چائے اور میں مترادف ہی رہے


کیسی بھی شے کے جب آپ عادی ہوجائیں تو سمجھیں آپ نے اپنی زندگی اس کی مرہون منت کر دی۔ اپنا آپ اس کے حوالے کر دیا۔ ”نہیں رہ سکتی تیرے بنا“ ، ”نہ، ناممکن“ ۔ اور جب آپ لفظ ”ناممکن“ استعمال کر لیتے ہیں تو گویا آپ نے اپنے ہاتھ پاؤں چھوڑ دیے، تنکے کے سہارے کی بھی آرزو نہ رہی۔ کبھی بہ حیلۂ ”فریش“ تو کبھی بہانہ ”ریلیکس“ ۔

کچھ ایسا ہی حال میرا ہے ”چائے“ کے بنا۔ میری صبح تو ہو ہی نہیں سکتی چائے کے بغیر۔ شام اور چائے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔ محفل رنگ پہ آہی نہیں سکتی جب تک چائے کی پیالیاں باہم نہ ٹکرائیں۔ چائے کی مدہوش کردینے والی گرم گرم بھاپ سے اٹھتی خوشبو۔ ”ہائے اللہ کوئی اس مدھر خوشبو کا پرفیوم بنانے کا کیوں نہیں سوچتا“ ۔ یعنی کہ پی بھی گئے چھلکا بھی گئے والی کیفیت ہو جائے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ چائے بناتے تکان محسوس نہیں ہوتی بلکہ ”فضا میں خوش بو کے رنگ جاگے“ سا احساس ہوتا ہے۔ اور اگر آپ دو پیالی بنا رہے ہوں، یعنی کہ ”ساتھ، گپیں اور چائے“ تو بس ہائے۔

سچ پوچھیں تو صبح کی چائے کا اپنا مزہ ”ٹوٹتا خمار سا“ ، شام کی چائے کی بات ہی کیا ”بے تکان زیست کی گردش“ ۔ اور رات میں دو پیالی تو ”چڑھتا خمار سا“ ۔ اور اگر پیالی ایک ہی ہے تو چائے کی اٹھتی بھاپ میں ”یاد اور آنسو بھری مسکراہٹ“ ۔

کہتے ہیں چائے ایک نشہ ہے۔ چلیے جناب مان لیتے ہیں لیکن یہ ایک بہت ہلکا میٹھا سا نشہ ہے جس کو پی کر نہ آپ وجد میں دھمال ڈالنے لگتے ہیں نا ہی بے خودی اور سر مستی میں کمال۔ تو پھر اس کا پینے میں مضائقہ کیوں؟ بلکہ یہ تو تموج پیدا کیے بنا پیٹ کے بجائے دل میں اتر جاتی ہے، خون میں سرایت کر جاتی ہے اور سانسیں تک معطر کر دیتی ہے۔ کسلمندی، بوریت، تکان کا فسوں ٹوٹ جاتا ہے، کومل کومل، نرمل نرمل، مدھر، مدھر سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ زندہ رہنے کا حوصلہ سا جیسے ”گلوں میں رنگوں کا نور اترے“ ۔

کچھ واعظ ( جو خود کو دانا سمجھے ہیں ) سمجھانے چلے آتے ہیں کہ ”چائے آب حیات نہیں شراب سی شے ہے کیونکہ اس میں موجود ہے“ کیفین ”اور وہ بھی ایک کپ چائے میں 26 ملی گرام کیفین۔ یعنی کہ بس اففف۔

اس چاء کی ہم کو چاہ نہیں
اس چاء کو چاہ میں ڈال دو۔ ”
”ارے بھئی ہوگا کیفین اور نہیں ہوگی چاہ آپ کو اور چھوڑنا عقلمندی بھی ہوگی لیکن۔
چہ لازم با خرد ہم خانہ بودن
دو روزے می تواں دیوانہ بودن

(کیا ضروری ہے کہ ہر وقت عقل کے ساتھ ہی رہا جائے (عقل کی بات ہی سنی جائے ) ، دو روز دیوانہ بن کر بھی رہنا چاہیے ) ۔ اور زیست تو دو روزہ ہی ٹھہری۔

واعظ! میں کوئی چور ہوں جو تجھ سے دبوں گا؟
منہ توڑ کے رکھ دوں گا اگر تلخ ہوا تو! ”

اس دھڑلے سے ذرا ناصح خاموش تو ہوئے لیکن ہائے ری قسمت اگر اولاد بن بیٹھے واعظ و ناصح تو منہ توڑنے کی دھمکی بھی بے کار۔

رومانویت صرف مرد و عورت کے مابین کشش نہیں، عشق چائے سے بھی ہو سکتا ہے۔ اور ہو سکتا کیا میں ہوں نا گرفتار۔ عشق کا ”ع“ ہوں، محبت کا ”م“ پیار کا ”پ“ ۔ کب اور کس طرح عشق میں گرفتار ہوئی نہیں یاد بقول مستنصر حسین تارڑ ”محبت تو۔ پتوں کی سائیں سائیں کی طرح ہوتی ہے نہ دکھائی دیتی ہے نہ پکڑ میں آتی ہے بس اپنے حصار میں لے لیتی ہے“ ۔ تو قصہ مختصر میں اور چائے عاشق معشوق اور بیٹی صاحبہ بنیں رقیب۔

سچ کہوں تو چائے کا ایک مزہ ہے بستر پہ مزے سے لیٹے ہوں اور کوئی چائے بنا کے لادے۔ صد افسوس۔ عورت ہوتے ہوئے اس خواہش کا پورا ہونا تو ایک طرف یہ خواہش ہی ایسی

جیسے کوئی گناہ کیے جا رہی ہوں میں۔
سوچا تھا بیٹی کچن میں ہاتھ ڈالے گی تو یہ مزہ لوں گی۔ مگر۔
٭مما اتنی گرمی اور چائے؟
بیٹی! چائے گرمی میں ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔
٭سردی کا یہ مطلب تو نہیں چار پانچ کپ چائے پی جائے؟
بیٹی! چار پانچ تو کم ہیں۔
٭ مما ابھی تو پی تھی
طلب حد سے سوا ہے۔
٭مما آپ ایڈکٹڈ ہیں
اچھا؟ تو پھر؟
٭بس دو وقت کی چائے کافی ہے۔ مزید بالکل نہیں۔
یعنی کہ اب چائے مجھے راشن میں ملتی ہے۔ اللہ اللہ۔ مجھے اپنے ضبط پہ ناز ہے۔

زندگی گزرتی جا رہی ہے۔ چائے اور میرا ساتھ نبھتا جا رہا ہے کمال ضبط کو خود بھی آزما رہی ہوں اور رقیب سے چھپ چھپ کہ پیئے جا رہی ہوں۔

اب مزید چائے کی تعریف کی کروں۔
کوتہ کنم حدیث، بہ خوبی قیامتی! (قصہ کوتاہ کہ تم خوبی میں قیامت ہو! )
زندگی کے اس مقام پہ مختصر ترین ایک خواہش۔ شام، چائے، وہ اور میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).