غیر ملفوظ ’الفاظ‘ اور غیر مذکور ’معنیٰ‘


زمزم ہی پہ چھوڑو مجھے کیا طوف حرم سے
آلودہ بہ مے جامۂ احرام بہت ہے
اگر کوئی آپ کی تعریف کرے تو اس کے پیچھے کئی طرح کی علتیں ہو سکتی ہیں۔
1۔ ہو سکتا وہ شخص آپ سے بہت محبت کرتا ہو
2۔ ہو سکتا ہے وہ چاپلوسی کر رہا ہو
3۔ ہو سکتا ہے وہ محض مذاق کر رہا ہو

4۔ ہو سکتا ہے اس نے آپ کی تعریف میں کوئی جملہ بس یونہی کہہ دیا ہو۔ ہم جلسوں میں دیکھتے ہیں اور کتابوں کے مقدموں میں پڑھتے ہیں اور مشاعروں میں سنتے ہیں۔ شاعر، قلم کار اور مقرر اپنے اپنے ممدوح کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ بے شک وہ تھوڑی بہت یا کبھی کبھار حقیقت بیانی بھی کرتے ہیں مگر زیادہ تر یہ سب لن ترانی ہی ہوتی ہے، حقیقت سے اس کا زیادہ تعلق نہیں ہوتا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کبھی کوئی یونہی کسی کی تعریف بھی کرتا ہے۔ اپنے زور بیان کا ہنر آزمانے کے لیے، حتیٰ کہ کوئی اچھا جملہ بن گیا ہے جو اس کو بہت پسند آ گیا ہے تو وہ اس کا اظہار چاہتا ہے اور اتفاق سے وہ جملہ آپ کی تعریف میں ہوتا ہے یا وقت ایسا ہوتا ہے کہ وہ تعریفی کلمہ جو غیر متعین شخص کے لیے ذہن آیا ہوگا، آپ سے منسوب کر کے ظاہر کرنا پڑ گیا ہے۔

طرفہ تو یہ ہے کہ اس علت کے تحت آنے والی بات کے پس پردہ بھی کئی علتیں ہو سکتی ہیں، یعنی جب کوئی کسی کی یونہی بنا کسی خاص غرض اور مطلب کے تعریف کرتا ہے تو اس کے پیچھے بھی کئی طرح کی علتیں ہو سکتی ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی چھوٹی سے چھوٹی بات کے پیچھے بھی کئی طرح کی علتیں ہوتی ہیں، کئی بار یہ پکڑ میں آجاتی ہیں اور کئی بار بلکہ اکثر و بیشتر پکڑ میں نہیں آ پاتیں۔ اور جب معاملہ شعر کا ہو تو ان علتوں کو بوجھ پانا مزید مشکل ہوجاتا ہے۔

چلئے، اس تمہید سے جو اصول سامنے آتا ہے اس کی روشنی میں غالب کے مذکورہ شعر کی تشریح کرتے ہیں۔
پہلے مصرع میں دو جملے ہیں : ”زمزم ہی پہ چھوڑو“ اور ”مجھے کیا طوف حرم سے“

1۔ زمزم ہی پہ چھوڑو۔ یعنی مجھے زمزم پہ ہی رہنے دو۔ اب کوئی یہ نہ کہے کہ پکڑ کس نے رکھا ہے یا منع کس نے کیا ہے، تو دراصل منع کسی نے نہیں کیا ہے، بس یہ انداز ہے کسی بات کو کہنے کا، خاص کر شاعری میں۔ اس سے غالب کا مدعا یہ ہے کہ وہ چاہ زمزم سے آگے نہیں جانا چاہتے، بھلے ہی وہ عمرہ یا حج کے ارادے سے آئے ہوئے ہوں۔ اور اس شعر کے دوسرے مصرع ”آلودہ بہ مے جامۂ احرام بہت ہے“ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ زمزم پر رکنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ طواف حرم کے لئے جانے سے قبل اپنے کپڑوں کو دھونا چاہتے ہیں۔

یعنی گناہوں سے دامن دل و نگاہ داغدار ہیں پہلے انہیں آب زمزم سے دھو لیں اور لباس احرام پاک کر لیں۔ طواف کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ یا یہ مطلب ہے کہ مجھ ایسے عاصی کو طواف زیب نہیں دینا، میں زمزم تک پہنچ گیا یہی بہت ہے۔ نفسیاتی سطح پر اس کو یوں سمجھیں کہ بعض نمازی سیدھے صف اول میں جاکر بیٹھتے ہیں، یقیناً اس سے ان کا مطلب زیادہ ثواب کمانا ہی ہوتا ہے، مگر بعض دوسرے لوگ خود کو پچھلی صفوں تک محدود رکھتے ہیں، یہاں تک کہ جمعہ جیسی نماز میں بھی بار بار آگے آنے کی تلقین کے باوجود پچھلی صفوں میں ہی جم کر کھڑے رہتے ہیں۔ اور خود کے بجائے کسی اور کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

محض لفظی مناسبت سے اس موقع پر غالب کا ایک اور شعر پڑھتے چلیں :
رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم
دھوئے دھبے جامۂ احرام کے

اس میں ایسے کردار کا بیان ہے جو گناہ کا بھی عادی ہے اور توبہ و استغفار کا بھی۔ مگر نہ استقلال ادھر ہے اثم کی سرزمین پر اور نہ دوام ادھر ہے، یعنی استغفار کے ہلال پر۔ توبہ سے بھی پھسل پھسل جاتے ہیں اور گناہوں میں بھی تسلسل نہیں۔ یعنی پائیداری اور ثبات کہیں نہیں۔ اور یہ کردار بہت عام بھی ہے۔

اس تشریح سے درج ذیل دو علتیں سامنے آتی ہیں :
1۔ طواف سے مجھے کیا مطلب؟ میں زمزم تک آ گیا یہی بہت ہے۔
2۔ زمزم پر اس لیے ٹھہرنا چاہتے ہیں کہ زمزم کے آب شفا سے ظاہر و باطن کو پاک صاف کرنا چاہتے ہیں۔

اگر مصرع کے دوسرے ٹکڑے ”مجھے کیا طوف حرم سے“ کو نثر میں بدلا جائے گا تو قرین قیاس جملہ کچھ یوں بنے گا۔ ”مجھے طواف حرم سے کیا مطلب“

اب اس کے پیچھے بھی دو علتیں ہو سکتی ہیں :
1۔ میں طواف حرم اس لیے نہیں چاہتا کہ میری طبیعت ادھر مائل نہیں ہوتی۔
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
2۔ طواف سے احتراز اس لیے ہے کہ شرمساری کی وجہ سے خدا کے گھر کا سامنا نہیں کر پا رہے ہیں۔
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ کسی بھی غزل، شعر، قول، آیت یا حدیث کے صرف لفظی اور ظاہری معنیٰ پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان میں موجود ”غیر ملفوظ“ الفاظ اور غیر مذکور معنیٰ بھی تلاش کرنے چاہیے۔

بے شک غالب کا مذکورہ شعر واضح ہے مگر اس میں علتیں بیان نہیں ہوئیں۔ علتیں تو اپنی صوابدید اور اپنے ذوق و وجدان سے ہی بیان کی جا سکتی ہیں۔ اور جو صحیح علتوں تک پہنچ جائے وہ گویا شعر کی معرفت تک پہنچ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).