مقامی حکومتیں اور ہماری حکومتیں


اسلام آباد میں سٹیزن پورٹل کی دو سالہ کارکردگی سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے جہاں پورٹل سروس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے ریاست مدینہ کی جانب بڑا قدم قرار دیا وہاں انھوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ سٹیزن پورٹل میں یہ بات سامنے آئی ہو ہمارا بلدیاتی نظام ٹھیک کام نہیں کر رہا میونسپل کمیٹی سے متعلق زیادہ شکایات سے واضح ہوتا ہے بلدیاتی نظام درست نہیں۔ انھوں نے کہا ہم ملک میں نیا بلدیاتی نظام لا رہے ہیں جس سے ملک میں انقلاب آئے گا اس نظام سے اختیارات اور فنڈز نچلی سطح پر منتقل ہوں گے ضلعی حکومتیں صوبائی حکومتوں کی طرح خود مختار ہوں گی عوام کے اختیارات میں اضافہ ہوگا لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر حل ہوں گے۔

ایک کروڑ نوکریوں پچاس لاکھ گھروں سرائیکی صوبہ نیا پاکستان اور تبدیلی کے تمام تر دعووں اور وعدوں میں مایوس کن کارکردگی کے باوجود بلدیاتی نظام کی افادیت اور ضرورت سے متعلق وزیر اعظم کی بات سن کر خوشی ہوئی کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کسی بھی جمہوریت کی مضبوطی، وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی، مسائل کے حل اور عام لوگوں کی حکومت تک رسائی کے لیے مقامی حکومتوں کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔

عام لوگوں کی اپنے مسائل کے حل کے لیے حکومت تک باآسانی رسائی کی وجہ سے ہی لوگوں کا جمہوریت اور جمہوری حکومتوں پر اعتماد بڑھتا ہے ہمارے ہاں جمہوریت پر عدم اعتماد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری حکومتیں عام طور پر مقامی حکومتوں سے ایک انجانے خوف میں مبتلا رہتی ہیں ان کی زیادہ سے زیادہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عام لوگوں کو با اختیار بنانے کے بجائے اپنی جماعت کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو فنڈز دے کر ان کے ذریعے مقامی ترقیاتی کام کرائیں اور لوگوں کو اپنے ممبران کا محتاج رکھا جائے تاکہ آئندہ قومی الیکشن میں ان کے نمائندے زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کر سکیں یہی وجہ ہے اول تو ہماری جمہوری حکومتیں مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے سے گریز کرتی ہیں اور اگر کرانے بھی پڑ جائیں جس طرح آخری بار 2015 میں سپریم کورٹ کے سخت احکامات کے بعد پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے مگر حکومت نے مقامی حکومتوں کے اختیارات محدود کر دیے عام طور پر یہی کلیہ استعمال کر کے بلدیاتی نمائندوں کو عضو معطل بنا کر سرکاری مشینری کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے ہاں نا تو مقامی حکومتیں مضبوط ہو سکیں اور نا ہے ملک میں حقیقی جمہوریت پروان چڑھ سکی۔

مقامی حکومتوں کے انتخابات کے حوالے سے ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے آمرانہ ادوار میں بلدیاتی اداروں کو زیادہ اہمیت دی جاتی رہی ہے اس کی بنیادی وجہ تو یہی ہے کہ اس وقت ملک میں اسمبلیاں موجود نہیں ہوتیں تو اس لیے وہ مقامی حکومتوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سرکاری چین میں شامل کر کے اپنا سسٹم چلانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اس کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ آمرانہ ادوار کی طوالت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عام لوگوں کی حکومت تک رسائی اور وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی کی وجہ سے کسی بھی آمر کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

اس تمام صورتحال کے باوجود ہم جنرل مشرف کے مقامی حکومتوں کے نظام کو نظر انداز نہیں کر سکتے جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بھر پور اختیارات کے ساتھ مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے اختیارات اور وسائل کو عملی طور پر نچلی سطح پر منتقل کر کے عام لوگوں کو با اختیار بنایا اور ہر طبقے کو اس میں نمائندگی دی گئی یہی وجہ ہے اس وقت بہت سے ایم پی ایز اور ایم این ایز کے امیدواروں نے ضلع ناظم اور تحصیل ناظم بننے کے لیے دن رات ایک کر دیا اس نظام کے تحت دو بار مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوئے اور دونوں بار بھر پور کامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں لوگوں خاطر خواہ ترقیاتی کام بھی ہوئے اور عام لوگوں کے لیے آسانیاں بھی پیدا ہوئیں مگر اس کے بعد طویل عرصہ تک بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے تاہم 2015 میں سپریم کورٹ کے سخت احکامات کے بعد مسلم لیگ نون کی حکومت نے بلدیاتی انتخابات تو کرائے مگر پرانا سسٹم بحال کر دیا اور بلدیاتی اداروں کے اختیارات محدود کر دیے۔

2018 میں پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو دیگر بہت سے وعدوں کے ساتھ مقامی حکومتوں کے انتخابات، نیا بلدیاتی نظام اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی بھی اس کے منشور میں شامل تھی اس حوالے سے حسب روایت بر وقت اقدامات تو نہیں اٹھائے گئے تاہم گزشتہ سال پنجاب میں لوکل باڈیز ترمیمی بل 2019 منظور کیا گیا جس کے تحت صوبہ بھر ویلج کونسل، محلہ کونسل میونسپل کارپوریشن اور بڑے شہروں میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن قائم کی جانی تھیں تاہم حلقہ بندیوں میں تاخیر، انتخابات میں حکومت کی عدم دلچسپی اور پھر کورونا وبا کی وجہ سے نئے بلدیاتی نظام کے تحت مقامی حکومتوں کے انتخابات تاخیر کا شکار ہو گئے۔

اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ درپیش کورونا وبا کے دوران اگر مقامی حکومتیں موجود ہوتیں تو ٹائیگر فورس یا کسی فورس کی ضرورت نہ رہتی بلکہ ایس او پیز پر عمل درآمد، لوگوں میں شعور اور آگہی مہم اور امداد کی فراہمی کے لیے مقامی حکومتوں سے بہتر انداز میں کام لیا جاسکتا تھا بہر حال اب وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر مقامی حکومتوں کے نئے نظام کو انقلابی تبدیلی قرار دیا ہے ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کورونا وبا سے نمٹنے کے بعد تحریک انصاف اپنی وعدہ خلافی اور جمہوری حکومتوں کی مقامی حکومتوں کے انتخابات سے فرار کی روایت توڑتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد اور اختیارات کو نچلی سطح پر منتقلی کو یقینی بنائے گی تاکہ ملک میں حقیقی جمہوریت پروان چڑھ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).