فلم اور ٹیلی وژن ہدایت کار: ایس سلیمان


لاہور میں فنکاروں سے ملنے ملانے کے لئے اکتوبر اور نومبر بہت بہتر ثابت رہا۔ میں نے الحمرا سے کام کا آ غاز کیا۔ یہاں کتھک اور دیگر کلاسیکی رقص میں ایک مستند ملکی اور بین الاقوامی نام، صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی یافتہ ’زرین پنا‘ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں میرے ساتھ تین بڑی شخصیات، فلمی گیت نگار حضرت تنویر ؔ نقوی، جناب طفیلؔ ہوشیار پوری صاحب اور سپریم

کوٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس ( 1968 ) سید فضل اکبر، کے بیٹے بھی تھے۔ سید صاحب کے بعد حمود الرحمن صاحب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے تھے۔ بہرحال یہ بیٹے ماشاء اللہ صاحب ذوق اور ادب دوست ہیں۔ یہ شہبازؔ تنویر نقوی، عرفانؔ باری اور نازشؔ افراز بخاری ہیں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ لاہور میں جہاں جاؤں ان کے ساتھ۔ زرین پنا کی بات چیت کی کچھ باتیں آپ کی نذر ہیں :

” میرے والد لکھنوؤ، محمد نگرکے قریب ایک جگہ ’پسمنڈی‘ کے نواب تھے۔ ان کی مہاراجہ پٹیالہ کے ساتھ بہت دوستی تھی۔ اس وقت ریاست میں تعلیم کا اتنا چلن نہیں تھا لیکن مہاراجہ نے میرے والد کو وزیر تعلیم مقرر کرکھا تھا۔ ان کا نام تو نواب خلیل اللہ خان تھا لیکن مہاراجہ پٹیالہ نے انہیں ’سردار‘ کا خطاب دے رکھا تھا۔ یہ وہاں سردار خلیل کہلاتے تھے“ ۔

” میرے والد نے اداکارہ ببو سے بھی شادی کی اور اپنے شوق کی خاطربمبئی جا کر فلم“ ڈاکو کی لڑکی ”بنائی۔ لیکن اس کے باوجود سب گھر والوں کو ساتھ لے کر چلنے والے تھے۔ وہ زیادہ تر لکھنوؤ اور میری والدہ دہلی میں رہتی تھیں۔ 1947 کا زمانہ آیا اور ا فراتفری کا باب کھل گیا۔ ذرائع آمد و رفت اور مواصلات بھی ٹوٹ کر رہ گئے ایسے میں میری والدہ گھر والوں کے سا تھ پاکستان، کراچی ہجرت کر گئیں۔ والد صاحب کو خبر ہوئی تو وہ بھاگم بھاگ دہلی پہنچے اور اپنی سی بہت کوشش کی کہ میری والدہ اور دیگر اقربا کا کوئی سراغ ملے۔ ناکامی کے بعد وہ یہ سمجھے کہ ہم لوگ فسادات میں مر کھپ گئے۔ کیوں کہ ہر طرف تو قتل وغارت کا بازار گرم تھا۔ یوں وہ واپس لکھنوؤ چلے گئے۔ میری دوسری والدہ محمد نگر میں ہوتی تھیں۔ ان سے میرے پانچ چھے سوتیلے بہن بھائی بھی ہیں۔ وہ لوگ وہاں بہت بڑے زمیندار اور پراپرٹیوں کے مالک ہیں“ ۔

” میں جب کراچی میں ہوش و حواس میں آئی تو سوچنے لگی کہ میری تو کوئی شناخت ہی نہیں کہ میں ہوں کون؟ جب برسر روزگار ہو کر اس قابل ہو گئی کہ خود اکیلے گھوم پھر سکوں تو میں نے اپنے والد کی تلاش شروع کر دی۔ پھر بمبئی میں ششی کپور ا ور فلمساز اور ہدایتکار بی آر چوپڑا صاحب نے میری مدد کی۔ ان لوگوں نے میرے والد کو محمد نگر میں ڈھونڈا لیا۔ آخر کار جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو وہ ضیعف ہو چکے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے میری والدہ کا نام لیا اور کہا کہ تم تو ان کی بیٹی ہو۔ دیکھئے کیسے پہچانا۔ انہیں دیکھتے ہی میرے ساتھ گئے ہوئے افراد نے بے ساختہ کہا کہ میں ان سے مشابہ ہوں۔ والد سے مل کر میں اتنا روئی کہ زندگی میں کبھی نہ روئی ہوں گی۔ روتے روتے میرا تو حشر ہو گیا۔ پتا نہیں وہ کیا چیز تھی جو رلائے چلی جاتی تھی۔ میں ان کے پیروں میں بیٹھی روتی رہی۔ وہ بھی رو رہے تھے“ ۔

” اس گھر کے دیگر افراد یہ سمجھے کہ شاید یہ جائیداد کے لئے آئی ہے کہ باپ سے کچھ لکھوائے۔ وہاں میرے سوتیلے بھائی، نواب سلیم اللہ نے واضح کیا کہ جائیدادیں تو بٹ بھی چکیں! میں نے کہا سلیم بھائی، مجھے صرف اپنے باپ کی شناخت چاہیے تھی۔ اگر میرے نصیب میں ڈانسر بننا ہی لکھا تھا تو مجھے یہ تو پتا چلے کہ میرا باپ کون تھا؟ شکر ہے کہ پھر انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور میری اپنی شناخت کی جستجو اور تشنگی ختم ہو گئی۔ میرا ’زرین‘ نام بھی والد صاحب نے رکھا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ میں پھر ان سے نہیں ملی اور نہ ا نہوں نے مجھ سے کوئی رابطہ کیا۔ پھر پتا چلا کہ ان کا انتقال ہو گیا“ ۔

” جب آپ پر اچھا وقت آیا تب کیا آپ کی والدہ حیات تھیں؟“

۔ ”میری والدہ کا نام عائشہ تھا اور وہ حیات تھیں۔ عجیب مزاج اور درویش قسم کی خاتون تھیں۔ بس پردے میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ اپنی ماں کی اکلوتی اولاد تھیں۔ درگاہوں پر جانا اور گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر نماز پڑھنا۔ ان کا دل اندر سے ٹوٹ گیا تھا اسی لئے انہوں نے ایک طرح کی گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ میرے ننھیال فیروز پور لدھیانے کے زمیندار لوگ تھے۔ میرے نانا اپنے علاقے کے چودھری تھے، ان کا نام چودھری علی محمد تھا“ ۔

