دو فقیر، درد ایک


سندھ میں ہیجڑے کو فقیر کہتے ہیں۔ عام طور پر فقیر بھیک مانگنے والے کو کہا جاتا ہے، مگر سندھ میں فقیر کا ایک اور معنیٰ بھی ہے، جو بزرگ کے زمرے میں آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فقیر کی بددعا نہیں لی جاتی، ہمیشہ دعائیں لی جاتی ہیں۔

میں آج آپ سے دو ہیجڑے فقیروں کا ذکر کروں گا۔ ایک دیہات میں اور دوسرا شہر میں رہتا تھا۔ یہ بھی دیگر ہیجڑوں کی طرح مانگ کر، شادی بیاہ اور بچوں کی پیدائش پر گانا بجانا کر کے چار پیسے جوڑ کر گزر بسر کرتے تھے۔

گاؤں اور شہر میں رہنے کے باوجود دونوں کی زندگی میں یکسانیت تھی۔ دونوں ہی خاندان کے ایک جیسے رویوں کا شکار تھے اور دونوں ہی کو سماج ایک ہی طرح کی نظر سے دیکھتا۔

گاؤں میں رہنے والے ہیجڑے کا نام حسین تھا، مگر خواتین، مرد اور بچے سب اسے ماما حسین کہہ کر بلاتے، اپنی برادری کا رکھا نام کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ گاؤں کا شاید ہی کوئی گھر تھا جو اسے نا جانتا ہو۔ اس کا ہر گھر میں تواتر سے آنا جانا تھا۔ روزانہ صبح کو بغل میں ایک ٹوٹری دبائے گھر گھر آٹا مانگنے نکل پڑتا۔ جس بھی گھر میں جاتا وہاں سکھ، دکھ، غم اور خوشی سمیت حال احوال لینا نا بھولتا۔ سبھی گھر کے فرد کی طرح اس کے ساتھ پیش آتے۔

اس اپنے پن کے باوجود وہ دکھی تھا۔ اپنوں کا دکھ، اپنوں کے ناروا سلوک کا دکھ۔ وہ مانگ کر، ناچ گا کر روپیہ روپیہ جمع کرتا۔ جسے بھائی، بہنیں اور ان کے بچے چھین لیتے یہاں تک کہ گھر کے تمام اخراجات اٹھانے کے باوجود مارپیٹ بھی کی جاتی۔ وہ گھر میں روتا مگر کبھی گھر چھوڑنے کا نہیں سوچا۔ کبھی کبھی شکوہ کرتا مگر پھر خود ہی کہتا

” کچھ بھی ہو، ہیں تو اپنے نا، اپنے تو مار کر بھی چھاؤں میں رکھیں گے۔“

شہر میں رہنے والا ہیجڑا میرا پڑوسی تھا۔ اس کا نام میں نہیں جانتا اور نہ کبھی جاننے کی ضرورت محسوس ہوئی، سب اسے فقیر کہہ کر بلاتے تھے میں بھی اسی نام سے مخاطب ہوتا۔

فقیر بہت ہی مہربان تھا، کئی بار گھر سے کھانا کھلاتا، گپ شپ کرتا اور مشکل وقت میں پیسے بھی ادھار دیتا۔

اس کا واحد رشتہ دار بھتیجا تھا۔ جو نشے کی لت کی وجہ سے چوری چکاری کرتا اور پکڑے جانے پر فقیر اس کی ضمانت کروانے کے ساتھ جرمانے بھی ادا کرتا۔ بھتیجے کے پاس جب کبھی نشے کے لئے پھوٹی کوڑی نا ہوتی تو فقیر کو تشدد کا نشانہ بھی بناتا۔ ایک رات سوتے میں دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوا، پیسے مانگے۔ نہ ملنے پر فقیر کو مار مار کر ادھ مرا کیا اور گھر میں جو کچھ ملا وہ لے کر بھاگ نکلا۔

فقیر رات بھر کراہتا رہا، ہاتھ پیر ٹوٹ چکے تھے۔ دن کو اسے اسپتال لے گئے۔ کچھ مہینوں بعد وہ دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا۔ ایک دن سڑک پر ملا، سلام دعا ہوئی۔ خود ہی کہنے لگا ”آج بھتیجا مہینوں بعد ملا۔ بے چارے کو نشے نے تباہ کر دیا۔ اس کا علاج کروانا ہے۔“

فقیر نے غالباً پانچویں بار اس کو علاج کے لئے نشے کی لت چھڑوانے والے سینٹر میں داخل کروایا۔ مگر ہمیشہ کی طرح وہ پھر اسی ڈگر پر چل نکلا۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا اور پھر دونوں ہیجڑے فقیر بوڑھے ہو گئے، چلنا پھر رک گیا، مانگنے کے لئے گھر گھر جانے سے قاصر اور ناچ گانے سے بھی محروم ہو گئے۔

جو پہلے اکیلا گھر کا بوجھ اٹھاتا تھا، اب کنبے کے سارے افراد مل کر بھی لاغر ماما حسین کا بوجھ نہیں اٹھا سکے۔

ایک دن دونوں سسک سسک کر مر گئے۔ رات کے اندھیرے میں جنازے اٹھے اور میتوں کو منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا۔ آج ان کا کوئی یاد نہیں کرتا۔ کون یاد رکھے گا، اپنے تو اسے پہلے ہی بھلا چکے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).