جرمن اور گوریلے


جانوروں کی پرجاتیوں سے انسانی گروہوں کو ممتاز کرنا ایک دقیق عمل ہے۔ پرجاتیاں اکثر تقسیم ہوجاتی ہیں، لیکن وہ کبھی بھی ضم نہیں ہوتیں۔ لگ بھگ سات لاکھ سال پہلے چمپینزی اور گوریلوں کے مشترکہ اجداد تھے۔ یہ واحد نسلی نوع دو آبادیوں میں تقسیم ہو گئی جو آخر کار ان کے الگ الگ ارتقائی راستوں پر چل پڑی۔ ایک بار جب یہ ہو گیا تو پھر واپس جانے کی کوئی بات نہیں تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مختلف پرجاتیوں سے تعلق رکھنے والے افراد آپسی میلاپ سے زرخیز اولاد پیدا نہیں کر سکتے ہیں، لہذا انواع کبھی بھی ضم نہیں ہو سکتی۔ گوریلے چمپینزیوں کے ساتھ ضم نہیں ہوسکتے ہیں، زیبرے ہاتھیوں کے ساتھ نہیں مل سکتے ہیں اور کتے بلیوں کے ساتھ نہیں مل سکتے ہیں۔

اس کے برعکس، انسانی قبائل وقت کے ساتھ ساتھ باہمی اشتراک سے بڑے بڑے گروہوں بناتے ہیں۔ جدید جرمن سیکسن، پرسیائیوں، سوابیوں اور باوریائیوں کے انضمام سے پیدا ہوئے تھے۔ اوٹو وان بسمارک نے مبینہ طور پر ریمارکس دیے (جس نے ڈارون کی کتاب پڑھ رکھی تھی ) کہ باویرین لوگ آسٹریا اور انسان کے مابین گمشدہ ربط کی ایک کڑی ہیں۔ فرانسیسی ’فرانکس، نارمنز، بریٹنز، گیسکنز اور پروونیلز‘ کے انضمام سے پیدا ہوئے ہیں۔ دریں اثنا اس پورے چینل میں، انگریزی، اسکاٹس، ویلش اور آئرش کا آہستہ آہستہ (اپنی مرضی سے یا اپنی مرضی کے بغیر ) ملاپ ہوا، جس کے نتیجے میں برٹش افراد کا جنم ہوا۔ مستقبل میں زیادہ دور کی بات نہیں ہے کہ جرمن، فرانسیسی اور برطانوی یورپی باشندوں میں ضم ہوجائیں گے۔

یہ ملاپ ہمیشہ قائم نہیں رہتا ہے اور اس حقیقت سے ان دنوں لندن، ایڈنبرا اور برسلز کے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ دس ہزار سال قبل انسانیت ان گنت اور بالکل الگ تھلگ قبائل میں منقسم تھی۔ ہر گزرتے ہزار سال کے ساتھ یہ بڑے بڑے گروہوں میں شامل ہو گئے، جس نے کم سے کم نمایاں تہذیبوں کو جنم دیا۔ حالیہ نسلوں میں باقی ماندہ تہذیبیں ایک واحد عالمی تہذیب میں ڈھل رہی ہیں۔ سیاسی، نسلی، ثقافتی اور معاشی تفریق برقرار ہے، لیکن وہ بنیادی اتحاد کو مجروح نہیں کرتی ہیں۔

درحقیقت، تقسیم کی کچھ اقسام صرف ایک عمومی ڈھانچے کے ذریعہ ممکن ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر معیشت میں مزدوری کی تقسیم اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی ہے، جب تک کہ سب ایک ہی مارکیٹ میں حصہ نہ لیں۔ ایک ملک کاروں یا تیل کی تیاری میں اس وقت تک مہارت حاصل نہیں کر سکتا ہے، جب تک کہ وہ ان ممالک سے کھانا خریدنے کے قابل نہیں ہوجاتا، جو گندم اور چاول اگاتے ہیں۔

انسانی اتحاد کے عمل نے دو الگ الگ شکلیں اختیار کرلی ہیں : مختلف گروہوں کے مابین روابط قائم کرنا اور گروپوں میں ہم آہنگی کے طریقوں کو قائم کرنا۔ روابط ان گروہوں کے درمیان بھی بن سکتے ہیں جو بہت مختلف سلوک کرتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ شدید دشمنوں کے مابین بھی رابطے بن سکتے ہیں۔ جنگ بذات خود تمام انسانوں کے درمیان مضبوط ترین اتحاد قائم کر سکتی ہے۔ مورخین اکثر یہ استدلال کرتے ہیں کہ سب سے پہلے عالمگیریت 1913 میں عروج کو پہنچی، پھر عالمی جنگوں اور سرد جنگ کے دور میں ایک لمبے عرصے کے لیے زوال پذیر ہو گئی اور پھر صرف 1989 کے بعد بحال ہوئی۔

یہ بات معاشی عالمگیریت کے بارے میں سچ ہو سکتی ہے، لیکن یہ امر انتہائی مختلف لیکن اہم فوجی عالمگیریت کے عنصر کو نظرانداز کرتا ہے۔ جنگ نظریات، ٹیکنالوجی اور لوگوں کو تجارت کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیلاتی ہے۔ 1918 کے مقابلے میں 1913 میں ریاستہائے متحدہ کا یورپ سے زیادہ قریب سے تعلق تھا۔ اس کے بعد دونوں آپسی جنگوں کی وجہ سے الگ الگ ہو گئے، لیکن پھر دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ کے نتیجے میں یہ دونوں پھر اکٹھے ہو گئے۔

جنگ لوگوں کی ایک دوسرے کے بارے میں دلچسپی کو بڑھا دیتی ہے۔ سرد جنگ کے علاوہ کبھی بھی روس کے ساتھ امریکہ کا زیادہ قریب سے رابطہ نہیں رہا تھا، لیکن سرد جنگ کے دوران جب ماسکو راہداری میں کوئی کھانستا بھی تھا تو اس سے واشنگٹن میں موجود لوگوں میں اتھل پتھل ہوجاتی تھی۔ لوگ اپنے تجارتی شراکت داروں سے کہیں زیادہ اپنے دشمنوں کی پرواہ کرتے ہیں۔

اس سیریز کے دیگر حصےآن لائن اور آف لائن کا تقابلعالمی مسائل کے عالمی جواب درکار ہیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).