زرین پنا بحیثیت ڈرامہ ڈائریکٹر اور کوریوگرافر:

شوکت خانم کینسر اسپتال کے ساتھ زرین پنا شروع ہی سے ایک طرح یا دوسری طرح آگہی اور معلوماتی اور تفریحی پروگراموں سے منسلک رہی ہیں۔ انہوں نے 2015 میں ڈرامہ ”امید“ کی ہدایات دیں اور خود ہی کوریوگرافر بھی تھیں۔ اسی طرح انہوں نے ڈرامہ ”روشنی“ بھی کیا۔

اخبارات، رسائل اور ادبی پرچوں میں زرین کی تحریریں :
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ایک چونکا دینے والی بات کہی:

” میں 1970 سے رسالوں اور اخباروں میں بھی لکھ رہی ہوں۔ اس وقت کے اکادمی ادبیات، اسلام آباد کے چیرمین فخر زمان صاحب نے مجھے میری تحریر پر 50000 / روپے کا انعام بھی دیا تھا۔ میں نے چالیس پچاس کہانیاں لکھی ہیں۔ میری کہانی

’ گلک‘ اس وقت کے پڑھنے والوں نے بہت پسند کی تھی۔ میں نے اس میں اپنے دل کے چھالے پھوڑے ہیں۔ ایک اور افسانہ ’خالی لفافہ‘ بھی کافی سراہا گیا۔ میں نے اس میں بتایا کہ خالی ’لفافہ‘ کیسا ہوتا ہے۔ یہ بھی میں نے دل سے لکھا تھا ”۔

” اس کے علاوہ آپ نے جو افسانے اور مختصر کہانیاں لکھیں کچھ ان کا ذکر ہو جائے“ ۔

” میری تحریریں اخبارات اور رسالوں میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ جیسے ’اخبار خواتین‘ ، ’اخبار جہاں‘ وغیرہ۔ اظہر جاوید صاحب کے ماہانہ ادبی پرچے ’تخلیق‘ میں میرے کافی افسانے شائع ہوئے۔ آفاقیؔ کے میگزین میں بھی میری تحریریں شائع ہوئیں“ ۔

” جب سلو بھائی فلمی کہانیوں پر کام کر تے تھے ان میں بھی کیا آپ کا ’عمل دخل‘ ہوتا تھا؟“ ۔

” میرا بھی تھوڑا بہت عمل دخل ہوتا تھا۔ دراصل سلیمان سے شادی 1975 کے بعد میں خالصتاً گھرستن ہو گئی تھی۔ پڑھنے پڑھانے کا بہت شوق تھا۔ اردو کے بہت سے نامور کلاسیکی ادیبوں کو پڑھتی رہتی تھی۔ 1980 کے بعد سے کہانیوں کے انتخاب میں، میں نے بھی بیٹھنا شرع کر دیا۔ یہ نشستیں ہمارے ہی ہاں ہوتی تھیں۔ کہانیوں کے علاوہ رقص، گانے، ملبوسات، سیٹ ڈیزائین، میوزک وغیرہ ان سب شعبوں میں اب میری بھی آراء شامل ہونے لگیں کہ یہ چیزیں اس طرح بنائیں تو زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔ مثلاندیم کی گولڈن جوبلی فلم“ مکھڑا ”( 1988 ) میں بابرہ اور ندیم پر ایک سر ہٹ گانا ’منڈیا دوپٹہ چھڈ میرا۔‘ فلمایا گیا اس میں بابرا کو میں نے ہی ریہرسل کروا کر سیٹ پر بھیجا تھا“ ۔

” کیا کوئی ایسی فلمی کہانی یا گیت ہے جو خالصتاً آپ کا آئڈیا تھا، خواہ اس میں آپ کا نام ہو یا نہ ہو؟“

” ان میں“ زینت ”( 1975 ) ،“ اف یہ بیویاں ”( 1977 ) ،“ اناڑی ”( 1975 ) وغیرہ۔“ اف یہ بیویاں ”کا تو قصہ بہت ہی دلچسپ ہے“ ۔

” ہائیں! وہ کیا؟“ ۔ میں نے بے ساختہ کہا۔

۔ ”کہانی نویس آغا حسن امتثال کا ہمارے ہاں کافی آنا جانا تھا۔ ایک دن بڑے دکھی انداز میں آئے۔ میں نے پوچھا کیا ہو گیا؟ کہنے لگے کہ دو بیویاں کر بیٹھا ہوں۔ ایک کہتی ہے میرے ساتھ لنچ کرو دوسری کہتی ہے کہ تم نے لنچ کر لیا ہے تو کر لیا ہو گا! اب پھر سے آ کر میرے ساتھ بھی لنچ کرو۔ میں الٹیاں کرتا، روتا پیٹتا وہاں پہنچتا ہوں تو پہلی کا فون آ جاتا ہے کہ ڈنر میرے ساتھ کرو۔ اب مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کروں تو کیا کروں!

اور تو اور ایک مرتبہ ایک کے ہاں سفید جوتا پہن کر گیا تو واپسی میں ایک پیر میں سفید تو دوسرے میں کالا پہنے واپس آیا۔ اس پر میں نے فوراً آغا صاحب سے کہا کہ آپ کی دو بیویاں، سنتوش بھائی کی دو بیویاں، درپن کی ایک ہیں نیر سلطانہ۔ ایک کام کریں ان سب کو اکٹھا کر کے مزاحیہ سی فلم کیوں نہیں بنا لیتے؟ کہنے لگے کہ آئڈیا تو بہت اچھا ہے بھابھی! یوں کھڑے کھڑے اس خیال پر فلم کا بننا طے پا گیا۔ پھر یہ فلم بنی اور عوام میں بے حد مقبول بھی ہوئی“ ۔

” اسی طرح فلم“ اناڑی ”( ( 1975 ) کے کچھ مزاحیہ سین بھی میرے آئڈیا پر فلم بند ہوئے۔ اس مکالمے : ’میرا بس چلے تو اس کو، کوئیں میں پھینک دیں‘ پر سوال اٹھا کہ یہ سین ہو گا کیسے؟ اس پر میں نے سین کا تانا بانا تخلیق کیا جس کو وہاں موجود لوگوں نے سراہا“ ۔

