یہ دسمبر ستمگر



دسمبر کا مہینہ حساس طبیعت لوگوں پر یوں بھی بہت بھاری ہے۔ رومانویت دامن میں سمیٹے دسمبر میں کئی دل اپنے داغ لحافوں میں چھپانے کی عجب کوشش میں ہلکان ہوتے ہیں۔

ہمارے لیے یہ دسمبر اپنے دامن میں کئی قومی داغ لیے بیٹھا ہے۔ سولہ دسمبر سقوط ڈھاکہ، سولہ دسمبر سانحہ آرمی پبلک سکول، 27 دسمبر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت۔ ایسی آگ اس دسمبر میں لگی ہے جو سورج کے سوا نیزے پر ہونے سے بھی نہ لگے۔

دسمبر کی ان شاموں میں وہ تپش ہے جو جون کی تپتی دوپہروں میں بھی نہ ہو اور ایسا حبس جو کبھی ساون بھادوں میں بھی سلگتی زمین سے نہ نکلا ہو۔

اب ایک اور دسمبر کا سامنا ہے۔ اس تفصیل میں جائے بنا کہ دسمبر انیس سو اکہتر میں کیا ہوا؟ پاکستان دو لخت کیسے ہوا؟ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے جدا کیوں ہوا؟ کس کی انا اور ضد نے پاکستان کو اس نہج تک پہنچایا کہ دنیائے اسلام کی سب سے بڑی ریاست دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی۔ اور پھر اگر برا نہ لگے تو آج کے سیاسی منظر نامے پر بھی غور کر لیجیے۔

پاکستان کی گیارہ چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں یک نکاتی ایجنڈے پر یکجا ہیں۔ یہ ایجنڈا حکومت مخالف نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ مخالف ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ ماضی کی ’مائنس ون‘ تحریکوں کے برعکس اس بار اپوزیشن تحریک کا مطالبہ محض ’مائنس ون‘ نہیں۔

یہ تحریک ملک میں سویلین بالادستی اور ادارہ جاتی سیاست کی عدم مداخلت کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اپنے تئیں یہ تحریک اپنے حتمی مراحل میں داخل ہو رہی ہے جس کا اظہار پنجاب کے مرکز اور دارالحکومت لاہور سے تیرہ دسمبر کو ہونے جا رہا ہے۔

یوں تو تحریکیں ایوب خان، یحیی خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے خلاف بھی چلیں جن میں حکومتوں کو برطرف کرنے اور عام انتخابات کی راہ ہموار کرنے کا مطالبہ سرفہرست رہا مگر اس تحریک کا محور بظاہر سیاسی مگر دراصل غیر سیاسی ہے۔

پاکستان جمہوری تحریک پی ڈی ایم اپنے چھبیس نکاتی ایجنڈے کے حصول کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے؟ ماضی کی تمام حکومتوں یا مارشل لاؤں کی کامیابی میں ’ادارے کے اندر‘ کا تعاون ایک اہم اور سب سے بڑا خاصہ رہا تاہم اندر کا تعاون ہمیشہ تحریکوں کے نتیجے میں پیدا شدہ دباؤ کے تحت ہی وجود میں آتا رہا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا احاطہ کرنے والی کئی ایک کتابوں میں واضح طور پر موجود ہے کہ جنرل ایوب کے خلاف اس وقت کے جنرل یحیی، جنرل یحییٰ کے خلاف اس وقت کی اسٹیبلیشمنٹ، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے خلاف اندرونی بیرونی طاقتوں کا کردار اہم رہا اور یہ بھی سچ ہے کہ جو بھی جس راستے سے آیا اسی راستے سے ہٹایا بھی گیا۔

سیاسی حکومتیں بھی بظاہر سیاسی لانگ مارچ مگر اسٹیبلیشمنٹ کے سہارے ایک دوسرے کا پتہ کاٹتی رہیں۔

تحریک انصاف کا لانگ مارچ اور دھرنا وہ واحد سیاسی تحریک تھا جسے اسٹیبلیشمنٹ کی ہمدردی کے باوجود پذیرائی نہ ملی اور اس کاسبب بدلتے معروضی حالات اور سیاسی طاقتوں کا ایک جگہ اکٹھا ہونا تھا۔

حزب اختلاف کی تحریک کس حد تک کامیاب ہو گی کیونکہ بظاہر اسے ’ادارے کی اندرونی‘ حمایت حاصل نہیں۔ ایسی صورت میں اپوزیشن جماعتیں محض دیوار سے سر ٹکرائیں گی اور حکومت کو گھر بھجوانے کی بجائے خود گھر چلی جائیں گی؟ کیا سیاسی جماعتیں ’تخت یا تختہ‘ یا ’آر یا پار‘ سوچ کر گھر سے نکلی ہیں؟

کیا نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا محض سیاسی ورزش کے لیے میدان میں اترے ہیں؟ جواب ہو سکتا ہے ہر گز نہیں، تو پھر آگے کیا؟ حتمی نتیجہ کیا ہو گا؟ اینڈ گیم کس کے نام ہو گی؟

حزب اختلاف کی جماعتوں کے سرکردہ راہ نماؤں کے پاس شاید اس سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں مگر سیاسی سربراہوں کے پاس ضرور موجود ہے۔ یہ قائدین ’زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کیا‘ پر آنے کو تیار ہو سکتے ہیں۔ یہ بات تو ملتان جلسے کے بعد ظاہر ہو گئی ہے کہ جلسوں کو روکے جانا ناممکن ہے اور جلسوں اور لانگ مارچ کا جاری رہنا؟

ہر روز اپوزیشن کی جانب سے اپنے ’بیانیے‘ کا اظہار کہیں نہ کہیں تو دباؤ بڑھائے گا۔ کیا ادارے وہ دباؤ برداشت کریں گے؟ اسلام آباد مذاکرات کو تیار نہیں اور اپوزیشن بات چیت پر رضامند نہیں ایسے میں ادارے کتنا عوامی دباؤ برداشت کر سکتے ہیں اس کا فیصلہ یہ دسمبر کرے گا لیکن دعا ہے کہ اب کی بار یہ دسمبر ستمگر نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).