شناخت پراجیکٹ: کراچی میں ’لاوارث لاشوں‘ کو اُن کے اپنوں تک کیسے پہنچایا جا رہا ہے؟


ایدھی فاؤنڈیشن
ایدھی فاؤنڈیشن کے لاوارثوں کے قبرستان میں 79 ہزار سے زائد لاشیں دفن ہیں
شام کا وقت ہے اور پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کے مضافاتی علاقے بلدیہ ٹاؤن کے ایک غیر آباد حصے میں کچھ راہ گیر جمع ہیں۔

نیچے جُھکے اِن نصف درجن افراد کی نظریں زمین پر گڑی ہیں جہاں ایک ساٹھ سالہ شخص اوندھے منھ پڑا ہے۔ بظاہر اُس کے جسم پر کسی چوٹ یا زخم کے نشان نہیں ہیں۔ لیکن تمام لوگ متفق ہیں کہ یہ شخص اب اِس دنیا میں نہیں رہا۔

دور ایمبولینس کے سائرن کی آواز آتی ہے اور چند ہی لمحوں میں وہ مجمعے تک پہنچ جاتی ہے۔ ایمبولینس سے ڈرائیور اُتر کر زمین پر گرے شخص کے پاس آتا ہے اور اُس کی نبض اور سانس چیک کر کے تسلی کرتا ہے۔

ایمبولینس میں سے سٹریچر نکالا جاتا ہے اور لاش کو چادر سے ڈھانپ کر روانہ کر دیا جاتا ہے۔

یہ کراچی شہر میں روزانہ ملنے والی بے شمار ’لاوارث لاشوں‘ میں سے ایک لاش ہے۔

اپنی آسانی کے لیے آگے چل کر ہم اِسے ’لاوارث‘ کے نام سے ہی پکاریں گے۔

اب میت پر رونا نہیں آتا

’لاوارث‘ کو ایمبولینس میں ہسپتال لے جایا جا رہا ہے جہاں ڈاکٹرز اُس کی موت کی وجہ کا تعین کریں گے۔ اس کے بعد لاش ایدھی سرد خانے پہنچا دی جائے گی۔

ایمبولینس ڈرائیو کرنے والے 44 سالہ معراج مُحسن گذشتہ پندرہ برس سے یہی کام کر رہے ہیں۔ ’ہمارا کنٹرول روم ہمیں بتاتا ہے کہ فلاں جگہ لاوارث لاش پڑی ہے۔ تو ہم اُس مقام پر پہنچتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

دو دن میں 261 لاوارث لاشیں دفن کیں: ایدھی فاؤنڈیشن

قبر پرست قوم اور چندے کی بڑی پیٹی

’ایدھی بابا‘ اور لالو کھیت کا لاوارث بچہ

’سو میں سے پانچ کی مشکل سے شناخت ہوتی ہے‘

ایدھی، شناخت پراجیکٹ

ایمبولینس ڈرائیور معراج محسن: ’اب تو ڈیڈ باڈیاں اُٹھا اُٹھا کر ہم اتنے مضبوط ہو گئے ہیں کہ اپنی میتوں پر بھی رونا نہیں آتا’

رش آور کے بے ہنگم ٹریفک سے اپنی ایمبولینس نکالتے ہوئے معراج مُحسن نے بتایا کہ یہ کام وہ نیکی سمجھ کر کرتے ہیں۔

’اگر کوئی انسان روڈ پر پڑا ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اُسے جلد سے جلد وہاں سے اُٹھا لیں۔ کیا پتا وہ کب سے پڑا ہے۔ کسی نے مار کے پھینک دیا، یا بیمار تھا جو چلتے چلتے گر کر مر گیا۔‘

ایمبولینس کے پچھلے حصے میں رکھی ’لاوارث‘ لاش سے معراج مُحسن ہمدردی رکھتے ہیں۔

’ہم بھی انسان ہیں۔ ہمارے سینے میں بھی دل ہے۔ لیکن اب تو ڈیڈ باڈیاں اُٹھا اُٹھا کر ہم اتنے مضبوط ہو گئے ہیں کہ اپنی میتوں پر بھی رونا نہیں آتا۔‘

