بی بی سی کا نادان یا بے خبر صحافی


حال ہی میں اسی ہفتے بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک کے میزبان اینکر اسٹیفن سیکر نے پاکستان کے سیاسی پارٹی کے رکن اسحاق ڈار جو وفاقی وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں اس کا انٹرویو نشر کیا۔

ویسے تو انٹرویو ایک سے پچیس منٹ کے دورانیے کے درمیان تھا مگر مگر اس انٹرویو کی خاص بات بی بی سی کے ہارڈ ٹاک کے میزبان اسٹیفن سیکر کے وہ تین سوالات تھے جو پاکستانی عوام اور میڈیا میں دوسرے دن سے ہی زیر بجٹ آئے اور ابھی تک زیر بحث ہیں۔

سب سے پہلا سوال اسحاق ڈار سے تھا کہ آپ تو پاکستان کے نیب اور عدالتوں کے فیصلے کے روشنی میں ایک مفرور اشتہاری ملزم ہیں۔ دوسرا یہ کہ آپ پہ کرپشن کے الزام ہیں آپ پاکستان واپس کیوں نہیں جاتے اور تیسرا سوال تھا کہ آپ ایک کی پارٹی ایک فوجی جنرل کی پیداوار ہے۔

ویسے دیکھے جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نیب اور پاکستانی عدالتوں کو ماضی میں انھی سیاستدانوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا مگر یہاں پے سوال اور بحث ہم بی بی سی کے صحافی کے سوالوں پر ہی کریں گے۔

نیب یعنی قومی احتساب بیورو پاکستان اور پاکستان کی عدالتوں کے متعلق، سابقہ جج اور نیب کے ادارے کے بہت سے سابقہ افسران تک کہہ چکے ہیں کہ ان سب کو ماضی میں سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج بھی پاکستان میں بیشتر صحافی حضرات بشمول بی بی سی ہی کے کچھ نامور مصنف اور سول سوسائٹی کے لوگ اور انسانی حقوق کے حوالے سے جو لوگ وابستہ ہیں سب کا ابھی تک یہ خیال ہے کہ پاکستان میں عدلیہ، نیب اور دوسروں اداروں کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ بی نہیں بلکہ پاکستان کے سابقہ ادوار کے بیشتر وزیر اعظم، سیاسی پارٹی کے نمائندگان اور سابقہ صدر مملکت تک یہ بیان دے چکے ہیں کہ پاکستان میں نیب، عدلیہ بشمول دوسرے اداروں کو حزب اختلاف اور مخالف پاکستانی سیاسی پارٹی کے لیڈران اور دوسرے لوگوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے اور جو بدقسمتی سے آج بھی روزانہ کے بنیاد پے جاری ہے۔

پاکستان سے باہر بھی انسانی حقوق کے بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں نے بھی یہ بات تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کے ادارے نیب، پاکستانی عدالتوں بشمول انسداد دہشتگردی کے عدالتوں میں بھی سیاسی بنیادوں پے کیس بنائے جاتے ہیں اور ان سب کو سیاسی اور پاکستان مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے انٹرپول جو ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جو دنیا بھر میں پولیس تعاون اور جرائم پر قابو پانے میں سہولت فراہم کرتی ہے اس بین الاقوامی تنظیم نے بھی پاکستان کے اداروں بشمول نیب، عدالتوں کے فیصلوں کو یہ کہہ کر مسترد کیا کہ حکومت پاکستان نے جن شخصیات کی انٹرپول سے حوالگی کا مطالبہ کیا تھا وہ سب کے سب یہ کہہ کے مسترد کئیے کہ تمام کیسز سیاسی ہیں انٹر پول نے جن اشخاص کے کیسز کو حال ہی مسترد کیا تھا ان میں پاکستان کے امریکہ میں سابقہ سفیر حسین حقانی، اکبر بگٹی کے پوتے برہمداغ بگٹی اور مہاجر قومی مومنٹ کے قائد الطاف حسین کے خلاف کیسز تھے۔

اب یہاں پے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انٹرپول، پاکستان میں اور پاکستان کے باہر انسانی حقوق پے کام کرنے والے افراد اور ادارے اس پاکستانی بیانیے جو نیب اور پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں کے روشنی میں بنائے گئے تھے رد کرچکے ہیں اور بی بی سی پاکستان کے بیشتر صحافی اور مصنف اپنے درجن بر کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ کس طرح پاکستان کے ادارے سیاسی مخالفین کے خلاف ہوتے ہیں۔

انتہائی تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ بی بی سی جیسے ایک بڑے ادارے کے ایک صحافی نے کس طرح ان اداروں نیب اور پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں کو جواز بنا کے اسحاق ڈار کو ایک مطلوب شخص کا لقب دیا اور دوسرے باتیں کر ڈالیں۔ اس سے تو دو ہی باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں یا تو بی بی سی اینکر اسٹیفن سیکر واقعی اس امر سے ناواقف ہیں کہ پاکستان کے اداروں میں سیاسی لوگوں پے کرپشن کے کیسز کیسے بنتے ہیں یا پھر پاکستان کے حوالے سے معلومات کے حوالے سے ایک بے خبر صحافی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).