نریندر مودی: ڈاکٹر صاحب بہتر جانتے ہیں!


بچپن میں کسی رسالے میں ایک لطیفہ پڑھا تھاجو اب حقیقت کی طرح عیاں ہے، اس وقت اس لطیفے سے زیادہ ہنسی نہیں آئی تھی اور بہت بے کار لطیفہ سمجھا تھا اس لطیفے کے اسی پہلو نے اس لطیفے کو میرے ذہن میں تازہ رکھا۔ سوچتا تھا کہ ڈاکٹر اور عوام کیسے اتنے بے وقوف ہوسکتے ہیں، میں ہر چیز میں امکان کا پہلو تلاش کرتا ہوں، ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں، یہ لطیفہ میرے امکان کے پہلو سے کوسوں دور تھا اس لئے میں اس لئے اس پر زیادہ ہنسی نہیں آئی تھی لیکن گزشتہ چھ برسوں کا عرصہ نے مجھے اس لطیفہ پر نہ صرف ہنسنے پر مجبور کر دیا بلکہ اس میں امکان کا پہلو بھی بدیہی طور پر اور سورج کی طرح سچ دیکھا اور صرف دیکھا ہی نہیں ہے بلکہ اس پر شدت سے عمل ہوتے دیکھا ہے۔

لطیفہ ہوبہو تو یاد نہیں ہے لیکن اس میں کیا تھا وہ اچھی طرح یاد ہے۔ لطیفہ کچھ یوں تھا کہ ”ایک درانتی (بہار میں کچھ علاقہ میں اسے کچھیا بولتے ہیں جس سے دھان گیہوں اور گھاس پھوس کاٹا جاتا ہے ) بہت گرم (دھوپ رکھے ہونے کی وجہ سے) ہو گیا تھا تو دیہاتی اسے گاؤں کے ڈاکٹر کے لے گیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب اسے بخار ہو گیا ہے اس کا علاج کردیجئے، ڈاکٹر نے اسے رسی سے باندھی اور اسے کنویں میں ڈال کر نکال لیا اور کہا کہ لو اس کا علاج ہو گیا، دیہاتی درانتی کو ٹھنڈا پاکر خوش ہوا اور چلا گیا کچھ عرصے کے بعد اس کے گھر میں کسی شخص کو بخار ہو گیا تو اس دیہاتی نے وہی ڈاکٹر کا طریقہ اپنایا اسے رسی سے باندھ کر کنویں میں ڈال کر نکال لیا، ٹھنڈ کی وجہ سے وہ اکڑ گیا اور بیہوش ہو گیا، دیہاتی نے جب دیکھا کہ وہ کچھ بول نہیں ہو رہا ہے اور آنکھ بھی بند ہے تو ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور ڈاکٹر نے کہا اس کی موت ہو گئی، دیہاتی اس کے کریا کرم کرنے کے لئے اسے ارتھی پر لٹا کر رام نام ستیہ ہے بولتے ہوئے شمشان گھاٹ لے جانے لگے، تو راستے میں اسے ہوش آ گیا اور کہا کہ میں زندہ ہوں مجھے کہاں لے جا رہے ہو، دیہاتیوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے کہ تم مر چکے ہو اس لئے تمہارا انتم سنسکار کرنے جا رہے ہیں، لیکن اس نے میں تو زندہ ہوں، تو دیہاتیوں نے کہ چپ بے، تو زیادہ جانتا ہے یا ڈاکٹر صاحب“

گزشتہ چھ برسوں کے حالات دیکھیں تو اسی لطیفہ کے ارد گرد نظر آتے ہیں۔ پوری دنیا چیخ رہی ہے ملک کے ہر طرح کے حالات بہت خراب ہیں لیکن حکومت اور عوام کا ایک بڑا طبقہ ماننے کے لئے تیار نہیں اور مخالفین سے یہی بات کہی جاتی ہے کہ تو ڈاکٹر صاحب زیادہ جانتے ہیں۔ ملک کی معیشت منفی تقریباً 24 فیصد نیچے چلی گئی ہے لیکن ’سب کچھ چنگا سی‘ ۔ تمام عالمی اداروں میں ہماری رینکنگ شرمندگی کی حد تک گرچکی ہے لیکن اکثریت کو اس کا احساس نہیں ہے اور اہل تکثیر کا یہی کہنا ہے کہ ڈاکٹر زیادہ جانتے ہیں۔