پہلی کال

’لاوارث‘ کو اُٹھانے کے لیے بھیجی گئی ایمبولینس کو ہدایات کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع ایدھی فاؤنڈیشن کے مرکزی کنٹرول روم سے دی گئیں۔ اِس کنٹرول روم کے انچارج نوجوان محمد سلمان ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پورے کراچی کی ایمرجنسی کالز یہاں اِس کنٹرول روم میں آتی ہیں۔ دن بھر میں چار پانچ کالیں لاوارث لاشوں کے بارے میں ہوتی ہیں۔‘

ایدھی، شناخت پراجیکٹ

کراچی میں ایدھی سینٹر کو ’دن بھر میں چار، پانچ کالیں لاوارث لاشوں کے بارے میں موصول ہوتی ہیں‘

محمد سلمان کے مطابق اطلاع دینے والے اکثر عام شہری ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی پولیس بھی اُن سے رابطہ کرتی ہے۔

’جب پبلک کی کال آتی ہے کہ فلاں جگہ پر ایک لاش پڑی ہے تو جو قریبی ایمبولینس دستیاب ہوتی ہے وہ روانہ کی جاتی ہے۔ اکثر کیسز میں ہماری ایمبولینس پانچ منٹ کے اندر موقع پر پہنچ جاتی ہے۔‘

شناخت پراجیکٹ

سنہ 2015 میں شروع کیا جانے والا شناخت پراجیکٹ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)، سٹیزن پولیس لیزان کمیٹی (سی پی ایل سی) اور فلاحی اداروں ایدھی اور چھیپا کی مشترکہ کاوش ہے۔

اِس منصوبے کے تحت کراچی کی سڑکوں سے ملنے والی لاوارث لاشوں کے فنگر پرنٹس لے کر اُنھیں نادرا کے ڈیٹا بیس سے میچ کیا جاتا ہے۔ اِس طریقہ کار کے تحت ملنے والی معلومات کے ذریعے لاوارث لاش کے ورثا تک پہنچا جاتا ہے۔

ایدھی، شناخت پراجیکٹ

سی پی ایل سی کی 'شناخت' ٹاسک فورس کے سربراہ عامر حسن خان بتاتے ہیں کہ فنگر پرنٹس لینے کے لیے بائیو میڑک مراکز ایدھی اور چھیپا سرد خانوں میں قائم ہیں۔

‘اِن مراکز میں لیا جانے والا ڈیٹا سی پی ایل سی کے ایک سافٹ ویئر کے ذریعے نادرا تک پہنچایا جاتا ہے جو اِس معلومات کو اپنے ڈیٹا بیس میں تلاش کرتے ہیں۔’

عامر حسن خان کے مطابق شناخت پراجیکٹ صرف مُردوں ہی نہیں زِندوں کی بھی مدد کر رہا ہے۔

’ابتدا میں ہم صرف لاوارث لاشوں کی شناخت کر رہے تھے لیکن اب ہم ہسپتالوں میں داخل ایسے مریضوں کے اہلِخانہ کو بھی تلاش کر رہے ہیں جو حادثات کے بعد یا تو اپنی یاداشت کھو بیٹھتے ہیں یا کوما کی حالت میں ہوتے ہیں۔‘

مُردے کے فنگر پرنٹس

بلدیہ ٹاؤن سے ملنے والے ‘لاوارث’ کو ہسپتال میں ضروری کارروائی کے بعد ایدھی سرد خانے پہنچا دیا گیا ہے۔ اب یہاں اُس کے فنگر پرنٹس لیے جا رہے ہیں۔

مُردے کے فنگر پرنٹس

ایدھی رضا کار فاروق بلوچ کے بقول ’مُردہ شخص کے فنگر پرنٹس لینا کوئی آسان کام نہیں‘

یہ کام ایدھی رضا کار فاروق بلوچ کرتے ہیں جو پندرہ سال کی عمر میں ایدھی فاؤنڈیشن آئے اور پھر یہیں کے ہو گئے۔

‘جس باڈی کے فنگر پرنٹ لینے ہوتے ہیں پہلے اُس کی اُنگلیوں کو گرم پانی سے صاف کیا جاتا ہے تاکہ میل نکل جائے۔

’یہ اِس لیے بھی کیا جاتا ہے کیونکہ کچھ لاشیں کئی روز پرانی ہو چکی ہوتی ہے اور سردخانے میں رہنے سے اکڑ بھی جاتی ہیں۔‘