” سلو بھائی کیا آپ کے مشورے مان لیا کرتے تھے؟“ ۔

” سلیمان میرے مشورے حیل و حجت کے بعد مان لیتا تھا کہ ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ اس منظر کو بھی میرے مشورے کے مطابق شوٹ کیا گیا جو عوام نے پسند کیا“ ۔

” فلم“ بازی گر ”کی ایک تصویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی مزاحیہ فلم تھی“

” فلم“ بازی گر ”ستیش آنند کے ماموں لطیف لچھو نے بنائی تھی۔ انہیں لچھو بھائی کہتے تھے۔ بہت زبردست شخص تھے یہ اور آنند فیملی بہت شاندار ہیں۔ خود ستیش ا س وقت بارہ سال کا تھا جب اس نے میرے ساتھ اس فلم میں کام کیا“ ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:

۔ ”سلیمان کی ایک فلم تھی“ تیرے بنا کیا جینا ”( 1982 ) ۔ میں نے کراچی کے جونا گڑھ ہاؤس میں اس فلم کی عکس بندی کروائی۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ کسی فلم کی شوٹنگ کر سکے۔ نواب جونا گڑھ میرے والد کے بہترین دوستوں میں سے تھے۔ اسلم فلمز والے، اسلم بھٹی، عبدا اللہ بھٹی والوں کے گھر سے میں نے فرنیچر اٹھوا کر جونا گڑھ ہاؤس پہنچا کر سجایا۔ پھر بیگم صاحبہ سے فلم بندی کرنے کی اجازت حاصل کر لی۔

وہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ کہنے لگیں کہ آج تک میں نے یہاں کسی کو اجازت نہیں دی لیکن تم جم جم آؤ کیوں کہ یہ تمہارا میکہ ہے۔ پروڈکشن کا کام، پردوں، گانوں وغیرہ اور تمام اسٹاف کے کھانے پینے کے انتظامات میں نے کیے ۔ میں تو پہلے ہی خود اکیلے 10 سے 15 ا فراد کا کھانا پکا کر اسٹوڈیو بھجوایا کرتی تھی“ ۔

” اس فلم کی کوئی یادگار بات؟“ ۔

” اس فلم میں ایک مہندی کا گانا بھی تھا جو میں نے جونا گڑھ ہاؤس میں بہت محنت اور محبت سے عکس بند کروایا۔ میں نے مہندی کا بھرپور ماحول بنایا تھا جو خوب جچا“ ۔

” پوری شفٹ کے لئے کھانا پکانا کب اور کہاں سے سیکھا؟“

” 1990 کی دہائی میں میں نے 5 سال ڈیفینس کے ایک اسکول کی کینٹین میں خود اکیلے کام کیا۔ وہاں مجھے سب ہی کچھ بنانا اور پکانا آ گیا تھا۔ میں مختلف اشیاء گھر سے بنا کر لاتی اور اسکول کی کینٹین میں بچوں کو بیچتی تھی۔ وہ ایک کٹھن وقت تھا۔“ ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا :

” اداکارہ نجمہ اور راحت کاظمی کو میں نے متعارف کروایا۔ راحت کاظمی کو تو میں خود اسلام آباد سے لائی تھی۔ ساحرہ کی اماں میری بڑی پرانی اور اچھی دوست تھیں“ ۔

” تھوڑی دیر پہلے بات ہو رہی تھی کہ آپ کی خواہش ہے کہ آپ کی سوانح اور دیگر تحریر کتابی صورت میں شائع ہوں۔ اس سلسلے میں اب تک کی کیا پیش رفت رہی؟“

” ارے! بقول غالب ؔ : ’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے، بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے‘ ۔ مجھے جب جب وقت ملا میں نے اپنی یادداشتیں مرتب کرنا شروع کر دیں۔ لیکن اپنے ذاتی دکھ اور دنیا کے برتاؤ کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔ ویسے تو وہ مکمل ہے صرف مناسب پبلشر کی تلاش ہے“ ۔

” آپ کے سسرال میں ایسا کون شخص تھا جو ہر طرح سے آپ کا سائبان ثابت ہوا؟“

” و ہ سنتوش بھائی تھے۔ یہ بہت اچھے انسان تھے۔ ہمارے پورے خاندان پر ان کی وجہ سے ایک سفید چادر ڈھکی ہوئی تھی۔ کسی کو پتا نہیں چلتا تھا کہ ہمارے گھر میں کیا ہوا؟ کون کس سے ناراض ہو رہا ہے، کون لڑ رہا ہے کس کا کیا ہو رہا ہے۔ وہ صبح کرسی میں بیٹھ جاتے تھے اور سامنے تمام لوگ کھڑے ہو جاتے تھے۔ عدالت لگ جاتی تھی۔ بہت انصاف پسند آدمی تھے۔ بات کو آگے نہیں بڑھنے دیتے تھے۔ وہیں کے وہیں فیصلے کر کے معاملہ ختم کر دیتے تھے کہ کون غلط ہے کون صحیح۔ وہ میرے باپ، بھائی، دوست الغرض کیا نہیں تھے۔ مجھے ان سے بڑا آسرا تھا۔ درپن بھائی تو میری سلیمان کے ساتھ شادی سے خوش نہیں تھے۔ وہ کہتے تھے تم تو چھ مہینے کے بعد بھاگ جاؤ گی۔ سنتو س بھائی کہتے تھے کہ اگر ایک سال خیریت سے گزر گیا تو یہ شادی ساری زند گی رہے گی نہیں تو یہ لڑکی

تین مہینے میں بھاگ جائے گی ”۔

” جب میرا بچہ پیدا ہوا اور میں نے سنتوش بھائی کی گود میں لا کر ڈالا تو انہوں نے کہا میں تو یہ سمجھا تھا کہ یہ لڑکی چار مہینے میں چلی جائے گی لیکن میں اب فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ میری بہو ہے!“ ۔

” انہوں نے مجھے اس گھر میں ایک بزرگ کا پیار دیا۔ اس کنبے میں سب ہی اچھے تھے۔ صبیحہ بھابھی کیا، نیر بھابھی کیا۔ نیر بھابھی نے تو میری شادی کروائی تھی۔ اس شادی میں آغا طالش میرے روحانی باپ تھے۔ کیوں کہ میرے گھر سے کوئی اس شادی میں شریک ہوا تھا نہ ہی سلیمان کے ہاں سے۔ ہم دونوں بے یار و مددگار بیٹھے ہوئے تھے۔ میری طرف سے آغا طالش اور سلیمان کی جانب سے غالباً اجمل یا اکمل تھے“ ۔

