انڈین ریاست اتر پردیش میں تبدیلی مذہب کے خلاف نیا آرڈیننس آتے ہی ’لو جہاد‘ کے مقدمے


انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں تبدیلی مذہب کے خلاف آرڈیننس نافذ ہوتے ہی اس معاملے میں مقدمات درج ہونے لگے ہیں لیکن ان میں سے بہت سے معاملات پر سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں۔

اس آرڈیننس کے تحت ریاست کا پہلا مقدمہ ضلع بریلی میں درج کیا گیا تھا جس میں پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے ایک ہفتہ کے اندر جیل بھی بھیج دیا تھا۔

لیکن اسی ضلع میں ایک ہفتے کے بعد جب ایک لڑکی کے اہل خانہ نے ایف آئی آر درج کروائی تو پولیس نے نئے آرڈیننس کی دفعات کے تحت یہ کیس درج کرنے سے انکار کر دیا۔

تاہم اسی طرح کے ایک معاملے میں اس آرڈیننس کی دفعات کے تحت بریلی کے قریبی ضلع مراد آباد میں ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اس کیس میں کی جانے والی کارروائی کے بارے میں سوالات پوچھے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں ’محبت کے اصول‘ توڑنے والوں کے لیے نیا قانون باعثِ خطرہ

’لو جہاد‘ قانون کا پہلا شکار: ’میں بے گناہ ہوں، لڑکی سے کوئی تعلق نہیں‘

انڈیا لو پراجیکٹ: ’ممنوع‘ شادیوں کی داستانیں سنانے والا انسٹاگرام اکاؤنٹ

بریلی کا کیس

بریلی ضلع کے پریم نگر پولیس سٹیشن کی حدود میں رہنے والے شاہد میاں نے پانچ دسمبر کو ایف آئی آر درج کروائی کہ ان کی 22 سالہ بیٹی کو تین افراد نے اغوا کر لیا ہے۔

انھوں نے سدھارتھ سکسینہ عرف امن، ان کی بہن چنچل اور فرم کے ایک مالک منوج کمار سکسینا کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ شاہد میاں کی بیٹی چنچل منوج کمار سکسینا کی فرم میں کام کرتی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شاہد میاں نے کہا کہ ’یکم دسمبر کو ہماری بیٹی بینک سے پیسے نکلوانے گئی تھی اور اس کے بعد واپس نہیں آئی اور بعدازاں اس کا فون بھی بند تھا۔ پھر ہم نے پانچ دسمبر کو پریم نگر پولیس سٹیشن میں درخواست دی کہ منوج اور امن نے ہماری بیٹی کو اغوا کر لیا ہے۔ اگلے ہی دن پولیس نے لڑکی کو بازیاب تو کر لیا لیکن نہ تو ہم لوگوں سے اس کی بات کروائی اور نہ ہی ملنے کی اجازت دی گئی۔ ہمیں ڈر ہے کہ اس کے ساتھ کچھ ہو نہ جائے۔‘

اس معاملے میں بریلی کے ایس پی رویندر کمار کا کہنا ہے کہ لڑکی نے خود یہ کہا ہے کہ وہ اسی لڑکے کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔

رویندر کمار کہتے ہیں کہ ’پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے اگلے ہی دن لڑکی کو بازیاب کروا لیا تھا، لڑکی کے طبی معائنے کے بعد اس کا بیان عدالت میں درج کیا گیا۔ لڑکا اور لڑکی دونوں بالغ ہیں اور لڑکی نے عدالت میں لڑکے کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد عدالت نے لڑکی کو امن کے ساتھ اس کے گھر بھیج دیا۔ وہاں تبدیلِی مذہب جیسی کوئی بات نہیں ہے۔’

پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس نے 29 ستمبر کو آریہ سماج کے مندر میں امن سے شادی کی تھی اور اس نے یہ معلومات اپنے گھر والوں سے چھپا رکھی تھیں۔ لڑکی کے پاس شادی کے دستاویزات بھی تھے۔

پولیس نے یہ مقدمہ نئے آرڈیننس کے تحت درج نہیں کیا ہے کیونکہ پولیس کے مطابق لڑکی کہ گھر والوں نے شکایت میں یہ نہیں بتایا کہ لڑکی کے مذہب کو تبدیل کر دیا گیا ہے جبکہ لڑکی کے والد شاہد میاں نے کہا ہے کہ انھوں نے نئے قانون کے تحت ہی کیس درج کروایا تھا لیکن پولیس نے اپنے حساب سے کیس بنایا اور ہماری ایک بات نہیں سنی۔