باقی سب پروپیگنڈا ہے۔ اسی نظریہ نے ملک کو بین الاقوامی سطح پر ذلیل و خوار کیا ہے اور ملک کی وہ عزت نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی لیکن ہمارے اہل وطن ڈاکٹر صاحب کو بھگوان مانتے ہیں۔ وہ ہر موضوع پر بھاشن (تقریر) جھاڑتے ہیں حالانکہ اس موضوع پر انہیں اے بی سی معلوم نہیں ہوتا لیکن یہاں کے لوگ انہیں سب سے بڑا گیانی (عالم) مانتے ہیں۔ ادب و احترام یہ عالم ہے کہ ان کے کہنے پر کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں، پڑھا لکھا کیا، جاہل کیا، استاذ کیا، پروفیسر کیا، ڈاکٹر کیا انجیئر کیا، آئی اے ایس افسر کیا، آئی پی ایس افسر، آئی ایف ایس کیا، سیاست داں کیا، وکیل کیا، جج کیا، نچلی عدالت کیا اونچی عدالت کیا سب ان کے آرزو کو پورا کرنے کے لئے سجدہ ریز ہے۔

سارا سسٹم ان کے عزم کی تکمیل کے لئے آئین و قانون کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن، ای ڈی، سی بی آئی، آئی بی، انکم ٹیکس، این آئی آئے اور این سی بی ان کے اشارے پر رقص کرنے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ اشارے کے بغیر محض منشا سمجھ کر ان کے مخالفین چڑھ دوڑتے ہیں جیسا کہ محاذ جنگ پر دشمنوں سے لڑتے ہیں۔ کیوں کہ صاحب ایسے ہی ڈاکٹر ہیں جو زندہ کو مردہ قرار دیتے ہیں اور پوری قوم سرخم تسلیم کرلیتی ہیں۔ دنیا چیختی رہی ہے کہ وہ مرا نہیں ہے زندہ ہے لیکن چوں کہ ڈاکٹر صاحب نے کہہ دیا ہے اس لئے میں نفی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پورا ملک اسی طرح کے حالات کی زد میں ہے اور ماہرین کا طبقہ کچھ بھی کہے لیکن کوئی اسے ماننے کے لئے تیار نہیں کیوں کہ ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے۔

گزشتہ چھ برسوں کے ڈاکٹر صاحب کے کارنامے دیکھیں تو پوری طرح اڑیل رویے، کسی کے جذبات و خیالات کو نظر انداز کرنے کی فطرت، عوام کی بات نہ سننا اور اپنے طے کیے گئے نظریہ کو عوام پر تھوپنے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ مسلم خواتین پر ظلم روکنے کے نام پر تین طلاق پر متعدد بار آرڈی نینس لے کر آئے، جب کہ پورے ملک کی مسلم خواتین نے پوری شدت سے احتجاج کیا اور پوری شدت کے ساتھ انسداد تین طلاق آرڈی نینس کی مخالت کی تھی۔

مسلمانوں کی عائلی تنظیم مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس کی مخالفت کی اور اس کی خواتین ونگ میں پورے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکلیں، اس آرڈی نینس کے خلاف احتجاج اور کہا کہ وہ ہمارے حق میں نہیں ہے اور اس سے ہمارا گھر تباہ ہو جائے گا۔ تمام ماہرین قانون نے حکومت کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ اس سے معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔ جے پور میں ہی مسلم خواتین اس کے خلاف چھ تا سات کلو میٹر لمبی ریلی نکالی تھی اور چار سے پانچھ لاکھ خواتین نے جمع ہو کر اس آرڈی نینس کے خلاف مظاہرہ کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس آرڈی نینس کو واپس لے لیکن حکومت نے ان تمام لوگوں اور مسلم خواتین کے احتجاج کو نظر اندا ز کرتے ہوئے انسداد تین طلاق قانون پارلیمنٹ سے پاس کرایا اور صدر نے بھی آناً فاناً اس پر دستخط کردئے۔ کیوں کہ ڈاکٹر زیادہ جانتے ہیں۔