” آپ کی سلو بھائی کے والد سے بھی کبھی ملاقات ہوئی جن کا آفاقیؔ صاحب بہت ذکر کیا کرتے تھے؟“

” انہیں ایک دو مرتبہ دیکھا ضرور تھا لیکن جب میں اس گھر میں بہو کی حیثیت سے آئی تو ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ ہاں! البتہ اس گھر میں ایک بہت شاندار خاتون بھی تھیں۔ بانو آپا۔ وہ ان بھائیوں کی بہن تھیں۔ سنتوش بھائی سے چھوٹی مگر جناب وہ کیا شخصیت تھیں۔ میں کیا بتاؤں۔ ویسے یہ سب بھائی بھی کمال تھے۔ ان بھائی بہنوں نے بہت پیار دیا۔ ان میں سب سے چھوٹا منصور ہے۔ وہ میرا ماں کی طرح احترام کرتا ہے۔ اللہ اس کو خوشیاں دے۔ اس کی چھ بیٹیاں تھیں۔ سب ماشاء اللہ اس نے بیاہ دیں۔ اللہ کل جہاں کی بچیوں کے نصیب اچھے کرے۔ ماشاء اللہ بہت اچھا بچہ ہے“ ۔

” ابھی کچھ ہی دیر پہلے آپ“ نگار ”کا ذکر کر رہی تھیں؟“ ۔

” جی ہاں! میری دعا ہے کہ اسلم میاں میرے سامنے نگار ایوارڈ کی تقریب میں اسٹیج پر کھڑے ہو کر اپنے والد الیاس رشیدی صاحب کا نام روشن کریں“ ۔

” آج کل کے فلمی رقص کے بارے میں آپ کیا کہتی ہیں؟“ ۔

” رقص تو اب بس نام کا ہی رہ گیا ہے۔ فنکارانہ انداز سے نہیں ہو رہا۔ ہم نے تو ردھم سیکھنے میں جان لڑا دی تھی۔ ’تتکار‘ ۔ ہر شے اپنے محور پر گھوم رہی ہے۔ رقص میں سب سے پہلے ردھم سیکھا جاتا ہے۔ آدھا ’سوت‘ بھی ادھر ادھر ہو جائے ہمیں فوراً پتا چل جاتا ہے“ ۔

” آپ کی کہانی تو زندگی کی طرح تلخ و شیریں ہے!“ ۔

” میں تقریباً چھ سال کی تھی جب ہمارا کنبہ دہلی سے ہجرت کر کے کراچی، پاکستان آ یا۔ کنبے میں کئی ایک مرد تھے مگر سب ہی بیمار و لاچار۔ گزارا بہت مشکل ہو رہا تھا مکان کا ماہانہ کرایہ کیوں کر ادا کرتے! یوں سولہ ماہ کا واجب الادا کرایہ پانچ سو روپے ہو گیا اور وہ ادا نہ کیا جا سکا۔ تب ہمیں مکان خالی کرنا پڑا۔ یہ منظر آ ج تک میری نظروں میں گھوم رہا ہے جب ہمارا سامان اٹھا کر باہر پھینکا جا رہا تھا۔ وہ ’کھارا در‘ کا کوئی علاقہ تھا۔

ہماری بے بسی کا تماشا دیکھنے والے اہل محلہ تو بہت تھے لیکن ہماری مدد یا دل جوئی کے واسطے کوئی مرد و زن آگے نہ بڑھا۔ اب میں سوچتی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اہل محلہ کے مالی حالات بھی شاید ہم لوگوں جیسے ہی تھے! میری حالت تو ایسی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں! بس ایسے میں اللہ کی مدد ایک اجنبی شخص کی صورت آن موجود ہوئی۔ اس بھیڑ کو چیرتا ہوا کوئی فرشتہ صفت شخص آگے بڑھا۔ میرے پاس آیا اور پوچھا کہ میں کیوں رو رہی ہوں؟

میں نے رندھی ہوئی آواز میں جو بتا سکتی تھی وہ بتایا۔ تب اس شخص نے سامان پھینکنے والوں اور ان سے کام لینے والے کی جانب دیکھ کر ایک ایسی حرکت کی کہ وہاں موجود مجمع کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ اس نے اپنی جیب سے 500 روپے نکالے اور ڈانٹ کر کہا خبردار اب کوئی سامان جو پھینکا۔ وہ کون تھا؟ کہاں سے آیا؟ ہماری مدد کیوں کی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا آج تک کوئی جواب نہ مل سکا“ ۔

” میں نے بہت محنت کی ہے۔ 12 سال کی تھی جب میں نے کتھک رقص اپنے استاد ’رفیع انور‘ سے سیکھنا شروع کیا۔ میرے استاد بمبئی سے کراچی آئے تھے۔ انہوں نے ’ادے شنکر‘ اور ’میڈم آزوری‘ سے کلاسیکل رقص سیکھا تھا۔ وہ مجھے اس وقت کے وزیر اعظم ملک فیروز خان نو ن اور ان کی بیگم، بیگم وقار النساء نون کے ہاں لے گئے۔ بیگم صاحبہ نے میری کارکردگی کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ یوں میرا وزیر اعظم پاکستان کے ہاں کارکردگی دکھانے کے موقعے ملتے رہے۔ میری پہلی باقاعدہ بڑی کارکردگی

شاہ افغانستان کے سامنے ہوئی۔ میں نے وہاں ’لڈی‘ پیش کی۔ میری یہ کارکردگی خاصی کامیاب رہی ”۔

” اس کے بعد میں بیگم وقار النساء نون کی بہت مشکور اور پرستار ہو گئی۔ یہ خاتون تعلیم اور فنون کی بہت سرپرستی کرتی تھیں۔ خواتین اور بچیوں کو ہر میدان میں ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھیں۔ میری بھی بہت حوصلہ افزائی کی۔ جب بھی بیرونی ممالک سے کوئی سربراہ سرکاری دورے پر آتے تو بیگم صاحبہ ان کے سامنے میرا کلاسیکی رقص ضرور رکھواتیں“ ۔