لڑکی کی والدہ چاندنی کا کہنا ہے کہ ’یکم دسمبر کو ان کی بیٹی اپنے کام پر پیسے لینے گئی تھی۔ جب وہ واپس نہیں آئی تو ہم نے کمپنی کے مالک منوج کمار سکسینا سے پوچھ گچھ کی۔ انھوں نے کہا کہ آپ کسی کو نہیں بتائیں ہم لڑکی کو آپ سے ملوا دیں گے۔ لیکن دو تین دن کے بعد انھوں نے اس کا فون بھی بند کر دیا پھر ہم نے پولیس میں شکایت درج کروائی۔ لڑکی پولیس والوں کے سامنے بہت رو رہی تھی اور ہمارے ساتھ جانے کو تیار تھی لیکن پولیس اہلکار نے اسے ہمارے ساتھ نہیں آنے دیا۔’

مراد آباد کا معاملہ

اسی طرح کے ایک اور معاملے میں اتوار کے روز 22 سالہ نوجوان راشد علی کو مراد آباد ضلع میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ شادی کا اندراج کرنے جا رہے تھے۔

راشد کے ساتھ ان کے بھائی سلیم کو بھی گرفتار کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی کے گھر والوں نے شکایت درج کروائی تھی کہ راشد نے زبردستی مذہب تبدیل کروا کر ان کی بیٹی سے شادی کر لی ہے۔

لیکن نامہ نگاروں سے بات چیت میں لڑکی نے واضح طور پر کہا تھا کہ اس نے راشد سے 24 جولائی کو شادی کی تھی اور اب وہ اس شادی کو رجسٹر کروانے جا رہی تھیں۔

مراد آباد کے پولیس سپرنٹنڈنٹ پربھاکر چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لڑکی کی والدہ نے الزام لگایا ہے کہ راشد نے ان کی بیٹی سے دھوکہ دے کر شادی کی ہے اور اس کا مذہب تبدیل کروا دیا ہے۔ ان کی شکایت کی بنیاد پر مقدمہ درج کر کے راشد اور ان کے بھائی کو گرفتار کیا گیا اور پولیس تحفظ میں لڑکی کو اس کی والدہ کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔

دراصل بجنور کی رہائشی یہ لڑکی دہرادون میں تعلیم حاصل کر رہی تھی اور اس کی ملاقات راشد سے ہوئی جو ضلع مراد آباد کے رہنے والا تھا۔

لڑکی کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے پہلے ہی شادی کر لی تھی اور اب شادی رجسٹر کروانے آئے تھے۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ ہندو شدت پسند تنظیم بجرنگ دل کے کچھ لوگوں نے اس معاملے میں بہت ہنگامہ برپا کیا اور پولیس پر دباؤ ڈالا کہ وہ غیر قانونی تبدیلِی مذہب کے آرڈیننس کی دفعات کے تحت یہ معاملہ درج کر کے ملزم کو گرفتار کریں۔

اس دباؤ کی وجہ سے یہ کارروائی عجلت میں کی گئی۔ تاہم پولیس نے کہا کہ لڑکی کی والدہ کی شکایت پر ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے۔

بریلی اور مراد آباد کے ان دونوں واقعات میں لڑکی کی جانب سے کوئی شکایت نہیں کی گئی بلکہ ان کے گھر والوں نے شکایت درج کروائی۔

لیکن ایک معاملے میں پولیس نے لڑکی کے بیان کی بنیاد پر اس کے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی جبکہ دوسرے معاملے میں لڑکی کے اعتراف کے باوجود کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے لڑکے کو گرفتار کر لیا گیا۔

دونوں معاملات کے حوالے سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں کیونکہ بریلی میں ملزم ہندو ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ مراد آباد کیس میں ملزم کو فوراً ہی گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا کیونکہ وہ مسلمان ہے۔

یہ بھی ایک سوال ہے کہ اس معاملے میں نہ تو لڑکی اور نہ ہی لڑکے کی کوئی شنوائی ہوئی ہے جبکہ دونوں ہی بالغ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp