مینڈیٹ کھونے کے طریقے۔


مینڈیٹ ایک طرح کا اختیار ہوتا ہے جو عوام اپنے نمائندوں کو دیتے ہیں تاکہ وہ عوامی مسائل کے حل کے لیے کام کر سکیں۔ اچھی طرح کام کرنے والی جمہوریت میں مینڈیٹ کا احترام کیا جاتا ہے اور مینڈیٹ کی خلاف ورزی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے وعدہ خلافی سمجھا جاتا ہے۔ جہاں جہموریت صحیح کام نہ کر رہی ہو وہاں مختلف بہانے بنا کر منڈیٹ کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ کبھی ”قومی مفاد“ کے بہانے اور کبھی خود ”جمہوریت کی بقا“ کی آڑ میں مینڈیٹ سے روگردانی کی جاتی ہے۔

جہاں جمہوریت کو یرغمال بنایا جاتا ہے وہاں ریاستی اور غیر ریاستی دونوں سطح پر مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا جاتا اور بعض اوقات تو یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ اصل مینڈیٹ ہے کس کے پاس۔ مثلاً افغانستان میں انتخاب ہوتے ہیں صدر کے منتخب ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے مگر معلوم نہیں ہوتا کس کا مینڈیٹ اس صدر کے پاس ہے۔ آدھے سے زیادہ افغانستان پر کابل حکومت کا قبضہ نہیں ہے جس سے مینڈیٹ پر بڑے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

بھارت جہاں جمہوریت بظاہر کام کرتی معلوم ہوتی ہے وہاں بھی پچھلے انتخابات میں حزب مخالف نے ووٹوں کی گنتی کے لیے استعمال ہونے والی الیکٹرانک مشینوں پر بڑے اعتراض کیے تھے۔ پاکستان میں عوام کے مینڈیٹ کو نہ صرف انتخابی عمل کے دوران متنازع بنا دیا جاتا ہے بل کہ دھاندلی کے سنگین الزامات بھی لگائے جاتے ہیں جن کہ درست ہونے یا نادرست ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ فوجی آمروں کے ریفرنڈم تو کھلے عام دھاندلیوں کے ذریعے جیتے جاتے رہے ہیں۔

پھر کم زور یا قابل فروخت سیاست دان بھی مینڈیٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ قابل فروخت اس لیے کہ اکثر سیاست دانوں کا تعلق اشرافیہ با بدمعاشیہ سے ہوتا ہے جو خود کو اچھی قیمت پر بیچنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ پھر جو لوگ قابل فروخت نہیں ہوتے انہیں بھی دباؤ اور دھمکی سے رام کر لیا جاتا ہے۔ احتساب کا ہتھوڑا گھمایا جاتا ہے تو کبھی توہین عدالت کا۔ میں نے اپنے ایک پچھلے مضمون میں مینڈیٹ چرانے کے سات طریقوں کا ذکر کیا تھا یہ طریقے پاکستان کے سات عشروں میں بار بار استعمال کیے گئے ہیں تاکہ عوام کو ان کے مینڈیٹ سے محروم کیا جاسکے۔

جب پاکستان وجود میں آیا تو مسلم لیگ کے پاس بظاہر اس بات کا مینڈیٹ موجود تھا کہ وہ پاکستان کی بانی اور خالق جماعت کی حیثیت سے نوزائیدہ ملک پر حکومت کرے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح جلد انتقال کرگئے تو قیادت کا بار لیاقت علی خان کے سر آیا جو وزیراعظم تھے۔ انہوں نے ہی اپنے مینڈیٹ کو کھونے کی جانب ابتدائی قدم اٹھائے جس سے مسلم لیگ نے عوام میں اپنی حمایت کھودی۔

مینڈیٹ کھونے کا پہلا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ آپ سب سے اہم مسائل کے حل میں آنا کا نی کرتے ہیں۔ اس وقت دستور ساز اسمبلی کے لیے سب سے اہم اور فوری مسئلہ ایک نئے آئین کی تشکیل تھا۔ بھارت میں انڈین نیشنل کانگریس اور پاکستان میں مسلم لیگ میں ایک اہم فرق یہ تھا کہ کانگریس نے اپنے مینڈیٹ کا آئین دو سال کے اندر بنا کر دے دیا جب کہ مسلم لیگ ایسا نہ کرسکی۔ مسلم لیگ نے آئین بنانے میں تقریباً دس برس لگا دیے اور اس دوران اپنا مینڈیٹ کھودیا۔

پھر اگر آپ اپنے مینڈیٹ کو حاصل کرنے کے بعد اہم ترین مسائل کے حل میں جتنی دیر لگائیں گے اتنی ہی جلدی آپ اپنا مینڈیٹ کھو دیں گے اور ساتھ ہی عوام کی حمایت بھی۔ جنرل ایوب خان کے پاس اول تو عوامی مینڈیٹ تھا ہی نہیں پھر جو تھوڑی بہت عوامی حمایت وہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے تھے اسے انہیں ملک کے دونوں بازوؤں کے درمیان فرق کم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے تھا لیکن اس کے بجائے جنرل ایوب خان نے ون یونٹ کو جاری رکھا پھر انہوں نے ایک کے بعد ایک غلط قدم اٹھائے اور تھوڑی بہت حمایت جو تھی وہ بھی گنوادی۔ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اقتدار کی منتقلی کے وعدے کے باعث ابتدا میں عوامی عزت و احترام حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے مگر انتخابات کے بعد اپنے وعدے سے پھر گئے، ہتھیار بھی ڈالے اور آدھا ملک بھی گنوادیا۔

