مکافات عمل اور قانون دفع


یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے۔ یہ اصول سائنسی طور پر بھی ثابت شدہ ہے اور اس پر تاریخ نے بھی اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ یہ بات جس طرح فرد کے کردار اور اس کے نتائج کے لحاظ سے مبنی بر اہمیت ہے، بالکل اسی طرح اس کا اطلاق اجتماعی اور قومی معاملات پر ہوتا ہے۔ انسان کا یہ ایک آزمودہ تجربہ ہے کہ نہ صرف موذی فرد کو اپنی اذیت رسانی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، بلکہ ظالم ریاست کو بھی ظلم کی تاریکی لے ڈوبتی ہے۔

ظلم تو ظلمات کی شکل میں ظالم کو آخرت میں گھیرے ہی گا، لیکن دنیا میں بھی یہ دیر یا سویر اس کا قافیہ حیات تنگ کرتا ہے اور اس کے لئے وبال جان بن جاتا ہے۔ اگرچہ دانشوران سیاست حیات انسانی کے اس سادہ لیکن عظیم راز کو مختلف پیرایوں میں بیان کرتے آئے ہیں، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ خدا کی قادر مطلق ذات اپنی ربانی منصوبہ بندی کے تحت ظالموں اور جابروں کو وقت مقررہ تک ڈھیل دینے کے بعد کچھ اس طرح سے پکڑتی ہے کہ وہ داستان پارینہ بن جاتے ہیں اور عقل والوں کے لئے نشان عبرت۔

البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانیت کی تاریخ میں پیدا ہو کر اور زور پکڑ کر عروج پانے والے مستبد حکمرانوں نے ان تجربات سے ہوش کے ناخن لینے کے بجائے اپنی ہٹ دھرمی کو جاری رکھا، یہاں تک کہ ان کا بیڑا غرق ہوکے رہا۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر طرح کے ظالم حکمران اس فطری اصول کی زد میں آ کر بلالحاظ مذہب و ملت زوال و ذلت کا شکار ہوئے۔ یہ قانون فطرت اس معاملے میں کسی شخص یا قوم کے لئے کسی قسم کی پاسداری اور رواداری کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ اس طرح سے بین الانسانی تعامل کی پوری اساس منہدم ہوجاتی جس پر انسانیات کی مجموعی بہبود کا انحصار تھا۔

تاریخ عالم کی ورق گردانی سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اگر ایک طرف بنی اسرائیل اپنے کو خدا کے چہیتے کہنے کے باوجود خدا کے اس غضب سے نہ بچ سکے جو اسیریائی سارگوں ( 721 ق۔ م۔ ) یا بابلی بخت نصر ( 587 ق۔ م۔ ) وغیرہ کے ہاتھوں ظاہر ہوا، تو دوسری طرف دنیائے عیسائیت بھی نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کی تیغ بلاخیز کا شکار ہوئی جب وہ یورپ سے نکل نکل کر مشرق وسطٰی میں مجتمع ہو کر مسلمانوں کو کچلنے پر تل گئی۔

اس قانون قدرت نے مسلمانوں کا پاس و لحاظ بھی نہیں کیا جب انہوں نے ”خیرامت“ کے الہی خطاب کو ایک ماروثی لقب سمجھ کر اس سے جڑی عظیم ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھ کر طاؤس و رباب میں ہی اپنی عافیت محسوس کی! اس وقت ان پر چنگیز اور ہلاکو کی ہلاکت خیز شمشیریں کچھ اس طرح گریں کہ صدیوں سے ارتقاء پذیر اسلامی تہذیب ایک ایسے جمود کا شکار ہوئی جس سے یہ آج تک جانبر نہ ہو سکی۔

قرآن نے قوموں کے اسی عروج و زوال اور سیاسی و معاشرتی تغیر و تبدل کو ایک ابدی اور اٹل قانون کے طور پر پیش کیا ہے اور اس بات کو واضح کیا ہے کہ ترقی و تنزل کے ان ایام کو لوگوں کے درمیان ادلا بدلا جاتا ہے (قرآن، 3 : 140 ) ۔ قرآن ہی کی رو سے اس بدلاو کو اس ”قانون دفع“ کے ذریعے بروئے کار لایا جاتا ہے جس کو رب کائنات نے انسانیت کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے وضع کیا ہے (قرآن، 2 : 251 اور 22 : 40 ) ۔

بر صغیر میں بھی اس قانون کے تحت ہونے والی کئی تبدیلیوں کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک جھلک کشمیر کے آخری چک سلاطین اور مغلوں کی کشمکش اور ان کے ملتے جلتے خاتمے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اکبر، جو مغل استعمار کی توسیع پسندی کو بڑی زیرکی اور ہوشمندی سے دوام بخشنے میں کامیاب ہوا، نے کشمیر پر اپنا تسلط جمانے کے لئے ایک دیرپا حکمت عملی ترتیب دی۔ کئی ناکام کوششوں کے بعد اکبر نے یہ مہم مرزا شاہ رخ، راجا بھگوان داس اور شاہ قلی محرم کے سپرد کی۔

