کرونا کی وبا اور ہمارے اردگرد کی دنیا میں آنے والی تبدیلیاں


ہم نے مئی میں ”کرونا کے بعد کی دنیا۔ چند ممکنات“ کے تحت کچھ خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اب جبکہ اس وبا کو ایک سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہے اور اس وقت ہم اس کی دوسری لہر میں سے گزر رہے ہیں اور اس دوران آنے والی تبدیلیاں ایک واضح شکل اختیار کرتی نظر آ رہی ہیں تو سوچا اس بارے میں کچھ لکھا جائے سو یہ کالم حاضر ہے۔ اگرچہ ماضی کی عالمی وباؤں مثلاً چودھویں صدی کی طاعون ہو یا بیسویں صدی کی سپینش انفلوئنزا نے انسانی صحت اور زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے اور بڑی تعداد میں انسان لقمہ اجل بن گئے، موجودہ وبا نے اس تناسب سے موت کا شکار نہیں کیا لیکن اس کے اثرات دیرپا ہوں گے۔

اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ اس وبا نے اپنی راہ میں آنے والے انسانوں میں مذہب، رنگ، نسل کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سوسائٹی پر اس کے اثرات میں پہلے سے کمزور طبقے زیادہ متاثر ہوئے۔ بین الاقوامی سطح پر نافذ لاک ڈاؤن اور اس کے نتیجے میں شہری اور اقتصادی سرگرمیوں میں ہونے والے تعطل نے واضح کر دیا کہ موجودہ ترقی یافتہ اقوام کی بنیادیں اتنی مضبوط اور مربوط نہیں جتنا نظر آتی ہیں بالخصوص بین الاقوامی تجارت میں عالمی سطح پر مربوط مینو فیکچرنگ اور مال کی مسلسل سپلائی لائن کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں رائج قومی نظام صحت بل مقابلہ انشورنس پر مبنی نظام صحت۔ ہم انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں آنے والی تبدیلیوں کو زیر بحث لائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وبا کے دوران لگنے والے لاک ڈاؤن نے انفرادی سطح پر سب کو متاثر کیا چاہے اس نے تنہا کر دیا یا اضطراب میں ڈال دیا، یا گھر میں باقی افراد خانہ کے ساتھ رہنے کی بنا پر چڑچڑا کر دیا ہو اور اس کے نتیجے میں ہم سب کو اپنے اندر تبدیلیاں لانی پڑیں چاہے وہ چھوٹی ہوں یا بڑی۔ اگرچہ ہم جسمانی طور پر ایک دوسرے سے نہ مل سکتے تھے مگر انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی بدولت ہمیں ایک دوسرے تک رسائی حاصل ہو گئی۔

باہر کی دنیا میں رسائی محدود ہونے اور اس طرح اپنے آپ کے لئے زیادہ وقت ہونے نے لوگوں میں موجود اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے وسائل کا رجحان بڑھا دیا۔ اس کا اظہار مختلف انداز میں ہونا شروع ہو گیا ہے، ہمارے ہاں بالخصوص شہروں میں، جہاں باہر کھانے کا رواج بہت زیادہ ہو گیا تھا اب گھر پر کھانے بنانے پر زیادہ وقت صرف ہو رہا ہے۔ ہم میں سے بڑی تعداد، اپنے طور پر ، نے کچھ نہ کچھ ایسا ڈھونڈ لیا ہے جو کہ اس سے پہلے تیز رفتار زندگی میں گم ہو چکی تھی۔

آج پہلی قسط میں ہم انسانی صحت کے حوالے سے اس وبا کے مثبت اور نفی پہلووں پر نظر ڈالیں گے۔ جہاں ایک طرف اس کے منفی پہلو ہیں لیکن پچھلے ایک سال میں طبعی شعبے میں اس بیماری پر ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں آج ڈاکٹر اس میں مبتلا افراد کے علاج میں زیادہ پر اعتماد ہیں لیکن اصل خطرہ ایک بڑی تعداد میں لوگوں کے بیک وقت بیمار ہونے کے نتیجے میں نظام صحت کے مفلوج ہونے کا ہے۔ علاوہ ازیں پہلے سے مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد، مثلاً ذیابیطس، بلڈ پریشر، دمہ اور اعضا کی پیوند کاری کے مریض تو بالخصوص اس کا نہ صرف شکار بن سکتے ہیں بلکہ تجربہ بتاتا ہے کہ ان میں مرض کی شدت بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے موت کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