” کچھ عرصہ بعد شاہ ایران پاکستان آئے۔ اس موقع پر بھی میں نے کلاسیکی رقص کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد بھی شاہ ایران نے مجھے بذات خود ایک ایوارڈ دیا تھا۔ وہ تصویر میں نے وائس آف امریکہ والوں کے انٹرویو کو بھی بھیجی ہے۔ ایک صندوقچہ ہے جس پر شاہی مہر لگی ہوئی ہے۔ شاہ ایران اور ملکہ فرح دیبا نے شاہراہ پہلوی، تہران بلوا کر دیا تھا“ ۔

” میں نے پرنس کریم آغا خان کی آمد پر بھی اپنی کارکردگی دکھلائی۔ پھر انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو کے دورۂ پاکستان پر بھی میں نے کلاسیکی رقص کیا“ ۔

” ہاں ایک بات یاد آئی! صدر ایوب خان کے دور میں بلا معاوضہ میں نے ملک کی مختلف چھاؤنیوں میں اپنے کلاسیکی رقص سپاہیوں کے لئے پیش کیے ۔ جس سے وہ بہت خوش ہوئے“ ۔

” جلد ہی میری 12 میوزیشنوں کے ساتھ ایک ٹیم بن گئی۔ پھر مجھے پیلیس ہوٹل کراچی میں ایک سنہری موقع ملا۔ جہاں سندھ بلوچستان کے بڑے بڑے نوابین اور سردار آتے تھے۔ یہاں پرمیرا کتھک رقص رات 12 : 00 بجے ہوتا تھا“ ۔

” کیا غیر ملکی فلموں میں بھی فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا؟“ ۔

” میں نے مملکت اٹلی میں 40 سے 50 اطالوی فلمیں کیں۔ چوں کہ میں ایک رقاصہ تھی لہٰذا میں نے ان فلموں میں مہمان اداکارہ کے طور پرکلاسیکی رقص کیا۔ مملکت اٹلی میں میرا جانا در اصل پانچ ممالک کی مشترکہ فلمسازی میں بننے والی فلم ’کالی یوگ‘ ( 1963 ) تھی۔ ان میں اٹلی، فرانس، امریکہ، پاکستان اور بھارت شامل تھے۔ اس مشترکہ فلم ساز ادارے نے اس وقت پاکستان کے سب سے نامور اور جدید ترین فلم اسٹوڈیو، ایور نیو فلم اسٹوڈیو لاہور سے رجوع کیا۔ اپنی ضرورت بتلائی۔ ایور نیو کے آغا جی اے گل نے مجوزہ فلم کی ہیروئن ’کلوڈین اوگر‘ سے ملتی جلتی لڑکی جو کتھک رقص میں بھی ماہر ہو، چٹکی بجاتے ہوئے ڈھونڈ لی۔ جی ہاں وہ میں تھی۔“ ۔

” میں آغا جی اے گل (م) صاحب کی مرہون منت ہوں کہ انہوں نے مذکورہ فلم کے لئے میرا انتخاب کیا۔ بھارت سے نامور مصنف، اداکار، فلمساز و ہدایتکار ’اندر سن جوہر‘ المعروف آئی ایس جوہر آئے تھے۔ جوہر صاحب نے مجھے مشہور امریکی اداکار انتھونی کوئین سے ملوایا۔ اس کی فلم ’دی گنز آف نیورآن‘ تازہ تازہ کامیاب ہوئی تھی۔ انہی ملاقاتوں میں احمد کمال مصطفے ٰ بھی ہوتا تھا۔ وہ اس وقت اپنی فلم ’دی میسیج‘ پر کام کر رہا تھا۔ آگے چل کر انتھونی کوئین نے فلم ’دی میسیج‘ میں شاندار اداکاری کے جوہر دکھائے۔ احمد کمال مصطفے ٰ چھوٹے قد کاٹھ کے بہت دھیمے مزاج والے آدمی تھے۔ مزے کی بات یہ کہ گفتگو بھی وہ دھیمے لہجے میں کرتے تھے۔“ ۔

” میں دو مرتبہ، ایک ایک ماہ کے لئے اطالوی فلموں میں کام کرنے اٹلی گئی۔ ایسے ہی کسی ایک موقع پر میں نے آئی ایس جوہر سے فرمائش کی کہ وہ میری صوفیہ لورین اور جینا لو لو بریجینڈا سے ملاقات کروا دیں۔ انہوں نے پھر یہ ملاقاتیں ممکن بھی بنائیں“ ۔

” پھر میں پاکستان میں اشتہارات میں آنے لگی۔ جیسے : ’تبت سنو‘ اور ’لکس صابن‘ وغیرہ“ ۔

” کراچی میں فلم ’‘ اللہ اکبر“ بنانے والے ’رفیق چمن‘ نے اپنی فلم ”بہن بھائی“ میں میرا رقص رکھا۔ پھر میں نے فلم ”لاکھوں فسانے“ ( 1961 ) میں رقص کیا۔ اس فلم کے اداکار درپن صاحب نے مجھے لاہور آنے کی پیش کش کی۔ ان کی ذاتی فلم ”گلفام“ ( 1961 ) میں مجھے ایک کلاسیکی رقص کرنا تھا جو بقول ان کے، میں بہتر کر سکتی تھی ”۔

” لیکن میں نے ہاں کر کے پھر انکار کر دیا کیوں کہ پیلیس ہوٹل میں مجھے اچھے پیسے مل رہے تھے۔ اس پر قتیلؔ شفائی اور آغا طالش نے بہت اصرار کیا۔ میں تذبذب کا شکار ہو گئی“ ۔

یورپ میں بننے والی فلم ’کالی یوگ‘ میں آپ کا انتخاب کیسے ہوا؟ ”۔

” میں نے اس فلم کی ہیروئن جرمن اداکارہ کلوڈین کے ڈوپلیکیٹ کا کام کرنا تھا۔ میرا انتخاب پاک و ہند کی کتھک رقاصاؤں میں یوں کیا گیا کہ ایک تو میرا کتھک رقص مروجہ اصولوں اور معیار کے عین مطابق تھا اور دوسرے میں اداکارہ ’کلوڈین اوگر‘ سے بڑی حد تک مشابہت رکھتی تھی۔ اس وقت کی میرے اور کلوڈین کی صورت اور جسامت تقریباً ملتی جلتی تھی۔ ویسے آفرین ہے کلوڈین پر کہ اس نے دل جمعی کے ساتھ کتھک کی کچھ ضروری چیزیں خود بھی سیکھ لیں۔ کلوڈین اوگر ڈاکٹر نو کی فلموں کی سیریز کی پہلی فلم کی ہیروئن ہیں“ ۔