بقول شکا پنڈٹ، یوسف شاہ چک اپنی عیش پسند طبیعت کے آگے بے بس ہوا۔ تاہم اپنے بہادر وزیروں اور مشیروں کی ہمت دیکھ کر مغلوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوا۔ کشمیریوں کو اگرچہ ابتدائی کامیابی ہوئی، لیکن راجا بھگوان داس کی یقین دہانی پر کان دھر کر یوسف دربار اکبری میں حاضری کے لئے تیار ہوا۔ اگرچہ معاہدے کی رو سے یوسف کو دربار میں حاضری کے بعد تخت کشمیر پر پھر سے متمکن ہونا تھا، لیکن مغل شہنشاہ نے معاہدے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے یوسف کو قید کیا۔ راجا بھگوان داس کی خود سوزی کی کوشش، جو اس نے اکبر کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی دیکھ کر کی، بھی شہنشاہ کو یوسف کی کشمیر واپسی پر مائل نہ کرسکی۔ ظاہرا”یوسف کو رہا کیا گیا، لیکن اصلا“ اسے ذلیل کر کے بسواک (بہار) کی تپتی دھوپ کی نذر کیا گیا، جہاں وہ دماغی توازن کھوکر 1592 ء میں فوت ہوا۔

ادھر حبہ خاتون یوسف کے فراق میں اپنے درد دل کا اظہار ”لول نغموں“ کے ذریعے کرتی رہی اور اپنے محبوب کی موسیقی کی دلدادہ طبیعت کو محبت کا خراج پیش کرتی رہی۔ حبہ خاتون کی آہیں آج بھی کشمیریوں کی اجتماعی بے بسی کو بیان کررہی ہیں :

ژہ کمیو سونہ میانہ برم دتھ نیونکھو
ژہ کہیو زہ گئیو میآنی دئی
(آپ کو میری کس سوکن نے دھوکے سے پھنسا کر مجھ سے دور کیا؛ آپ کو کیوں کر مجھ سے نفرت ہوئی؟ )

دوسری طرف یوسف کے فرزند، یعقوب شاہ چک مغل استعمار کو نہایت ہمت اور حوصلے کے ساتھ کاری ضربیں لگاتا رہا اور کشمیر کی خود مختاری کی 1588 ء تک محافظت کرتا رہا۔ بالآخر یعقوب اپنوں کی جفا کے ساتھ ساتھ مغلوں کی سخت گیر استعماری ذہنیت کا شکار ہوا۔ نتیجتاً اس کو بھی بسواک منتقل کیا گیا، جہاں وہ 1593 ء میں فوت ہوا۔ اس طرح بسواک کشمیر عظمی کے آخری بادشاہوں کا دیار غیر میں مدفن بنا جو آج بھی کشمیری چک کہلاتا ہے۔ سرزمین ہند میں کشمیریوں کی امنگوں کے اس پہلے قبرستان کی داستان پروفیسر محب الحسن نے اپنی تصنیف ”کشمیر انڈر دی سلطانز“ میں بیان کی ہے! بشارت پیر نے بھی بے بسی کی اس کہانی کو ”دی کرفیوڈ نائٹ“ میں تفصیلاً پیش کیا ہے۔

شاہان کشمیر کے اس انجام کو دیکھ کر کسی کے حاشۂ خیال تک میں یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ اکبر کے جانشینوں کا اس سے زیادہ عبرتناک حشر ہوگا۔ 1857 ء میں مغل تخت کو بچانے کی آخری کوشش، جس کو غدر یا ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کہا جاتا ہے، کی گئی۔ انگریزوں نے میدان مار لیا۔ مغل شہزادے چن چن کر قتل کیے گیے۔ مغل شہزادیاں بھکارنوں کا روپ دھارکر اپنا ناموس بچارہی تھیں۔ بہادر شاہ ظفر کو رنگون (برما ’میانمار) منتقل کیا گیا۔ ظفر بھی یوسف کی طرح فنون لطیفہ (شاعری) کا دلدادہ تھا۔ ظفر کے یہ اشعار ”مکافات عمل“ کے اس اٹل قانون پر خوب روشنی ڈالتے ہیں :

لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
بلبل کو پاسباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمیں بھی مل نہ سکی کوئے یار میں

تاریخ کی ورق گردانی سے اس نوع کے لا تعداد واقعات صفحہ قرطاس پر لائے جا سکتے ہیں، جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ”مکافات عمل“ کا یہ اٹل قانون انسانیت کی تاریخ کی تشکیل نو کرتا رہتا ہے۔ اس لئے مجبور محکوموں کے ساتھ ساتھ جابر حاکموں کو بھی اللہ تعالٰی کے ”قانون دفع“ کا ہمیشہ خیال رکھ کے اپنے حدود کا احساس رکھنا چاہیے کیوں کہ شہر خموشاں مظلوموں کے ساتھ ساتھ ظالموں کا بھی ابدی مسکن ہوتا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).