یہ تو ابھی اس کے وقتی اثرات ہیں جبکہ طویل آل مدت اثرات کی جانچ و پڑتال ابھی ہونا باقی ہے۔ جسمانی اثرات کے ساتھ ساتھ ذہنی اور نفسیاتی عوارض اور ان کی شدت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے اور فیصلہ ساز ان کو نظر انداز کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ اسی طرح لاک ڈاؤن میں انسانوں کے باہمی تعلقات بالخصوص افراد خانہ اور ازدواجی تعلقات میں پیچیدگیاں مثلاً گھریلو تشدد میں اضافہ وہ اثرات ہیں جن کے سائے انسانی زندگی پر بہت لمبے ہوں گے۔

لیکن اس منفی پس منظر میں ہمیں یہ بات نہیں بھول چاہے کہ اسی ایک سالہ لاک ڈاؤن کے دوران انسانوں ہی نے اس وبا کو ایک چیلنج سمجھتے ہوئے سائنسی میدان بالخصوص ٹیکنالوجی میں اتنی زیادہ ترقی کی ہے کہ سن 2020 انسانی تاریخ میں ایک سنگ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ مثلاً ایک سال میں اس وائرس کے خلاف ایک نہیں متعدد ویکسینز کی تیاری ایک ایسا امر ہے جو سن 2019 سے پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ ان ویکسینز کی تیاری میں استعمال ٹیکنالوجی صرف یہیں نہیں رکے گی بلکہ ماہرین کے مطابق اس وبا کے نتیجے میں انسانیت سائنسی ترقی میں ایک ایسی چھلانگ لگانے کی صلاحیت پیدا کرتی نظر آ رہی ہے جہاں کینسر اور دوسری بیماریوں مبتلا افراد کے لیے بہت سی خوش خبریاں ان کی منتظر ہیں۔ موجودہ وبا کے دوران تشخیص، علاج، ویکسین کی نہ صرف تیار بلکہ وسیع پیمانے پر جلد تیاری کی صلاحیت اور طبعی شعبے میں ٹیلی مواصلات کے استعمال، تبدیلیوں کی ایک ایک میراث ہے جو آنے والے وقتوں میں بھی کام آئے گی۔

فائزر/بایوٹیک (Pfizer/Biotach) اور ماڈرنہ ( ( Moderna کی تیار کردہ messenger RNA ویکسین میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی تو اس سلسلے میں ایک ایجاد کا درجہ رکھتی ہے۔ اس ویکسین کے ٹیکے میں موجود جنیاتی مواد آر این اے (RNA) دراصل ایک ہدایت نامہ ہے جو انسانی جسم یعنی پٹھوں میں انجیکشن کے ذریعے داخل ہونے کے بعد انسانی خلیوں کو ایسی پروٹین سپائک (protein spikes) بنانے کی ہدایت جاری کرے گا جو کرونا وائرس کی سطح پر موجود ہوتی ہیں، اس کہ نتیجے میں ہمارے جسمانی مدافعاتی نظام ان پروٹین سپائکس کو خطرہ جانتے ہوئے ان کے خلاف مناسب اینٹی باڈیز (antibodies) اور ٹی سیلز (Tcells) کی تیاری شروع کر دے گا۔

یہ عمل ہمارے جسم میں اس بیماری کے خلاف ایک ایسی حفاظتی یادداشت چھوڑ جائے گا جو مستقبل میں کرونا وائرس کے خلاف ہمراہ پہلا حفاظتی بند ہو گا۔ اس ویکسین کی ابتدائی کامیابی سے یہ امید بندہ گئی ہے کہ ایسی RNA ٹیکنالوجی کینسر کے مرض کے علاج یا کم از کم اس کی روک تھام کی حکمت عملی میں استعمال ہو سکتی ہے۔ مثلاً پھیپھڑوں کے کینسر بارے اس ٹیکنالوجی کا استعمال (یہ کالم تفصیل کا متحمل نہیں ) ۔ RNA ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنے اور اس کو بضرورت تبدیل کرنے سے، کم از کم خیالی طور پر تو یہ ممکن ہو چکا ہے، کسی بھی بیماری کے خلاف بشمول مستقبل کی بیماری، ویکسینز کی تیاری کی جا سکتی ہے اور یہ علم بذات خود ایک سنگ میل ہے۔

یاد رہے کہ اصل کام messanger RNA کی تیاری کی ٹیکنالوجی ہے جبکہ اس سے ٹیکہ بنانے کا عمل یعنی تکنیکی/انڈسٹریل عمل ایک ہی رہتا ہے چاہے ویکسین کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ یاد رہے کہ روایتی ویکسین بنانے کا عمل نہ صرف ہر ویکسین کے لیے یکتا بلکہ خاصا طویل تھا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سائنسی عمل ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور یہ کہ ابھی بہت سے اقدامات اٹھانا ہوں گے لیکن سمت متعین ہو چکی ہے اور دنیا بھر میں سائنسدان اور لیبارٹریز اس عمل کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہو چکے ہیں۔

