جبری تبدیلی مذہب سے تحفظ پر نیشنل کانفرنس کا انعقاد



لاہور: انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے ادارہ برائے سماجی انصاف (سی ایس جے ) اور پیپلز کمیشن برائے اقلیتی حقوق (پی سی ایم آر) کے زیراہتمام جبری تبدیلی مذہب اور اقلیتوں کے تحفظ پر نیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں انسانی حقوق کے سینئر کارکنان اور سینکڑوں شرکاء نے آن لائن شرکت کی۔ کانفرنس کی قرارداد کو وزیر اعظم پاکستان سے اپیل کی شکل میں پیش کیا گیا جس میں اقلیتوں کو جبراً مذہب کی تبدیلی سے تحفظ کے لئے سات نکات کی سفارشات پیش کی گئی۔

افتتاحی کلمات میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر سی ایس جے، پیٹر جیکب نے کہا کہ جبراً مذہب کی تبدیلی کے رجحان سے مذہبی آزادی کے ساتھ پاکستان کے مذہبی تنوع کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ ادارہ برائے سماجی انصاف اور پیپلز کمیشن برائے اقلیتی حقوق (پی سی ایم آر) کی تجزئیاتی رپورٹ کے مطابق پنجاب اور سندھ میں بنیادی طور پر ہندو اور مسیحی نابالغ لڑکیوں کے جبری تبدیلی مذہب کے 162 واقعات شامل ہیں جن میں بتایا گیا ہے کے اقلیتی خواتین کو مختلف صنفی جرائم کا سامنا ہے۔

2013 سے لے کر 2020 تک کے اعداد و شمار میں جو رجحانات ظاہر ہوئے اس کے مطابق کوئی بھی صوبہ اور اقلیت اس منفی رویئے سے محفوظ نہیں۔ جبری تبدیلی مذہب کی شکار ہونے والی خواتین میں سے کم از کم 46 فیصد خواتین 18 سال سے کم عمر تھیں جبکہ 37 فیصد کی عمر کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ صرف 16 فیصدخواتین 18 سال سے زیادہ تھیں۔ 2019 میں ایک بڑھتا ہوا رجحان دیکھنے میں آیا جب ضلع بہاولپور میں جبری تبدیلی مذہب کے سب سے زیادہ واقعات ( 21 ) منظرعام پر آئے، اس کے بعد کراچی اور لاہورسے سب سے زیادہ کیسزرپورٹ ہوئے۔

حنا جیلانی نے پاکستان میں مذہبی عدم رواداری کے بڑھتے ہوئے رجحان پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ملک میں شہری آزادیوں کے سلب ہونے سے نہ صرف پہلے سے پسماندہ اقلیتوں، اور معاشرہ پر اثرات مرتب ہوئے بلکہ جمہوری آدرش کمزور ہوا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ”مذہبی آزادی کو اہمیت دینے سے نہ صرف انسانی حقوق کا احترام بڑھتا ہے بلکہ اقلیتوں کے لئے انصاف کے امکان روشن رہتے ہیں۔ لہذا، ہر قسم کے تشدد اور ظلم کے خاتمے کے لئے حکومت پاکستان کو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی۔

جسٹس (ر) مہتا کیلاش کوہلی نے جبری تبدیلی مذہب کے شکار افراد کے لئے قانونی تحفظ کے موجودہ فریم ورک پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ تمام زیر التواء اور آئندہ کیسز کی B 498 اور تعزیرات پاکستان کی متعلقہ دفعات کے تحت تفتیش ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جبری تبدیلی مذہب نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے بلکہ آئین پاکستان میں شامل مذہبی آزادی کی بھی خلاف ورزی ہے لہذا تمام انتظامی اور قانونی اقدامات کا اطلاق کیا جانا چاہیے، خاص طور پر چائلڈمیریج ریسٹرینٹ ایکٹ میں ترمیم کر کے شادی کی عمر کم از کم 18 سال کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ”یہ ضروری ہے کہ ایسے معاملات میں سینئر سول ججوں کو عمر اور آزاد مرضی کی موجودگی کی تصدیق کرنی چاہیے۔“

ڈاکٹر ہیرا لال لوہانو نے جبری تبدیلی مذہب کے نفسیاتی اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ نابالغ لڑکیوں کی مذہب کی تبدیلی اور شادیوں سے نہ صرف ان افراد پر بلکہ ان کے خاندان اور مجموعی طور پر پورے معا شرے پر سنگین نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کے ”۔ جبری تبدیلی مذہب سے ذہنی صحت پر منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں جس میں اضطراب، افسردگی، منفی خود اعتمادی، نا امیدی، تنہائی، شدید دباؤ اور دیگرذہنی مسائل شامل ہیں“ ۔