” آپ تو لاہور ہی کی ہو کر رہ گئیں۔ کراچی والوں کو بھول ہی گئیں؟“ ۔ میں نے مذاقاً سوال کیا۔

” سارے کراچی والوں کو میرا بے حد پیار اور دعا۔ خدا کراچی کو نظر بد سے بچائے۔ میری وہاں پرورش ہوئی پھر خدا نے عزت، شہرت اور بہت کچھ دیا اور جسے کراچی والوں نے آج تک یاد رکھا میں ان کی بہت شکر گزار ہوں۔ سلیمان کافی بیمار ہیں آپ ان کے لئے دعا کیجئے۔ اللہ کرے کہ وہ ایک دفعہ اور اٹھیں اور ’انا‘ ، ’رابعہ زندہ رہے‘ جیسے ڈرامے بنائیں۔ اور وہ چالیس پچاس فلمیں جو آپ لوگ آج تک یاد کرتے ہیں ایسی ہی اور بھی بنائیں۔ خدا آپ لوگوں کی دعائیں قبول کرے! !“ ۔

” میں اب واپس“ نگار ”کی جانب آتی ہوں۔ میرے ایک پیارے سے عزیز محترم تھے جن کا نام تھا الیاس رشیدی صاحب۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ ہمارا تحفظ اور ہماری چھت تھی۔ ان کے دفتر کو ہم گوشۂ عافیت کہتے تھے۔ اس میں ادھر سے الیاس رشیدی صاحب آ رہے ہیں، بڑا مذاق وذاق کرتے تھے۔ ادھر سے شمیم آراء آ رہی ہیں۔ ادھر سے علی سفیان آفاقیؔ آ رہے ہیں، نثار جاپان والا آ رہے ہیں۔ شوکت شیخ آ رہے ہیں، نسیم صاحب بیٹھے ہوئے ہیں، جے سی آنند بھی موجودہیں۔

ہم سارے ایک کنبے کی طرح رہتے تھے۔ نظر لگ گئی۔ وہ کنبے بچھڑ گئے۔ اور ایک خلا پیدا ہو گیا۔ وہ لوگ اب واپس نہیں آ سکتے۔ وہ بے حد قیمتی تھے۔ سچ مچ دل بہت دکھتا ہے جب ان کا ذکر ہوتا ہے۔ میں اسلم میاں کے لئے دعا گو ہوں جو نگار اخبار سنبھال کے چل رہے ہیں کہ خدا انہیں الیاس رشیدی بنائے! آج کل کے زمانے کے حساب سے نوجوان نسل بہت اونچے خیالات والی ہے۔ ہمارے زمانے میں تو موبائل، لیپ ٹاپ بھی نہیں تھا۔ ہم تو بالکل سادا زندگی گزار گئے مگر سادگی میں اتنی محبت، ہمت اور اتنا ساتھ لوگوں نے دیا کہ میں زندگی میں بھول ہی نہیں سکتی۔ ہائے میرا کراچی! اللہ میرے کراچی کو نظر بد سے بچائے“ ۔

۔ ”اب میں یہ سوچتی ہوں کہ نگار والوں کو چاہیے کہ ایک دفعہ پھر وہ ایوارڈ فنکشن شروع کریں۔ ٹھیک ہے جو گنے چنے لوگ رہ گئے ہیں ان کو بھی دیں۔ کراچی بلائیں۔ ہم آنے کو تیار ہیں“ ۔

” کتھک کا کیا صرف ایک ہی انداز ہے؟“

” کتھک کے مختلف انداز ہیں، میں تو ایک انداز سے اتفاق نہیں کرتی۔ پنجاب اور سندھ کی داستانیں، شاہ بھٹائی کا کلام، عمر خیام کی رباعیاں، حضرت امیر خسرو، حضرت باہو، حضرت بلھے شاہ وغیرہ ان سب پر میں کام کرتی ہوں“ ۔

” بڑی نالائق سی ہوں لیکن زندگی نے کچھ سکھا دیا ہے۔ ٹھوکریں کھائی ہیں لیکن ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں۔ آپ لوگوں کو میں آج بھی یاد ہوں۔ اور اسلم میاں! زندگی سے بھرپور ایک اچھا سا فنکشن کر دو۔ ہم آئیں گے۔ اور آپ سب لوگوں کو دعائیں دے کر چلے جائیں گے۔ ہماری یہ دعا ہے : تو سلامت رہے ہزاروں برس، ہر برس کے دن ہوں پچاس ہزار ’۔ اور شاہد لطیف صاحب نے تو کمال کیا! انہوں نے آ کے اچانک چھاپا مارا ہے!

وہ تو اتنے محبت والے ہیں کہ میں تو تصور بھی نہیں کر سکتی۔ انہیں آپ ایک لمحہ کے لئے بھی نہ چھوڑیئے گا۔ قیمتی اثاثہ ہیں یہ! میں تو موہنجوڈارو کی ڈانسنگ گرل ہوں مگر یہ بھی آثار قدیمہ اور بڑے قیمتی ہیں! میں بیٹھے دیکھ رہی ہوں عرفانؔ باری جو طفیلؔ ہوشیارپوری صاحب کے بیٹے ہیں، وہ تنویرؔ نقوی صاحب کے بیٹے شہباز ؔ تنویر نقوی ہیں اور یہ سید فضل اکبر، سپریم کوٹ آف پاکستان کے ریٹائرڈ چیف جسٹس کے بیٹے نازش افراز بخاری ہیں۔ یہ سب اچھے بچے ہیں اللہ انہیں زندگی دے۔ یہ لوگ ہمیں یاد رکھیں۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ کچھ نہ دیں، ہمیں یاد رکھیں! اپنے لفظوں میں، اپنی محبتوں میں، اپنی یادوں میں جس طرح میں نے کراچی والوں کو سب کو یاد رکھا اور میں ہمیشہ دعائیں کرتی ہوں کہ آپ سب لوگ خوشی خوشی محبتوں کے ساتھ زندہ سلامت رہیں“ ۔