اور ان ویکسینز کو بڑے پیمانے پر بنانے کی کوشش بھی شروع ہو چکی ہیں تاکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں تک اس ویکسین کو پہنچایا جا سکے۔ ہمارے معاشرے اور حکومت کے لیے یہ ایک چیلنج سے کم نہیں، میں یہاں ان ویکسینز کو خریدنے کی مالی استطاعت کی بات نہیں کر رہا ( ہمارے ہاں وسائل کا مسئلہ ٔ بھی ہے ) بلکہ معاشرے میں موجود ان رویوں کی بات کر رہا ہوں جن کی وجہ سے ہمارے ہاں ابھی تک پولیو پر بھی قابو نہیں پایا جا سکا لیکن ان رویوں بارے بات پھر کبھی۔

اگر ہم روایتی ویکسینز کی بات کریں تو آکسفورڈ/اسٹرا زینیکا ( Oxford/AstraZenica) کی ویکسین کی بنیاد وہی ہے لیکن اس میں بھی اصل کامیابی دس سالہ عمل کو ایک سال میں مکمل کرنا ہے۔ یعنی ایک سال میں ویکسین کی دریافت، اس کی تیاری کی سہولیات کا قیام، کلینیکل ٹرائلز کا کامیابی سے انعقاد، ریگولیٹری اتھارٹیز سے تعاون، ویکسین کی ڈسٹربیوشن اور مختلف نظام ہائے صحت سے رابطہ جیسے پیچیدہ عوامل کا کامیابی سے حصول، اس وبا کے دنوں میں انسانی حوصلوں کی وہ کہانی ہے جو آنے والا مورخ تفصیل سے بیان کرے گا۔

ویکسینز کے علاوہ ایک اہم تبدیلی جو آ چکی ہے اور قوی امید ہے کہ اب جاری و ساری رہے گی، آن لائن طبعی مشاورت ہے۔ اس وبا سے پہلے طبعی دنیا میں ان کوششوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور عموماً رویے اس کہ خلاف تھے۔

کرونا کے پھیلاؤ کے کو روکنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک سمیت تقریباً ہر جگہ بیک جنبش تمام طبعی مشاورت یعنی روایتی آؤٹ ڈور کلینک وغیرہ بند کر دیے گے اور ان کو آن لائن کر دیا گیا۔ اس طرح مریضوں اور ڈاکٹروں کے پاس زوم، ایم ایس ٹیم، اور ایسی ہی دوسرے ورچوئل پلیٹ فارم استعمال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا اور سوائے کمپلیکس امراض کے روٹین کلینک بند پڑے ہیں۔ اس پریکٹس کے ابھی ابتدائی دن ہیں اور اس کے اثرات بارے تفصیلی جائزے بھی شروع ہو چکے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ماڈرن میڈیسن میں مختلف شعبہ جات کی اپنی اپنی ضروریات ہیں اور یہ کہ ڈاکٹر کے سامنے مریض کی جسمانی طور پر موجودگی کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس وبا سے پہلے والے دن بعینہ واپس آ جائیں گی، تو اس کو یہ خوش فہمی ختم کر لینا چاہیے۔ اس سلسلے میں اصل سوال جس پر اب توجہ دی جائے گی، وہ یہ ہو گا کہ اس آن لائن مشاورت کو کیسے بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور ایسے معیار بنانے ہوں گے جو انسانی غلطی کی فوراً نشاندہی کر سکیں۔ اس سلسلے میں مریضوں کے انفرادی ریکارڈ اور اس کی رازداری کو یقینی بنانے کے سلسلے میں جہاں حکومتی سطح پر مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے وہیں ٹیکنالوجی کی ترقی میں شامل افراد اور کمپنیوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کہ تیار کردہ پلیٹ فارمز کم از کم آپس میں تو بات چیت کرسکیں۔

اس طرح اس وبا کے شروع میں دنیا بھر میں سائنٹیفک اداروں نے اس وبا کے مقابلے کے لیے تیزی سے پارٹنرشپ قائم کرلی تاکہ معلومات کے تبادلے میں آسانی پیدا کی جا سکے۔ روایتی طور پر کسی بھی سائنسی جریدے میں کسی ریسرچ کی اشاعت ایک طویل عمل سے گزرنے کے بعد ممکن ہوتی ہے۔ اس عمل کا مقصد سائنسی معیار کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ سن 2020 میں اس کرونا کی وبا کی وجہ سے ان جریدوں نے بالخصوص بائیوفارما (biopharma) سیکٹر میں ریسرچ کی اشاعت کو آسان بنا دیا تاکہ ویکسین اور علاج کے بارے میں معلومات کو جلد از جلد پھیلایا جا سکے۔