اسی طرح گزشتہ سال پانچ اگست ( 2019 ) کو پورے کشمیرمیں فوج اور نیم فوجی دستہ کو تعینات کر کے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے ختم کر دیا۔ اسے اسمبلی سے منظوری لینی ضروری تھی لیکن چوں کہ ڈاکٹر صاحب زیادہ جانتے ہیں اس لئے اس نے بھی کسی کی بھی بات نہیں سنی اور نہ اسے ضروری سمجھا۔ بغیر کسی سے مشورہ کیے اور کشمیریوں سے پوچھے بغیر تکثیری جمہوریت کے دم پر پارلیمنٹ میں دفعہ 370 اور 35 کی تنسیخ کا قانون پاس کر دیا اور دلیل دی کہ یہ سب کشمیریوں کو ترقی اور حقوق و اختیارات دینے کے لئے کیا گیا ہے۔

جب کہ 80 فیصد کشمیر دیگر ریاستوں کے معاملات کے مقابلے بہتر صورت تھا اور کشمیریوں نے اس تنسیخ کو ان کے حق پر شب خون مارنے اوران کے اختیارات پر ڈاکہ زنی سے تعبیر کیا تھا اور ایک سال تک کشمیر بند رہا۔ امن و قانون کے نام پر کشمیریوں کے تمام راستے مسدود کردئے گئے، ہوائی سفر، زمینی سفر، ٹرین تمام چیزیں بند کردی گئی ہیں، راہل گاندھی سمیت اپوزیشن لیڈر کو وہاں جانے سے روک دیا گیا۔ تمام بڑے رہنماؤں کو نظر بند یا جیل میں ڈال دیا گیا۔

کشمیری نوجوانوں کی بے تحاشا گرفتاریاں ہوئیں۔ ایک سال کے اندر کشمیری معیشت کو 40 ہزار سے زائد کا نقصان ہوا۔ لاکھوں طلبہ مقابلہ جاتی اور دیگر امتحانات میں شرکت سے محروم ہو گئے لیکن اس کے باوجود کہا گیا کہ کشمیر دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ زمین چھیننے اور تمام اختیارات سلب کرنے کی نیت سے کیے گئے اس فیصلے نے کشمیر کی تمام چیزوں کو بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ ہندوستان کی ساکھ پر سخت دھبہ لگا اور پور ی دنیا میں رسوائی ہوئی لیکن ڈاکٹر صاحب زیادہ جانتے ہیں۔

گزشتہ سال 12 دسمبر کو قومی شہریت (ترمیمی) قا نون پاس کروایا گیا اور اس کے خلاف پورے ملک کے مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ تین مہینے سے زائد شاہین باغ تحریک چلی اور اسی طرز پر ملک میں کم و بیش چھ سو سے زائد جگہ خواتین کی تحریک چلی، ہزاروں ریلیاں ہوئیں ماہرین قانون نے بنیادی قانون اور بنیادی حقوق کے خلاف بتایا لیکن ڈاکٹر صاحب یہی کہتے رہے کہ یہ مسلمانوں کے حق میں ہے اور مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے۔ شہریت دینے کے لئے شہریت لینے کے لئے نہیں ہے۔ نوٹ کی منسوخی اور جی ایس ٹی بھی ڈاکٹر صاحب کے ایسے ہی کارناموں میں شامل ہے۔

اسی طرح گزشتہ 20 ستمبر سے کسان تین زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ پنجاب میں ریل روکو تحریک چلی، سڑک جام ہوئے اور احتجاج کے تمام طریقے اپنائے گئے۔ ڈاکٹر صاحب عالمی وبا کورونا کے دوران خاموشی سے جون میں تین زرعی آرڈی نینس لے آئے۔ جن کے لئے یہ قانون لے کر آئے تھے یعنی کسان ان سے کوئی صلاح و مشورہ تک نہیں کیا گیا۔ ان کے ساتھ کوئی میٹنگ نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کی تنظیم کے ساتھ کوئی تبادلہ خیال کیا گیا اور بالآخر ان تین زرعی قوانین کو پہلے لوک سبھا اور پھر راجیہ سبھا زبردستی، بزرو طاقت اور ضابطے کو طاق پر رکھتے ہوئے پاس کروا لیا۔