” آپ ہماری فلمی صنعت کی حیات نو سے کتنی پر امید ہیں“ ؟

” سپنا تو یہ دیوانوں کا ہے مگر پھر بھی امید پر دنیا قائم ہے۔ میں نے تو خیر کراچی سے فلموں میں کام شروع کیا تھا۔ میں نے دس بیس فلمیں کراچی کی کیں پھر میں لاہور آئی۔ یوں چالیس پچاس فلمیں میں نے کیں۔ اور پوری دنیا میں پنا نے کتھک کو باقاعدہ روشناس کرایا۔ بہت انعامات ملے، بڑے ایوارڈز ملے۔ اور الحمدو اللہ مجھے حکومت نے 2018 میں صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا۔ میں ان کی شکر گزار ہوں اور الحمرا والوں کی بھی کیوں کہ ان لوگوں نے میرا بہت خیال کیا اور پی این سی اے والوں کا کہ وہ بھی مجھے یاد رکھے ہوئے ہیں۔ خدا کرے کہ مرنے سے پہلے کوئی اچھا سا کام کر جاؤں اور آپ لوگوں کو میں یاد رہوں۔ بہت شکریہ۔ اللہ نگہبان“ ۔

……………………………………………………
اب کچھ ذکر سلو بھائی کا ہو جائے :
ملک کے مایہ ناز نگار ایوارڈ یافتہ
فلم اور ٹیلی وژن ہدایت کار
سید سلیمان المعروف ایس سلیمان

ایس سلیمان صاحب کے نام سے کون واقف نہیں۔ تذکروں کے مطابق یہ 29 دسمبر 1938 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ا ن کی فلمی صنعت میں آمد بطور معاون ہدایتکار ہوئی۔ یہ کریسنٹ پکچرز کی پنجابی سلور جوبلی فلم ”مکھڑا“ ( 1958 ) تھی جس کے ہدایتکار جناب جعفر ملک تھے۔ مذکورہ فلم کی دو خاص باتیں اور بھی ہیں : ایک تو گلوکار منیر حسین کا یہ لازوال گیت ’دلا، ٹھہر جا یار دا نظارہ لین دے۔‘ اس گیت کو جناب وارث ؔ لدھیانوی نے لکھا اور رشید عطرے صاحب نے طرز بنائی۔ دوسری بات اس فلم کے مہمان پہلوانوں کی فہرست ہے جس میں یہ عظیم نام ہیں : رستم زماں بھولو پہلوان، اعظم پہلوان، اچھا پہلوان، اکرم پہلوان، گوگا پہلوان، حسو پہلوان، شفیع پہلوان وغیرہ۔

سیدسلیمان صاحب کی پہچان ان کے دو نامور فلمی اداکار بھائی موسیٰ رضا المعروف سنتوش کمار اور سید عشرت عباس المعروف درپن سے بھی ہے لیکن ہدایتکاری کے میدان میں بلا شبہ آپ نے اپنا لوہا خود آپ منوایا۔ اس بات کا ثبوت ان کی کامیاب فلموں کی تعداد ہے۔ پاکستان ڈیٹا بیس کے مطابق ان کی 48 فلمیں نمائش کے لئے پیش ہوئیں جن میں 46 اردو اور 2 پنجابی فلمیں ہیں۔ اگر ہم ان کی فلموں کو باریک بینی سے دیکھیں تو ان کی 11 فلمیں سپر ہٹ ہوئیں اور 15 ہٹ ہوئیں۔

درپن پروڈکشنز کی گولڈن جوبلی ”گلفام“ ( 1961 ) ، علی زیب پروڈکشنز کی گولڈن جوبلی ”آگ“ ( 1967 ) ، فلمساز عرفان ملک کی گولڈن جوبلی ”تیری صورت میری آنکھیں“ ( 1971 ) ، ایس ایف پروڈکشنز کی گولڈن جوبلی ”سبق“ ( 1972 ) ، شمیم آرا پروڈکشنز کی گولڈن جوبلی ”بھول“ ( 1974 ) ، آئی جے برادرز کی ڈائمنڈ جوبلی ”اناڑی“ ( 1975 ) ، کاشف لمیٹڈ کی گولڈن جوبلی ”زینت“ ( 1975 ) ، ایس ایف پروڈکشنز کی ڈائمنڈ جوبلی ”آج اور کل“ ( 1976 ) ، زرین آرٹس کنسرن کی ڈائمنڈ جوبلی ”اف یہ بیویاں“ ( 1977 ) بھٹی پکچرز کی پلاٹینم جوبلی ”منزل“ ( 1981 ) اور خود بحیثیت فلمساز گولڈن جوبلی فلم ”تیرے بنا کیا جینا“ ( 1982 ) ۔

ان کی 15 ہٹ فلمیں :

ایس سلیمان صاحب کی ہٹ فلموں کی تعداد 15 ہے : مہران موویز کی جانب سے حمایت ؔعلی شاعر کی سلور جوبلی ”لوری“ ( 1966 ) ، علی زیب پروڈکشنز کی سلور جوبلی ”جیسے جانتے نہیں“ ( 1969 ) ، پی ایل فلمز کارپوریشن کی جانب سے فلمساز مالا کی سلور جوبلی ”بہاریں پھر بھی آئیں گی“ ( 1969 ) مذکورہ فلم کی موسیقار گلوکارہ مالا کی بڑی بہن شمیم نازلی تھیں، ایس ایف پروڈکشنز کی سلور جوبلی ”بے وفا“ ( 1970 ) ، کاروان موویز کی ”ایک پھول ایک پتھر“ ( 1970 ) ، ایس ایف پروڈکشنز کی سلور جوبلی ”الزام“ ( 1972 ) ، عذرا موویز کی سلور جوبلی ”محبت“ ( 1972 ) ، ایس ایف پروڈکشنز کی سلور جوبلی ”سوسائٹی“ ( 1973 ) ، ایم احمد شمسی کی سلور جوبلی ”انتظار“ ( 1974 ) ، ایس ایف پروڈکشنز کی سلور جوبلی ”مس ہپی“ ( 1974 ) ، ایس ایف پروڈکشنز کی ”شرارت“ ( 1975 ) ، علی انٹرنیشنل فلمز کی سلور جوبلی ”زنجیر“ ( 1975 ) ، زرین آرٹ پروڈکشنز کی ”طلاق“ ( 1976 ) ، ابرار پروڈکشنز کی سلور جوبلی ”آگ اور زندگی“ ( 1978 ) اور قیصر پروڈکشنز کی سلور جوبلی ”لو ان لنڈن“ ( 1987 ) ۔

