کیا لاہور کے جلسے میں مریم نواز کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے؟


موقر جریدے کے معروف صحافی جناب سہیل وڑائچ نے ہفتہ عشرہ قبل اپنے کالم میں محترمہ مریم نواز کی جان کو لاحق دہشت گردی کے جن خطرات کی جو نشاندہی کی تھی وہ شدید حساسیت اور تشویش کے پہلو رکھتے ہیں بالخصوص شدید حساسیت کا اہم نکتہ یہ تھا کہ ”مریم نواز شریف کو اُن کے کسی بہی خواہ نے اطلاع دی ہے کہ انتہائی اعلیٰ سطح پر اُن کو جان سے مار دینے کی سازش سوچی جا رہی ہے، اُنہیں شک ہے کہ اُنہیں فضائی حادثے میں پار لگانے یا پھر سازش سے ہٹا دینے کے بارے میں باتیں کی جا رہی ہیں“ جو بہت بھیانک سنسنی خیز پہلو تھا۔ کیونکہ ایسا ہونا بعد از قیاس بھی نہیں لیکن انتہائی تباہ کن اثرات کا حامل بھیانک ہوگا۔

جناب سہیل وڑائچ کی تحریر کے متعلق کسی حلقے نے اب تک تردید کی ہے نہ اس پر کسی قسم کا تبصرہ یا خیال آرائی البتہ مستزاد یہ کہ پنجاب حکومت بے باضابطہ طور پر مسلم لیگ نون کے صوبائی صدر جناب رانا ثنا اللہ کے متعلق تنبیہ جاری کی تھی کہ انہیں 13 دسمبر کے جلسے میں دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے کا خطرہ ہے اس انتباہ کے دو روز بعد شاہدرہ میں دہشت گردوں کے ایک مبینہ گروہ کے خلاف کارروائی کی اطلاع آئی تھی بتایا گیا تھا دہشت گرد افغانستان سے تربیت لے کر پاکستان آئے تھے جنہیں بھارتی خفیہ ایجنسی را کی مالی معاونت میسر تھی کیا رانا ثنا اللہ انہی ہلاک کیے گئے دہشت گردوں کا ہدف تھے؟ یا پھر رانا ثنا اللہ کے متعلق جاری انتباہ کسی ایسے گروہ کے متعلق ملنے والی اطلاعات کے متعلق تھا جو ابھی تک قانون کی گرفت سے بچا ہوا ہے؟

اس کے معنی یہ ہوں گے کہ رانا ثنا اللہ پر حملے سے متعلق پنجاب حکومت کا جاری انتباہ تاحال فعال ہے اگر رانا صاحب کو جلسہ گاہ میں نشانہ بنایا گیا (اللہ انہیں حفظ وامان میں رکھے ) تو کیا اس حملہ کے منفی اثرات سے دیگر رہنما بالخصوص محترمہ مریم نواز محفوظ رہیں گی؟ (اللہ ان کی حفاظت فرمائے ) مسئلہ یہ ہے کہ محترمہ مریم نواز اور رانا ثنا اللہ ایک ہی جماعت کے رہنما ہیں جو جلسہ گاہ میں بہت نزدیکی فاصلے پر موجود ہوں گے مفروضہ طور پر اگر دہشت گرد رانا ثنا کو نشانہ بناتے ہیں تو کیا محترمہ مریم نواز کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا؟