انسانی حقوق کمیشن سندھ کی رکن پشپا کماری نے کہا کہ اقلیتوں کی جبری تبدیلی میں دیگر عوامل کے علاوہ معاشرتی اور معاشی پسماندگی بھی شامل ہے۔ مذہبی اقلیتوں کو ان کی معاشی حیثیت، کم خواندگی اور بنیادی ضروریات تک کم رسائی کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جبری تبدیلی مذہب سے متاثرہ خاندانوں کے لیے سماجی دباؤ کے باعث انصاف کا حصول مزید مشکل بنا دیا جاتا ہے۔

بشپ آف لاہور (ر) الیگزینڈر جان ملک نے کہا کہ انسانی حقوق کی پاسداری اور احترام ملک کے قومی مفاد میں ہے۔ مذہب کو کم سنی کی شادی اور جبری تبدیلی مذہب کی آڑ میں انسانی سمگلنگ سمیت دیگر گھناؤنے جرائم کی پردہ پوشی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہب یا عقیدے کی آزادی سمیت انسانی حقوق کو ترجیحی بنیادوں پر اہمیت دی جانی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج مذہبی آزادی، قانون کی

حکمرانی، مساوی تحفظ اور انتظامی سطح پر اصلاحات کے ساتھ ایک ترقی پسند قانون فراہم کرنا ریاست کے لئے سب سے مشکل کام ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ”اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کے لیے خاص طور پر ایک قانونی، با اختیار اور خودمختار کمیشن قائم کیا جائے۔“

سندھ ہائیکورٹ کے سینئر وکیل، بھگوان داس نے جبری تبدیلی مذہب کے متاثرین کو موثر قانونی امداد اور نابالغ بچیو ں کی تحویل میں درپیش رکاوٹوں پر روشنی ڈالی۔ جبری تبدیلی مذہب کے متعدد واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کے ایسے معاملات میں کم معاشرتی حیثیت، پسماندگی اور وسائل کی کمی انصاف کی راہ میں رکاوٹ جیسے مسائل درپیش ہیں۔ ”جبری تبدیلی مذہب کا شکارخواتین مجرموں کی تحویل میں رہتی ہیں جس سے ان پر مستقل دباؤ اور پرتشدد انتقامی کارروائی کا خوف رہتاہے، لہذا بہت سے خاندان با اثرمجرموں کے خلاف مقدمات درج نہیں کرواتے“ ۔

پیٹر جیکب نے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو سنٹر فار سوشل جسٹس کو تحفا ًفنڈزجاری کرنے کا شکریہ ادا کیا جو جسٹس فار آل کے نام سے ایک اینڈوومنٹ قائم کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

منیزے جہانگیر نے کانفرنس کی نظامت کی۔ میڈیا پرسن کی حیثیت سے اپنی رائے کا اظہارکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”مناسب لائحہ عمل کی عدم موجودگی اقلیتی خواتین کی جبری تبدیلی مذہب کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور اس صورتحال کو تمام متعلقہ افرادکی سنجید ہ مد اخلت کی ضرورت ہے“ ۔ کانفرنس کے اختتام میں منیزے جہانگیر نے شرکا کا شکریہ ادا کیا اور اپیل پر دستخط کر کے تعاون کی درخواست کی۔

سفارشات:

1۔ وزارت انسانی حقوق کو جبری تبدیلی مذہب کے معاملے میں زیر سماعت مقدمات، اور اس سے متعلقہ محکموں کی کارکردگی اور اداروں کی فراہم کردہ تجاویز کا جامع مطالعہ اور تجزیہ کرنا چاہیے۔

2۔ نومبر 2019 میں قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی کو صرف حقائق اور اعداد و شمار کے جامع تجزیے پر مبنی بیانات دینا چاہیے۔ نیز کمیٹی اپنی کار کردگی سے عوام الناس کو روشناس کرے۔

3۔ پولیس سیکشن تعزیرات پاکستان دفعہB 498، کے تحت زیر التوا تمام مقدمات اور آئندہ کے معاملات کی تفتیش کرے، کیونکہ یہ قانون خاص طور پر جبری طور پر مذہب تبدیل ہونے اور اقلیتی خواتین کی شادیوں سے متعلق ہے۔ تاہم، 2017 میں نفاذ کے بعد سے اب تک اس پر عمل نہیں کیا جا سکا۔

4۔ ضابطہ فوجداری میں ایک ترمیمی بل کے ذریعے عمر اور ازدواجی حیثیت کے علاوہ آزادانہ مرضی، رضامندی کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لئے سینیئر سول جج کو مذہب کی تبدیلی کی توثیق اور تحقیق کا اختیار دیا جائے۔

5۔ چائلڈمیریج ریسٹرینٹ ایکٹ اور میجارٹی ایکٹ میں نادرا ایکٹ اور دیگر قوانین کے مطابقت لائی جائے۔
6۔ اقلیتوں کے حقوق کے لئے ایک خودمختار، با اختیار اور قانونی قومی کمیشن تشکیل دیا جائے۔

7۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ جبری تبدیلی مذہب پر مذکورہ بالا سفارشات کو مد نظر رکھتے ہوئے عدلیہ اور جوڈیشل افسران کی بہتر ٹرینینگ اور معاملے پر رائے سازی کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).