صرف مئی سن 2020 میں تقریباً چار ہزار پیپرز جاری کیے گئے۔ ان میں کرونا سے متعلقہ معلومات پر اعتماد کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں کیونکہ وبا سے پہلے تو یہ تمام معلومات جانچ پڑتال کے سخت ترین انسانی عمل سے گزرتی تھیں لیکن غیر معمولی حالات میں معیار کو کم کر دیا گیا۔ مستقبل میں ریسرچ پیپرز کی جانچ پڑتال اور معیار کو قائم رکھنے کے لیے آرٹیفیشل انٹیلجنس (AI) یعنی Artificial intelligence کے ممکنہ استعمال پر پہلے غور شروع ہو گیا ہے۔

اسی سلسلے میں مارچ 2020 میں وائٹ ہاؤس نے کرونا وائرس سے متعلقہ تیس ہزار سے زائد سائنسی پیپرز کو ”open data“ پر جاری کر دیا اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس (artificial intelligence ) کمیونٹی کو چیلنج دیا گیا کہ کس طرح وہ اس سائنسی مواد کو پر کے سکتے ہیں اور اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ ”Open research“ کا یہ نیا ٹرینڈ اگر قائم رہ سکا تو یہ بائیوفارما اور صحت بارے ریسرچ کے ایک نئے اور سنہری دور کا آغاز ہو گا جس میں مختلف ادارے معلومات کے حصول اور ان سے اخذ کردہ نتائج کو جلد شائع کر سکیں گے۔

یہاں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے (artificial intelligence) کے بارے میں چند جملوں پر ہی اکتفا کروں گا کیونکہ یہ وہ علم کا بحر بے کنار ہے جس نے انسانوں کی سوچ کو نئی جہتیں دیں ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا ہماری زندگیوں میں پہلے ہی غیر محسوس انداز میں عمل دخل کافی آ کا ہے مثلاً ہمارے سمارٹ فون، گوگل کا استعمال وغیرہ لیکن صحت میں اس کا استعمال دبے قدموں آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ مثلاً ہسپتالوں میں خون کے ٹیسٹ کے نتائج کی نگرانی علاوہ ازیں ایکسرے، اور دوسرے سکینز کو ماہرانہ انداز میں پڑھنا اور صرف کسی اہم نشانی کی موجودگی ہی میں متعلقہ ڈاکٹر فوراً اس کی اطلاع دینا۔ ابھی چند ہفتے پہلے ہی پاکستان نے ایسے ایپ (App) کی منظوری دے دی ہے جو صرف کسی ایکسرے کو دیکھ کر ہی مریض میان کرونا کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ اسی طرح سافٹ ویئرز کی تیاری شروع ہو چکی ہے جن کہ ذریعے مریض کا صحت بارے پہلا مشورہ انہی پروگرامز سے ہوگا۔

علاوہ ازیں وبا کے دوران اور بعد میں سفر کو آسان بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال شروع ہو چکا ہے۔ ایاٹا یعنی (IATA) ایسی کوششوں کو بین الاقوامی سطح پر منظور کروانے کی کوشش کر رہا ہے جس میں ایک ایسے الیکٹرانک سرٹیفکیٹ کا اجارہ ہے جو مسافروں میں ویکسین کے ٹیکے کی تصدیق کرے گا اور تمام ممالک اس کو تسلیم بھی کر سکیں۔ ویکسین کی آمد ان کوششوں کو تقویت پہنچائے گی۔ ابھی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ مختلف ممالک میں سفر کے لیے بہت مختلف ٹیسٹوں کی ضرورت ہے کیونکہ ہر ملک اپنی صورت حال کے حوالے سے پالیسیز بنا رہا ہے۔

بہرحال ابھی انسانیت کو کرونا کے ساتھ کچھ وقت اور گزارنا ہے اور اس عرصے میں ہمارے رویے بھی تبدیل ہوں گے۔ چاہے کوئی بھی ٹیکنالوجی آ جائے، حفظان صحت کے بنیادی اصول وہی رہیں گے اور کرونا سے بچاؤ کیلے سماجی فاصلہ، ماسک کا استعمال اور ہاتھوں کا دھونے کی عادت ہمارے روزمرہ مشاغل میں شامل ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).