اب ڈاکٹر صاحب اس پر بضد ہیں کہ یہ قوانین کے کسانوں کے مفاد میں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کسانوں کو قانون کی سمجھ نہیں ہے، انہیں بہکایا جا رہا ہے، انہیں ورغلایا جا رہا ہے، ان زرعی قوانین سے کسانوں کی آمدنی میں بے تحاشا اضافہ ہو جائے گا، وہ خود کفیل ہوجائیں گے، انہیں اپنا اناج منڈی کے باہر اپنی مرضی سے فروخت کرنے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔ کسانوں نے کہا کہ منڈی سے باہر فروخت کرنے کا اختیار اب بھی ان کے پاس ہے اور جہاں منڈی نظام نہیں ہے وہاں سے اپنی مرضی سے ہی کسان اناج فروخت کرتے ہیں اور وہ بنیوں اور ساہوکاروں کے ہاتھوں کم ازکم سہارا قیمت سے آدھے داموں پر اناج فروخت کرنے مجبور ہوتے ہیں۔

بنیے اور ساہوکار اپنی مرضی کے حساب سے اناج کی قیمت طے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کسانوں کو اناج فروخت کرنے کے اختیار دینے سے یہی مطلب ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں دیگر صوبوں کے کسانوں سے بیدار ہیں اور وہ حکومت کی ہر چال سے واقف ہیں اس لئے انہوں نے گزشتہ 20 ستمبر سے احتجاج کر رہے ہیں اور جب حکومت نے کوئی سدھ نہیں لی تو وہ دہلی کوچ کرنے پر مجبور ہوئے اور اس وقت دہلی ہریانہ اور اترپردیش دہلی کے بارڈر جمے ہوئے ہیں۔

حکومت کے ساتھ پانچ دور کی میٹنگ ہو چکی ہے لیکن یہ بات اب تک ناکام ثابت ہوئی ہے اور حکومت بہت کچھ کسانوں کے حق میں کرتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ حکومت کی منشا کسانوں کو تھکادینے کی ہے جس طرح اس نے شاہین تحریک کو تھکادینے کی چال چلی تھی۔ وہ کورونا کی وجہ سے اس تحریک کو ملتوی کرنا پڑا تھا لیکن کسان اپنا راشن پانی اور ضروریات کے تمام سامان لے کر آئے ہیں اور اس عزم کے ساتھ آئے ہیں کہ اگر چھ ماہ بھی یہاں رکنا پڑے تو وہ رکیں گے۔

ڈاکٹر صاحب کے اشارے پر میڈیا نے پہلے کسان کی تحریک کو بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کی اور پہلے اسے خالصتانی کہا، پھر ٹکڑے ٹکڑے گینگ قرار دیا، پھر اسے بچولیا کہا، پھر اسے ملک کے غدار سے تعبیرکیا، جہادی اور پاکستان اور چین کے اشارے احتجاج کرنے والا کہا اور دیگر غلط پروپیگنڈا کے ساتھ اسے ملک کو توڑنے والا قرار دیا لیکن کسانوں نے یہ ثابت کر دیا یہ مسلمانوں کی تحریک نہیں ہے جس طرح چاہو گے بدنام کرلوگے۔ تمہارا پالا کسان اور سکھ قوم سے پڑا ہے اور اپنا حساب بے باق کرنا بخوبی جانتی ہے۔

اسی خوف نے حکومت کو بات چیت کرنے پر مجبور کر دیا لیکن حکومت کی نیت صاف نہیں ہے اور کسانوں کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد وہ بات چیت کا ڈھونگ کر رہی ہے لیکن حکومت کسی طرح بھی ان تین زرعی قوانین کو واپس لینے پر آمادہ نظر نہیں آ رہی ہے بلکہ ان میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ اس لئے وہ طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنارہی ہے لیکن کسان بھی حکومت کے منشا کو خوب جانتے ہیں اس لئے وہ بھی حکومت کے کسی جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔

تین زرعی قوانین سے کسانوں سے کھیتی چھن جائے گی اور خاص طور پر چھوٹے کسان اور بٹائی دار جو محنت کر کے اپنے بچوں کو پرورش کرتے ہیں ان کی روزی روٹی چھن جائے گی۔ کھیتی باڑی پر کارپوریٹ کا قبضہ ہو جائے گا اور پھر وہ اپنے حساب سے اناج فروخت کریں گے اور دام طے کریں گے جو غریبوں کے بس سے باہر کی بات ہوگی۔ حکومت نے اب تک سارے کام کارپوریٹ کے مفادمیں کیے ہیں اور یہ زرعی قوانین بھی کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے منظور کیے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).