ظاہر ہے ایسی صورت میں کسی کو بھی یا دیگر اکابرین کو بھی نقصان پہنچنے کا احتمال ہوگا جن میں پی ڈی ایم کے تمام رہنما شامل ہیں یہ تشویش ناک منظر نامہ دل ہلا دینے کے لئے کافی ہے تاہم یہ قیاس اطمینان بخش ہو سکتا ہے کہ پنجاب پولیس نے گزشتہ روز جن مبینہ دہشت گردوں کے خلاف خفیہ اطلاع پر کارروائی کی تھی وہی دراصل جناب رانا ثنا اللہ کو نشانہ بنانے کے عزائم رکھتے تھے چنانچہ یہ سمجھنا مناسب ہوگا کہ پنجاب حکومت نے بروقت کارروائی کر کے جناب رانا ثنا اللہ پر ہونے والے امکانی خطرے کا سدباب کر لیا ہے لیکن جناب سہیل وڑائچ کے کالم میں جس جانب انگلی اٹھائی گئی تھی نہ تو انہوں نے اس کی تردید کی ہے نہ ہی وہ قانون کی گرفت میں آسکتے ہیں؟ تو کیا محترمہ مریم نواز کے متعلق یہ خدشات ہنوز موجود ہیں؟

اس پہلو پر ہونے والی بحث میں ایک دلیل دی جاتی ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ یہ بہت بھیانک ہوگا اور اس کے مابعد اثرات سے سبھی آگاہ ہیں لہٰذا اس کا تو وقوع پذیر ہونا ممکن نہیں!

اس دلیل میں جتنا وزن ہے تاریخ اسی نسبت سے زیادہ خطرات کی نشاندہی کرتی ہے بابائے قوم کو کراچی ماڑی پور ائر پورٹ سے شدید بیماری کے عالم میں ہسپتال پہنچانے کے لئے بھیجی گئی ایمبولینس کا خراب ہوجانا بابائے قوم کا اسی ایمبولینس میں انتہائی مخدوش حالت (صحت اور ماحول) میں کئی گھنٹے دوسری ایمبولینس کا منتظر رہنا ایسا واقعہ ہے جس پر کئی محققین نے قائد اعظم کو قتل کیے جانے کا شبہ ظاہر کیا تھا۔ بیماری کے عالم میں جب گورنر جنرل کوئٹہ سے کراچی پہنچے تھے تو ائر پورٹ پر ان کے پروٹوکول کے مطابق استقبال کے لئے کون سی شخصیت ائر پورٹ ر موجود تھی؟ یہ سوال بھی شکوک کے سائے گہرے کرتا ہے۔ بعد ازاں وزیراعظم جناب لیاقت علی کا راولپنڈی کے جلسہ عام میں قتل اور قاتل کو موقع پر گولی مار دینے کا واقعہ اب تک پر اسرار معمہ ہے جس کی رپورٹ بھی منظر عام پر نہیں آ سکی۔

مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی اچانک رحلت جس کے متعلق شک ہے کہ انہیں زہر دے کر شہید کیا گیا تھا ایسے واقعات میں جو ”پس پردہ قوتوں“ کی استعداد کار اور ذہنیت کو واضح کرتے ہیں 4 اپریل 1979 تک کسی کو گمان نہیں تھا کہ جناب بھٹو کو پھانسی دے دی جائے گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو کس طرح شہید کیا گیا۔ یہ بھی ایک ناقابل حل معمہ ہے۔ بلوچستان میں ہونے والے واقعات جناب نواب بگٹی کا سانحہ۔ پھر متعدد بار منتخب وزرائے اعظم کو برطرف کرنے کے واقعات بتاتے ہیں کہ بعض عناصر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے حالات پر قابو پا سکتے ہیں۔

چنانچہ یہی منفی خیال و ارادہ وہ عنصر ہے جو میری تشویش کو بڑھاتا ہے کہ اللہ نہ کرے کہ محترمہ مریم نواز کو کوئی نقصان پہنچے یا پہنچانے کی کوشش ہو۔ لے کن اس خوش گمانی کو ذہنوں سے جھٹکنا ہوگا کہ مریم نواز کو نقصان پہنچنے کی قیمت کوئی نہیں چکا سکے گا! ماضی کے متذکرہ واقعات اور اس کے علاوہ کئی کہانیاں (لاپتہ افراد کا مسئلہ، صحافیوں کا قتل) چیخ چیخ کر خبر دار کرتے ہیں کہ کسی سانحہ کا وقوع پذیر ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔

یہاں دشمنوں کے بچھائے ہوئے جال اور ان کے نیٹ ورک و عزائم بھی بھیانک خدشات کی گمبھیرتا نمایاں کرتے ہیں بنیادی مسئلہ ملک میں قانون کی بالادستی قائم نہ ہونے کا ہے۔ معاشروں میں نجی اور سرکاری طاقتوں اور عامتہ الناس کے درمیان طاقت کا خوشگوار توازن معیاری معقول نظام عدل سے قائم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں آئین کی پامالی و بے توقیری اور پارلیمان کی تذلیل اتنی سہل و ارزاں ہو چکی ہے کہ اب کسی کے لئے بھی سیاست اور سیاستدانوں پر تبرا بھیجنا مشکل نہیں رہا۔ اب تو برقی میڈیا میں بالوں کے ایک اشتہار میں بھی گندی سیاست سے گریز کا اظہار محبت کے ہم معنی بنا دیا گیا ہے۔

ملک میں پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک روزبروز توانائی حاصل کر رہی ہے لاہور کا جلسہ اسی تناظر میں اہمیت اختیار کر رہا ہے مرکزی حکومت نے جناب اعجاز شاہ کی جگہ شیخ رشید کو وزارت داخلہ کا قلم دان سونپ دیا ہے کیا یہ تبدیلی جناب اعجاز شاہ کی ناکامی کی دلیل ہے یا ان کی جانب سے کسی معذرت خواہی کا نتیجہ؟

حکومت اور ذرائع بلاغ پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کا امکان رد کیے جانے پر تنقید کر رہے ہیں جبکہ مذاکرات اب بھی ممکن ہوسکتے ہیں اگر حکومت سیاسی سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے حکومت مذاکرات کے لئے ایسا ایجنڈا پیش کر کے حالات کا رخ بدل سکتی ہے جس سے پی ڈی ایم اختلاف کریے نہ پی ٹی آئی کے سابقہ سیاسی موقف اور ساکھ پر منفی اثر پڑے مثلاً

1۔ ملک میں پارلیمان کی بالادستی ممکن بنانے کے لئے مطلوبہ آئینی و قانونی اقدامات پر اتفاق رائے پیدا کرنا

2۔ عام انتخابات میں ہر قسم کی سرکاری مداخلت کے خاتمے کے موثر تدارک کے لئے آئینی، قانونی و انتظامی اقدامات کا تعین کرنا

3۔ امور مملکت کو آئین پاکستان میں طے کردہ ڈھانچے۔ طریقہ کار اور ریاستی طاقت کے معینہ دائرہ کار کی تقسیم کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے باہمی مشاورت۔

4۔ احتساب سب کے لئے۔ کے نعرے کر عملاً ممکن بنانے کے لئے سب کے لیے ایک یکساں نظام کی تشکیل دینا جو سیاسی انتقام جانبداری یا سیاسی لانڈری کے منفی تاثر کو زائل کرسکے۔

5۔ احتسابی عمل شفاف اور سریع الحرکت ہو۔ بد عنوانی کے مرتکب افراد کے خلاف مقررہ مدت میں تحقیقات کر نے کے بعد ۔ ٹرائل اور گرفتاری اور تیز تر عدالتی مراحل کا میکنزم بنانے کے لئے سیاسی اتفاق رائے

ان پانچ نکات پر مشتمل ایجنڈے کے ذریعے اگر حکومت پی ڈی ایم کو مذاکرات کی دعوت دے اور مذاکرات کے دوران کسی بھی نوعیت کے انتخابی عمل کو ملتوی رکھنے کا عندیہ ظاہر کیا جائے تو سیاسی گفت و شنید کے بند دروازے کھل سکتے ہیں ان مذاکرات کے نتیجے اتفاق رائے سے اگلے انتخابات کا شیڈول بھی طے پا سکتا ہے۔ کرونا کا سہارا لینے کی بجائے سیاسی بصیرت و پہل کاری کے ذریعے گہری ہوتی سیاسی کشیدگی اور درجہ حرارت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اگر اتر جائے تیرے دل میں مری بات۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).