فاروق بلوچ کے بقول مُردہ شخص کے فنگر پرنٹس لینا کوئی آسان کام نہیں۔ ’کچھ باڈیاں ہوتی ہیں جو کافی بُری حالت میں ہوتی ہیں جیسے دھماکے اور ایکسیڈنٹ کی لاشیں۔اُن کی اُنگلیاں اکثر ضائع ہو چکی ہوتی ہیں۔‘

’کچھ برانی لاشوں کی اُنگلیوں کی چمڑی بھی خراب ہونا شروع ہوتی جاتی ہے اور فنگر پرنٹنگ میں مشکل ہوتی ہے اِس لیے ہم بہت احتیاط کرتے ہیں۔‘

سٹرک پر مرنا

’لاوارث‘ کی فنگر پرنٹنگ مکمل ہوئی تو ایدھی رضا کار فاروق بلوچ نے ایک اور پتے کی بات بتائی۔

ایدھی، شناخت پراجیکٹ

نادرا کے ذریعے پتہ اور فون نمبر حاصل کیا جاتا ہے تاکہ اہلِ خانہ سے رابطہ ہوسکے

’موت برحق ہے۔ اِسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ لیکن انسان کا اپنی فیملی میں مرنا اور سٹرک پر مرنے میں بہت فرق ہے۔‘

’اب اِس انسان کی کیا سوچ رہی ہوگی جب اِس پر موت طاری ہوئی۔ کیا پتا اِسے خیال آیا ہو کہ کاش میں اپنی فیملی کے بیچ میں مرتا۔ کوئی مجھے سنبھالنے والا ہوتا۔ میرے اپنے میرے پاس ہوتے۔‘

ورثا پہچان نہیں پاتے

’لاوارث‘ کے فنگر پرنٹس لینے کے بعد اُنھیں اُس کے چہرے کی تصویر کے ساتھ نادرا کو بھیجا جا رہا ہے۔ یہ کام سی پی ایل سی کے ملازمین کرتے ہیں۔ محمد عُزیر بھی ایسے ہی ایک کمپیوٹر آپریٹر ہیں۔

’نادرا ہمیں مرنے والے شخص کے شناختی کارڈ کی تفصیلات اور اُس کا ‘فیملی ٹِری’ یا خاندان کے دیگر افراد کی تفصیلات بھیجتا ہے۔ پھر وہاں موجود ایڈریس اور فون نمبرز حاصل کیے جاتے ہیں جن کے ذریعے اہلِخانہ سے رابطہ ہوتا ہے۔‘

محمد عُزیر کے مطابق شناخت کا یہ عمل چوبیس گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر فنگر پرنٹس ایک سے زیادہ بار بھیجنے پڑیں تو پھر وقت لگتا ہے۔

’اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ جب ورثا یہاں پہنچ کر لاش کی حالت دیکھتے ہیں تو پہچان نہیں پاتے اور کہتے ہیں کہ یہ اُن کے پیارے کی لاش نہیں ہو سکتی۔‘

ایدھی ایمبولینس

رضاکاروں کے مطابق بعض اوقات ورثا لاش کو دیکھ کر اسے پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں

’پھر ہم اُن کو شناختی کارڈ کی تفصیلات دِکھاتے ہیں۔ تب کہیں جا کے اُنھیں تسلی ہوتی ہے۔‘

دیوارِ شناخت

ایدھی فاؤنڈیشن کے سہراب گوٹھ پر واقع سرد خانے کی بیرونی دیوار تلاشِ گمشدہ کے بے شمار پوسٹروں سے اَٹی پڑی ہے۔ ہر پوسٹر ایک الگ کہانی سُناتا ہے۔

کسی کا بھائی، کسی کی ماں اور کسی کا بیٹا نہیں مل رہا۔ کوئی گھر سے نکلا تو پلٹ کر نہیں آیا اور کسی روٹھے کے گھر والے التجا کر رہے ہیں کہ ’واپس آ جاؤ، کچھ نہیں کہیں گے۔‘

یہاں بے شمار لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے آتے ہیں۔ کوئی اپنے ذہنی بیمار بھائی کو تلاش کر رہا ہے تو کوئی ضعیف العمر دادا کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔

