پاکستانی سیٹھ کمپنیوں کو مزید منافع بخش بنانے کیلئے چند تجاویز



پاکستان کی طرح دنیا بھر میں کاروبار کو مخصوص خاندان چلاتے ہیں۔ یہ خاندان صرف چھوٹے یا درمیانی حجم کے کاروبار ہی نہیں چلاتے بلکہ خاندانوں نے دنیا کے بڑے بڑے کاروبار بھی کامیابی کے ساتھ چلائے ہیں۔ ڈیو پونٹ (DuPont) جیسے ایک کاروباری ادارے کا انتظام خاندان کے افراد نے ایک سو ستر برس ( 170 ) بخوبی سنبھالے رکھا حتی کہ 1790 میں پیشہ وار نہ مہارت رکھنے والے منتظمین نے اس کا انصرام تھام لیا۔

پاکستان میں کاروبار کرنے والے خاندان میرے نزدیک مجسم رحمت ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے لوگ برسرروزگار ہوتے ہیں۔ مزید برآں پاکستان کے موجودہ حالات میں کاروبار کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور کاروباری خاندان جوان نامساعدحالات میں کاروبار کر رہے ہیں وہ اپنی حب الوطنی کا ثبوت اپنے عملی اقدامات سے دے رہے ہیں۔

آج کی نشست میں ہم ان چند تجاویز کا ذکر کریں گے جن پر عمل کر کے پاکستان کے کاروباری اداروں کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ ہونے کا قوی امکان ہے۔

دل پر پتھر رکھ کے کہنا پڑتا ہے کہ بالعموم ہماری سیٹھ کمپنیوں میں خوف کی حکمرانی ہے۔ سیٹھ صاحب کے قرب و جوار میں ہمہ وقت ڈر کا ہالہ موجود رہتا ہے۔ خوف تخلیقی صلاحیتوں کو یوں کھا جاتا ہے جیسے دیمک لکٹری کو نگل جاتی ہے۔ خوف کے ماحول میں اپنی آزادنہ رائے کا اظہار شجر ممنوعہ قرار پاتا ہے اور جی حضوری سکہ رائج الوقت بن جاتا ہے۔ جبکہ امرواقعہ یہ ہے کہ کاروباری ادارے اس ڈائیلاگ سے پروان چڑھتے ہیں جو بغیر کسی نفسیاتی عدم تحفظ کے جاری و ساری رہتا ہے۔

خوف سے نفسیاتی عدم تحفظ پیدا ہوتا ہے۔ خوف جو انڈے بچے دیتا ہے وہ خوف کی مانند ہی بد صورت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر خوف سے مفید معلومات کا تبادلہ رک سا جاتا ہے اور ان معلومات کا بے تکلف تبادلہ کسی بھی کاروباری ادارے کی صحت کا ضامن ہوتا ہے۔ سیٹھ صاحب متعدد مرتبہ انجانے میں یہ فقرہ ادا کرتے ہوئے سنیں گئے ہیں کہ ”میں چاہتا ہوں سب مجھے سچ بتائیں، چاہے اس کھرے سچ کے نتیجے میں انہیں اپنی نوکری سے بھی ہاتھ دھونے پڑ جائیں“ ۔ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ان ”سازگار حالات“ میں کوئی کیونکر سچ بولنے کی حماقت کرے گا۔

خوفناک ماحول میں کام کرنے کے ضمنی اثرات یہ بھی ہوتے ہیں کہ ہر ملازم مفاد عاجلہ کو دیکھتا ہے اور اسے ہر لحظہ اپنی نوکری بچانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ خوف سے بھر پور ماحول میں کام کرنے والے اپنی غلطیوں کو چھپاتے ہیں اور پھر جب عمداً ان قالین کے نیچے چھپی ہوئی غلطیوں کا کوہ ہمالیہ بنتا ہے تو پوری کمپنی (company) زمین بوس ہو جاتی ہے۔ کمپنی میں کام کرنے والے لوگ صرف اسی صورت میں غلطیاں مانیں گے جب کمپنی کے مالکان برملا اپنی خطاؤں کا اعتراف کریں گے۔ ”داغ نہیں تو سیکھنا نہیں“ میں بڑی حکمت ہے اور انسان خطا کا پتلا ہے اور CEOs بھی خطاؤں سے مبرانہیں ہیں۔