اپنا مینڈیٹ کھونے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے مخالفین کو نشانہ بناتے رہیں
لیاقت علی خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک اور نواز شریف سے عمران خان تک سب نے اہنے مخالفین کو نشانہ بنایا اور خود اپنا مینڈیٹ کھودیا۔ عوام جب آپ کو مینڈیٹ دیتے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے مسائل حل کریں نہ کہ اپنے مخالفین کو برا بھلا کہتے رہیں اور ان کے خلاف کارروائیاں کرتے رہیں۔ اگر آپ اقتدار میں آ کر مینڈیٹ حاصل کرچکے ہیں تو آپ فاتح اور حزب اختلاف کمزور ہے اگر آپ کمزور کو نشانہ بنائیں گے تو خود اپنی عزت گنوائیں گے اور پھر آپ اپنا مینڈیٹ بھی کھو دیں گے۔

تیسرا اور نسبتاً تیز رفتار طریقہ یہ ہے کہ آپ سیاست اور مذہب کو گڈ مڈ کرنے کی کوشش کریں۔ چاہے وہ لیاقت علی خان کی قرارداد مقاصد ہو یا یحییٰ خان کی طرف سے مذہبی جماعتوں کی خاموش حمایت، چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کے سامنے پسپائی ہو یا نواز شریف کی طرف سے شریعت بل لانے کی کوشش۔ یہ وہ باتیں نہیں جن کے لیے عوام نے آپ کو مینڈیٹ دیا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو عوام نے اپنا مینڈیٹ مذہبی جماعتوں کو دے کر انتخابات میں کام یاب کرادیا ہوتا پھر جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کو مینڈیٹ دیا ہوتا یا جمعیت علمائے اسلام یا جمیعت علمائے پاکستان کو مینڈیٹ دیا ہوتا۔ آپ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور آپ کا مینڈیٹ آپ کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

چوتھا طریقہ یہ ہے کہ مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد بھی آپ سول اور فوجی افسر شاہی کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ شروع میں افسر شاہی کی قیادت ملک غلام محمد، چودھری محمد علی، اسکندر مرزا، قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسے لوگوں کے ہاتھ میں تھی جنہوں نے سیاسی قیادت کو زیر کر لیا پھر جنرل ایوب خان جیسے لوگوں نے خود سیاست کو ہی طاقت کے تابع کر دیا۔ عظیم سیاسی رہ نما جیسے عبدالغفار خان، سہروردی، تمیزالدین،

جی ایم سید، بزنجو، فاطمہ جناح اور بعد میں محمود علی قصوری، معراج محمد خان، مینگل پھر بھی جمہوریت کے لیے لڑتے ہوئے ثابت قدم رہے اور ریاست کے ہاتھوں ظلم برداشت کیے۔

اپنا مینڈیٹ کھونے کا پانچواں طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی تیاری نہ کریں۔ جب آپ خود کو بونوں کے درمیان رکھیں گے جو آپ کے ہر قدم پر واہ واہ کرتے رہیں تو آپ ممکنہ طور پر سمجھ دار لوگوں سے دور ہوتے جاتے ہیں نہ ہی آپ کے پاس ایسے ماہر اور تجربہ کار لوگ جمع ہوتے ہیں جو آپ کو صحیح مشورے دے سکیں۔ تیاری کرنے کا مطلب ہے آپ مینڈیٹ حاصل کرنے سے پہلے ہی ایک شیڈو کابینہ بنائیں جس میں کم از کم چار بڑی وزارتوں کے متوازی وزیر اپنی اپنی وزارتوں کے متعلق تیاری کریں۔

مثلاً دفاع، مالیات، خارجہ و داخلہ امور وغیرہ کے ماہرین آپ کے پاس ہونے چاہیے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں آپ افسر شاہی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں جو سیاست دانوں سے زیادہ تجربہ کار ہوتی ہے اور شاطر بھی۔ اس طرح اگر آپ کے پاس اچھی طرح سے تیار کیے ہوئے منصوبے صحت، تعلیم، فراہمی و نکاسی آب، توانائی اور بہتر طرز حکمرانی کے لیے موجود نہیں تو آپ بہت جلد اپنا مینڈیٹ کھو دیں گے۔

چھٹا طریقہ یہ ہے کہ آپ غیر حقیقی اور ناقابل عمل وعدے کریں اور ہر وعدے میں جھوٹ بولیں۔ اگر آپ قومی سطح کے رہ نما ہیں تو آپ اپنی توانائی بیس بستروں کے نام نہاد شیلٹر ہوم یا پناہ گاہ پر ضائع نہیں کر سکتے نہ ہی آپ کسی انڈرپاس یا فلائی اوور کا افتتاح کرنے جاتے ہیں۔ آپ ایسے کام شروع نہیں کر سکتے جنہیں بیچ میں چھوڑنا پڑے۔ مثلاً آپ کسی سپرپاور اور اس کے مخالفوں کے درمیان ثالثی یا مصالحت کرانے کے دعوے نہیں کر سکتے نہ ہی امت کا رہ نما بن سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).