اِنہی میں سے ایک فدا محمد ہیں جن کے بڑے بھائی لاپتہ ہیں۔

’میرے بھائی کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے۔ ایک مہینے پہلے وہ گھر سے سیر کرنے کے لیے نکلا تھا۔ ہم نے اپنے رشتہ داروں وغیرہ میں اُس کی معلومات حاصل کی۔ جہاں جہاں ہمیں شک ہوتا تھا وہاں ہم نے معلوم کیا۔ لیکن نہیں ملا۔‘

’یہاں سردخانے میں بھی دیکھا ہے کہ کہیں ایسی بات تو نہیں ہے لیکن یہاں نہیں ہے۔‘

پچاس سالہ وقار احمد کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں۔

’میرے چھوٹے بھائی پہلے بھی کئی بار گم ہو چکے ہیں لیکن ہر بار ہفتے، دس دن میں مل جاتے تھے۔ اِس بار تقریباً 30، 35 دن ہو گئے ہیں اُن کا کچھ نہیں پتا۔ میں نے اپنے علاقے میں ڈھونڈا ہے تھانوں میں بھی مطلع کیا ہے۔‘

بے نام موت

ایدھی، شناخت پراجیکٹ

لاوارث لاش، جس کا نام معلوم نہیں، اسے ایک نمبر دیا جاتا ہے

’لاوارث‘ کے فنگر پرنٹس تین بار نادرا کو بھیجے جانے کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ نہیں آ سکا۔ بظاہر اُس کے ورثا تک پہنچنا اب ناممکن نظر آ رہا ہے۔

شناخت پراجیکٹ میں تیس سے پینتیس فیصد ناکامی کا تناسب بھی ہے۔ سی پی ایل سی کے عامر حسن خان کے مطابق اِس کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں۔

’اکثر ہمیں کئی کئی دن پرانی لاشیں ملتی ہیں جن کی اُنگلیاں اِس قابل نہیں ہوتیں کہ اُن کے فنگر پرنٹس لیے جا سکیں۔ پھر ساٹھ سال سے زائد عمر کے کچھ افراد کے فنگر پرنٹس ماند پڑ چکے ہوتے ہیں جو ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘

عامر حسن خان کہتے ہیں کہ چونکہ پاکستان میں کئی لوگوں کے پاس کوئی شناختی دستاویز نہیں ہوتی لہذا اُن کا کام مزید مشکل ہو جاتا ہے۔

’ہمارے ملک میں اب بھی بے شمار افراد خاص طور پر دیہات میں رہنے والی خواتین کے پاس شاختی کارڈ نہیں ہیں۔ اِس کے علاوہ کچھ لاوارث لاشیں اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کی بھی ہوتی ہیں جن کے شناختی کارڈ نہیں بنے ہوتے۔‘

جنھیں شناخت ملی

لیکن دوسری جانب شناخت پراجیکٹ کی کامیابیاں ناکامیوں سے کہیں بڑی ہیں۔

منصوبے کے آغاز سے اب تک چار ہزار سے زائد لاوارث میتوں کے انگلیوں کے نشان لیے گئے ہیں جن کے ذریعے تقریباً تین ہزار لاشوں کی شاخت ممکن ہوئی۔

عامر حسن خان کے مطابق یہ بات یاد رکھنی انتہائی ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی شناختی دستاویز ناصرف بنوائے بلکہ اُسے ہر وقت ساتھ رکھے۔

’اکثر ٹریفک حادثات کے بعد متاثرہ شخص کی ذاتی اشیا نہیں مل پاتیں۔ اِس لیے ضروری ہے کہ بٹوے کے علاوہ جیب میں بھی کوئی شناختی دستاویز، اُس کی فوٹو کاپی یا کم از کم کاغذ پر لکھا رابطے کا نام اور فون نمبر ضرور موجود ہو۔‘

’اِس کے علاوہ اہلِخانہ کو چاہیے کہ جب بزرگ گھر سے باہر نکلیں تو اُن کی جیب یا کلائی پر شناخت اور رابطے کی معلومات لکھ کر ضرور لگائیں۔‘

ثواب کا کام

کئی ہفتے ایدھی سرد خانے میں گزارنے کے بعد اب ’لاوارث‘ کی لاش کی ذمہ داری ایدھی فاؤنڈیشن نے سنبھال لی ہے۔ ’لاوارث‘ اور اِس جیسی دیگر نامعلوم میتوں کی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا جا رہا ہے۔