سلیمان صاحب کی بات ہو اور فلم ”باجی“ کا ذکر نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے! یہ ان کی ایک شاہکار فلم مانی جاتی ہے۔ جاویداں پروڈکشنز کی یہ فلم باکس آفس پر زیادہ کامیاب ثابت نہ ہو سکی۔ حالاں کہ اس میں نیر سلطانہ، درپن، زیبا، لہری، ببو، نیناں، سلمیٰ ممتاز، طالش، ایمی مینوالا، زرین پنا، لڈن، گڈی، اوما دیوی، اور مہمان اداکاروں میں نورجہاں، صبیحہ خانم، سنتوش، یاسمین، لیلیٰ، ترانہ، اعجاز، حبیب، وحید مراد اور مزاحیہ اداکار نذر شامل تھے۔

یہ بڑی کاسٹ کی میوزیکل فلم تھی۔ منظر نامہ اور کہانی انور بٹالوی صاحب کی تھی جن کو اس فلم میں نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔ سال کے بہترین فلم ایڈیٹر کا نگار ایوارڈ بھی اس فلم کے تدوین کار حیدر چوہدری کے حصہ میں آیا۔ بہترین ساؤنڈ ایڈیٹر کا نگار ایوارڈ جناب تاج ملک کو حاصل ہوا۔ موسیقی حقیقی بھائیوں سلیم حسین اور اقبال حسین المعروف سلیم اقبال صاحبان کی تھی۔ مکالمے اور تمام گیت جناب احمد راہی کے تھے۔ احمد راہی بہت کمال کے گیت نگار تھے۔

جتنے خوبصورت وہ پنجابی گیت لکھتے تھے اتنے ہی انہوں نے اردو گیت بھی لکھے ہیں۔ مذکورہ فلم کے پلے بیک سنگر نورجہاں، نسیم بیگم جن کو اس فلم میں سال کے بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ دیا گیا۔ نجمہ نیازی، فریدہ خانم، سلیم رضا، استاد سلامت علی اور استاد نزاکت علی خان تھے۔ عکاسی پرویز اختر صاحب نے کی۔ اس فلم کے گیت ملاحظہ کیجئے : ’اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا‘ آواز میڈم نورجہاں کی۔ یہ گیت نیر سلطانہ پر فلمایا گیا۔

’چند ا توری چاندنی میں جیا جلا جائے رے۔‘ آواز نسیم بیگم۔ یہ ایمی مینوالا پر فلمایا گیا۔ ’دل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچے، بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے‘ آواز نورجہاں، اسکرین پر نیر سلطانہ ہیں۔ ’نہ کوئی وعدہ کیا نہ کوئی کھائی قسم۔‘ پلے بیک سنگر نجمہ نیازی کی آواز اسکرین پر زیبا پر خوب جچی۔ ’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔‘ آواز سلیم رضا۔ یہ گیت درپن پر فلمایا گیا۔ ’سجن لاگے توری لگن من ما۔

‘ آوازیں نورجہاں اور فریدہ خانم۔ یہ کلاسیکی گیت زرین پنا اور ایمی مینوالا کے خوبصورت کلاسیکی رقص کی صورت میں اس فلم کی زینت بنا۔ ’سانوریا ہائے ہائے دیا بڑا دکھ دیو۔‘ آواز نسیم بیگم۔ مذکورہ گیت ایمی مینوالا پر فلمایا گیا۔ کراچی میں اس فلم کا مرکزی سنیما نشاط تھا۔ ہائے! اب اس کا کوئی وجود نہیں رہا۔ بقول حیدر علی آتشؔ: ’مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے‘ ۔

سلیمان صاحب کے نگار ایوارڈ:

ایس ایف پروڈکشنز کی ڈائمنڈ فلم ”آج اور کل“ ( 1976 ) پر انہیں سال کے بہترین ہدایتکار کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔

اس فلم کو مختلف شعبوں میں مزید 6 نگار ایوارڈ ملے۔ جو اگر دیکھا جائے تو سلیمان صاحب کی کاوش تھی: بہترین اسکرپٹ جناب نذیر اجمیری، بہترین اسکرین پلے بشیر نیاز صاحب، بہترین معاون اداکار ( مرد) محمد قوی خان، بہترین گلوکار میڈم نورجہاں، بہترین ساؤنڈ ایڈیٹر جناب اے زیڈ بیگ اور بہترین مزاحیہ اداکار جناب لہری۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ ”ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ“ ( 1998 ) کے بعد سلو بھائی ( سلیمان بھائی کو سب چھوٹے بڑے احترام سے سلو بھائی کہتے ہیں ) چھوٹی اسکرین پر کچھ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اسی لئے جب نجی ٹی وی چینل وجود میں آئے تو انہوں نے 2004 میں عبدا اللہ کادوانی، سلمان نینی تال والا اور ہمایوں سعید کی ٹیلی وژن سیریز ”انا“ کی ہدایات دیں۔ اس کو عوام کی ایک بڑی تعداد نے پسند کیا۔ اس کے بعد ”کچھ دل نے کہا“ ( 2006 ) نامی سیریل کی ہدایات بھی دیں۔ سلو بھائی کے اور بھی قابل عمل منصوبے تھے لیکن تیزی سے بگڑتی ہوئی صحت نے ان کو یہ کام کرنے کی اجازت نہیں دی۔

رواں سال اکتوبر میں جب میر ا لاہور جانا ہوا تو سب سے پہلے میں نے زرین پنا سے فون پر رابطہ کیا۔ اتفاق سے وہ سلو بھائی کے پاس اسپتال میں تھیں۔ دعا سلام کے بعد انہوں نے فون کا اسپیکر کھولا اور کہا کہ لو سلو سے بات کرو۔ میں نے سلام دعا کی۔ وہ ہلکی آواز میں بات چیت کر رہے تھے۔ جب انہیں بتایا کہ میں الیاس رشیدی صاحب کے ”نگار“ سے آیا ہوں تو ان کی آواز میں ایک واضح ”چمک“ محسوس ہوئی۔ پس منظر سے زرین پنا کی آواز سنائی دی کہ لو میاں! یہ تو بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گئے! سلو بھائی کی آواز بھی بدل گئی۔ اب وہ ماشاء اللہ قدرے بلند آواز میں بات کر رہے تھے۔ انہوں نے سنتوش بھائی، درپن بھائی کے الیاس رشیدی صاحب سے تعلقات پر بات کی۔ بہت خوش ہو رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).