ہماری سیٹھ کمپنیوں میں لوگوں کو عموماً شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور یہ مفر و ضہ کہ ”لوگ کام چور ہیں“ کاروباری دینیات کا جزو لاینفک بن جاتا ہے۔ نفسیات سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ ان تو قعات کے مطابق ڈھل جاتے ہیں جو ان سے باندھی جاتی ہیں۔ جب ہم کسی محنت کش کو کام چور سمجھیں گے تو پھر وہ حقیقت میں کام چور بن جائے گا۔ اس کے برعکس اگر ہم یہ تصور رکھیں گے کہ لوگ جانفشانی سے کام کرنا چاہتے ہیں اور تھوڑی سی حوصلہ افزائی سے ان کا سیر بھر خون سوا سیر ہو جاتا ہے اور شاباش سے بوز نے بھی جن بن جاتے ہیں تو پھر ہم ان پر اعتماد کریں گے تاکہ ان کی مخفی صلاحیتیں بیدار ہوں۔

ہمارے پاکستانی کاروباری اداروں میں اکثر و بیشتر ماضی پرستی چھائی رہتی ہے۔ ہم یہاں یا داشت کے بل بوتے پر اپنے ادارے چلاتے ہیں۔ وہ حکمت عملی جو گزرے ہوئے کل میں کامیابی لے کر آئی تھی اس سے ہم آنے والے کل میں بھی کامیانی کی نوید کشیدنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ کامیابی مسلسل تفکر کا ثمر ہوتی ہے۔ کاروباری اداروں میں سوچنے سے درج ذیل فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

1۔ ہم اپنی جبلتوں کے غلام نہیں بنتے ہیں۔
2۔ ہم رد عمل کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔
3۔ ہم پامال راستوں کی آبیاری سے اجتناب کرتے ہیں۔
4۔ ہم حکم کی تعمیل اندھے پن سے نہیں کرتے ہیں۔
5۔ ہم وقتی جذبات کی رو میں بہنے سے پرہیز کرتے ہیں۔

سیٹھ کمپنیوں میں خوشامد کی وبا بھی عام ہے کیونکہ امرو اقعہ یہ ہے کہ ترقی کارگردگی کی بنیاد پر کم اور چاپلوسی کی بدولت زیادہ جلد ملتی ہے۔ ہر انسان اپنی تعریف سننا پسند کرتا ہے اور اختلاف رائے کو ناپسند کرتا ہے۔ برادران یوسف نے ترقی کا یہ بھید پالیا ہے۔ اس لیے وہ سیٹھ صاحب کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں اور ترقی کی سٹیر ہیاں چڑھتے جاتے ہیں۔ جھکنے والے رفعتیں پالیتے ہیں اور خود ی کو بلند کرنے والے کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔

ویسے بھی ”سب اچھا ہے“ کی صدا کانوں میں رس گھول دیتی ہے جبکہ خرابیوں کی نشاندہی کرنے والے خواہ مخواہ گھٹن پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ ہماری سیٹھ کمپنیاں مزید ترقی کر سکتی ہے کہ اگر ان کے سیٹھ صاحبان فیصلے کرتے وقت کمپنی کی اجتماعی دانش کو بروئے کارلے کر آئیں۔ فیصلے اگر صرف بغل میں بیٹھے ہوئے گھاگ مشیروں کے مشوروں کے مطابق ہوں گے تو مشیروں کا تو یقیناً بھلا ہوگا لیکن ادارے کے لیے دوررس نتائج بہتر نہیں نکلیں گے۔

مینجمنٹ کی پوزیشنز پر ریکر وٹمنٹ کرنے کے لیے یہ پیش نظر رہے کہ ان امید واروں کو نظر انداز کر دیا جائے جو سب کو خوش رکھنا چاہتے ہیں یا پھر جنہیں کسی کی خوشی ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے۔ جو منیجر دو سال کے عرصے میں اپنا جانشین تیار نہیں کرتا وہ کرسی کا دیوانہ ہے اورکرسی کے دیوانے اداروں کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔

ادارے لوگوں سے بنتے ہیں اور جب لوگوں کو مشین کے پرزوں کی مانند نا کردہ گنا ہوں کے سبب فارغ کر دیا جائے تو پھر کمپنیاں گھر نہیں بنتیں بلکہ دروازے بن جاتی ہیں جہاں سے آنا جانا لگا رہتا ہے۔

کمپنیوں کا باغ بنانے کے لیے باغبانوں جیسے منیجرز کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے خون جگر سے کمپنی کی کیاریوں کو سنوارتے ہیں۔ وہ منیجر جو جادو کی چھڑی گھما کر آن واحد میں سب کچھ ٹھیک کر دینے کے دعوے کرتے ہیں وہ صرف اپنی جیب گرم کرنے آتے ہیں اور اپنی جیب گرم کر کے کسی اور کمپنی کا رخ کر لیتے ہیں جہاں پر وہ اپنی نام نہاد معجزانہ شخصیت کے کرشمے دکھا سکیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معجزے دکھانے والے منیجرز کی بے بنیاد خوش گمانیوں سے محفوظ رکھے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).