ہے۔ اور یہی حال میں نے یہاں دیکھا ہے۔

انسان بڑا ظالم ہے خود ظلم بھی کرتا ہے اور مظلوم بھی بنتا ہے۔ بانجھ معاشروں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ پورا معاشرہ اس کا عکس ہے۔ مجھے مثال دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سب کچھ ظاہر ہے۔

جہاں لوگ خود سے پیار کریں، اپنے بچوں، زمین، پیڑ، پودوں اور قدرت سے پیار کریں وہ سماج تعمیری ہیں اور ایسے لوگ اس دنیا کو اپنی آنے والی نسلوں کے لئے بھی خوبصورت چھوڑ کر جانا چاہیں گے۔ مگر وہ لوگ جو سورگ کے یوٹوپیائی خواب دیکھ کر اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ان کے لئے کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا تو ہم سب نے دیکھی ہے۔ سورگ کس نے دیکھی ہی؟

میں اگلے کچھ دنوں میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔ اور وہ جگہ یہاں سے یقیناً اچھی ہوگی۔ میں اس ساری جدوجہد میں طالبہ ثمر خان اور گلوکارہ شیر سمیت ان تمام جانوروں سے پیار کرنے والوں کا شکرگزار ہوں، جن کی کوششوں سے مجھے رہائی نصیب ہوئی۔ ”

کاوان کا خط پڑھ کر میں حیران ہو گیا۔ اتنا سمجھدار جانور وہ بھی پاکستان میں۔ میری پریشانی کم ہی نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں کاوان کی صحت مند زندگی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور اس کی ذہانت پر شاباش دی اور ساتھ ہی انسانی بے حسی پر غور کیا اور پھر اگلے لمحے وزیراعظم پاکستان عمران خان کا انٹرویو دیکھنے لگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).