محمد صدیق غسال ہیں اور سنہ 2001 سے یہ کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کچھ ثواب اور کچھ تنخواہ کی خاطر وہ مُردوں کو نہلاتے ہیں۔

’بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ ہر انسان کو زندگی میں پانچ سات مُردوں کو غسل ضرور دینا چاہیے۔ یہ ثواب کا کام ہوتا ہے۔ تو اِس لیے مجھے شوق تھا۔‘

آج محمد صدیق یا صدیق ماما بلدیہ ٹاؤن سے ملنے والے ‘لاوارث’ کو غسل دے کر قبرستان بھیجنے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔

’ہم سوچتے ہیں کہ اِن کا کوئی بھی نہیں ہے تو پھر ہم ہی اِن کا خیال رکھتے ہیں۔ ہم اِن کے بیوی بچوں کا بہن بھائیوں کا سوچتے ہیں۔ اُن بے چاروں کا کیا حال ہو گا۔ پر اللہ وارث ہوتا ہے، بابا سب کا۔‘

محمد صدیق بتاتے ہیں کہ وہ روز موت کو دیکھتے ہیں اِس لیے اب اُنھیں موت سے خوف نہیں آتا۔

’ایسی ایسی خراب باڈیاں آتی ہیں۔ کیڑے پڑی ہوئی، ٹکڑے والی۔ ہم ہر طرح کی باڈیوں کو غسل دیتے ہیں اور لپیٹ دیتے ہیں۔ ہمارے کو کوئی بدبو خوشبو نہیں آتی۔‘

غسل، لاث، مردہ، دفن

صدیق ماما بلدیہ ٹاؤن سے ملنے والے ‘لاوارث’ کو غسل دے کر قبرستان بھیجنے کے لیے تیار کر رہے ہیں

قبر کا ڈر

غسل اور کفن پہنانے کے بعد ’لاوارث‘ کی میت ایدھی فاؤنڈیشن کے لاوارثوں کے قبرستان لائی گئی ہے۔ یہاں 79 ہزار سے زائد لاشیں دفن ہیں۔ ‘لاوارث’ کا نمبر نواسی ہزار ایک سو ہے۔

محمد ندیم گذشتہ بیس سال سے یہاں گورکن ہیں۔ اُن سے پہلے اُن کے والد بھی یہاں مُردے دفناتے تھے۔ اُنھوں نے چالیس سال یہ کام کیا۔

’موت سے ڈر نہیں لگتا۔ قبر سے ڈر لگتا ہے کہ ایک دن قبر میں جانا ہے، مرنا ہے۔ ابھی اِن کو دفنا رہا ہوں۔ کل مجھے کوئی دفنا رہا ہو گا۔‘

لاوارث لاش کی تدفین کی تیاری محمد ندیم کئی روز پہلے شروع کر دیتے ہیں۔

’یہ زمین بہت سخت ہے۔ پہلے زمین پر پانی ڈال کر اُس کو نرم کرتے ہیں۔ نرم کر کے پھر قبر کھودتے ہیں۔‘

پہنچی وہیں پہ خاک۔۔۔

’لاوارث‘ کی تدفین اور دعا کرانے کے بعد گورکن محمد ندیم نے بتایا کہ اگر کبھی ورثا اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے ہوئے یہاں آتے ہیں تو اُنھیں بے انتہا خوشی ہوتی ہے۔

’پھر ہم اُن کو قبر دِکھاتے ہیں۔ وہ دعا فاتحہ پڑھتے ہیں۔ کچھ لوگ قبر پکّی کرواتے ہیں نشانی کے لیے۔ وہ بولتے ہیں کہ اگر قبر نہیں بنوائیں گے تو قبر مٹ جائے گا۔‘

لیکن محمد ندیم اِس بات پر افسردہ ہیں کہ ‘لاوارث’ کے ورثا کو اُس کا آخری دیدار نصیب نہیں ہوا۔

’موت تو ہو گی۔ مگر عزت سے ہو وے۔ اپنے گھر پر ہو وے۔ لاوارث نہیں ہو وے۔ میں یہی دعا کرتا ہوں کہ کوئی لاوارث نہ مرے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp