بھارت سے متعلق ای یو ڈس انفو کی رپورٹ: جب مجھے نشانہ بنایا گیا


برسلز کے ادارے ”ای یو ڈس انفو لیب“ نے بھارت کا ایک وسیع نیٹ ورک بے نقاب کیا ہے۔ یہ نیٹ ورک کس قدر منظم طریقے سے کام کر رہا تھا، یہ جان کر آپ حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس میں ”فری بلوچستان کمپین“ کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یورپ میں اس مہم کو کس طرح بھارتی ”فیک میڈیا“ اسپورٹ کرتا رہا اور کس طرح پلے کارڈز لگائے گئے۔

اسی حوالے سے میں آپ کو اپنا ایک واقعہ سناتا ہوں کہ چند برس پہلے مجھے کس طرح دباو کا نشانہ بنایا گیا، کس طرح نہ صرف میری صحافت پر سوالیہ نشان لگایا گیا بلکہ میری جاب کو بھی براہ راست ٹارگٹ کیا گیا۔

آپ کو یاد ہو گا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں براہ راست کہا تھا کہ وہ بلوچوں کی آزادی کے لیے مدد فراہم کریں گے۔ یہ وہی دن تھے، جب یورپی ممالک میں بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلا رہے تھے۔ بسوں اور چوراہوں پر ایک دوسرے کے خلاف اشتہارات لگ رہے تھے۔

انہی دنوں بیرون ملک پناہ لیے ہوئے بلوچ دوستوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ جرمنی میں بلوچ ری پبلکن پارٹی کے ایک مرکزی عہدیدار نے اپنی پروفائل تصویر بدلی اور وہ تصاویر لگائیں، جس میں وہ بھارت اور اسرائیل کے پرچم لہرا رہے تھے۔

میرے لیے یہ ایک اسٹوری تھی کہ جب نریندر مودی کہیں کہ وہ بلوچوں کی براہ راست مدد کریں گے اور اس کے یک دم بعد یورپ بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ میں نے ایک بلوچ عہدیدار سے رابطہ کیا۔ انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ انہیں بھارت اور اسرائیل سے براہ راست مدد مل رہی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے جرمنی میں اس وقت کے مرکزی عہدیدار کا رابطہ بھی دیا۔

میرے دو سوال بڑے واضح تھے۔ کیا آپ کو بھارت یا اسرائیل مدد فراہم کر رہا ہے؟
کیا آپ کو تعلق بلوچ مسلح تحریک سے بھی ہے؟

ان دونوں افراد کے جواب اور انٹرویو میرے پاس محفوظ تھے۔ اسٹوری کا دوسرا رخ جاننے کے لیے اسرائیلی سفارت خانے سے رابطہ کیا گیا۔ انہوں نے صاف صاف انکار کر دیا کہ ہم کسی طرح بھی کسی بھی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں۔ جو بھی ایسے دعوے کر رہا ہے، صرف جھوٹ بول رہا ہے۔

اس اسٹوری کے دعوے اور مواد اس قدر ناقص تھے کہ میں نے ایک آفس کولیگ کے ساتھ مشورے کے بعد اسے شائع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اسٹوری شائع کرنے سے پہلے آپ دعوی کرنے والے کی حیثیت، اس کا عہدہ، اس کا سابقہ ریکارڈ، تنظیمی حیثیت وغیرہ دیکھتے ہیں۔ پھر اسے قانونی حوالے سے دیکھتے ہیں اور پھر شائع کرتے ہیں۔ یہ حساس اسٹوری تھی اور قانونی لحاظ سے میں کچھ بھی ثابت نہیں کر سکتا تھا، ایسی اسٹوریز کا ری ایکشن بعض اوقات ناقابل تلافی ہوتا ہے، لہذا اسٹوری ڈراپ کر دی گئی۔ میں نے دونوں بلوچ رہنماؤں کو کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں، میں یہ اسٹوری شائع نہیں کر سکتا۔

اس کے چند ماہ بعد میرے خلاف ایک آرٹیکل شائع ہوا، جس میں کہا گیا کہ ڈی ڈبلیو کا صحافی امتیاز احمد انسانی حقوق کے کارکنوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے پاکستانی خفیہ حکام کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ اس نے انٹرویو میں سخت سوال پوچھے لیکن اسٹوری شائع نہیں کی گئی کیوں کہ وہ صرف کسی کے کہنے پر معلومات جمع کر رہا تھا۔ جس ویب سائٹ پر پہلی مرتبہ یہ مضمون شائع ہوا، وہ بھی ڈس انفولیب کی فہرست میں شامل ہے۔ جن دو افراد میں سے ایک کا انٹرویو کیا گیا، وہ بھی اس فہرست میں شامل ہیں، جو بعد ازاں ایک فیک این جی او چلا رہے تھے، بلکہ ان کی تصویر بھی شائع کی گئی ہے۔

پھر دو سال بعد وہی پرانی تحریر یروشلم آن لائن نامی ویب سائٹ (یہ بھی مشکوک ویب سائٹ ہے ) میں بطور بلاگ شائع ہوئی۔ طارق فتح صاحب کا ذکر بھی بہت واضح انداز میں اس رپورٹ میں آیا ہے۔ انہوں نے وہ تحریر اپنے ٹویٹر پر شیئر کی اور ساتھ ہی ڈی ڈبلیو کو ٹیگ کر دیا۔

اس پورے بلاگ میں یہ الزام تھا کہ امتیاز احمد نے جو سوال بار بار پوچھے، وہ انہیں مشکوک بناتے ہیں اور وہ پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کے کارکنوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی فیس بک سے اٹھا کر میری تصاویر بھی شائع کر دی گئیں۔

ڈی ڈبلیو انتظامیہ نے غیر رسمی انداز میں مجھ سے پوچھا۔ میں نے ان کو انٹرویو سنا دیے، معاملہ وہیں ختم ہو گیا۔

فرض کریں میں وہ انٹرویو ڈیلیٹ کر چکا ہوتا، تو مجھے کیا قیمت ادا کرنا پڑتی؟

یروشلم آن لائن امریکا میں رجسٹر ہے۔ اس کا میل کے علاوہ کوئی رابطہ نمبر نہیں ہے۔ جو ایک شخص بظاہر کبھی اس ویب سائٹ سے منسلک تھا اب تل ابیب میں ایک لا فرم چلا رہا ہے۔ کیا سچ ہے کیا جھوٹ، میرے لیے کسی کی حقیقت تک پہنچنا انتہائی مشکل ہے۔

آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ آن لائن نیٹ ورکس کس قدر پیچیدہ ہو چکے ہیں اور انہیں جانچنا کس قدر مشکل ہو چکا ہے کہ کون سی ویب سائٹ کس کے لیے کام کر رہی ہے؟

میں اپنے شک کے علاوہ کبھی بھی یہ تصدیق نہیں کر سکتا کہ میرے خلاف مہم کے پیچھے کسی کا ہاتھ تھا، اس کا مقصد کیا تھا، یا یہ صرف ایک آرٹیکل شائع نہ کرنے سزا تھی؟

مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ بند ہونے والی ویب سائٹ یا یروشلم آن لائن کون چلا رہا ہے؟ میں کسی کے خلاف لیگل کارروائی نہیں کر سکتا کیوں کہ کسی کا اصل ایڈریس نہیں ہے۔ یعنی دو ”سخت سوال“ کرنے پر آپ کسی کا ٹارگٹ بن جاتے ہیں۔

ہم جیسوں کا مسئلہ یہاں بھی ختم نہیں ہوتا، آپ جتنا نیوٹرل رہ کر لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی مشکوک بھی ہوتے جاتے ہیں۔

پاکستان میں بیٹھے دوست کئی مرتبہ مجھے بیرونی ایجنٹ قرار دے چکے ہیں، ایک مرتبہ محلے کی مسجد میں ایک دوست سے ویسے ہی گفتگو ہوئی، اس نے قاری صاحب کو کہہ دیا کہ اسے شک ہے کہ میں کسی بیرونی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرتا ہوں اور پاکستان معلومات اکٹھی کرنے کے لیے آتا ہوں۔ قاری صاحب خود بھی قہقہے لگاتے رہے اور میں بھی۔

ایک مرتبہ تو ایک دوست کا پہلا سوال تھا کہ آپ جرمنی میں رہتے ہیں تو پھر آپ قادیانی ہوں گے؟

کئی دوست یہ پوچھ چکے ہیں کہ آپ مسلم ہیں؟ کئی دوست ماضی میں مجھے دائیں بازو کا انتہاپسند قرار دے چکے ہیں۔ کچھ طارق جمیل اور کچھ بابا اشفاق احمد کا مرید سمجھتے ہیں۔ نہ رائٹ ونگ خوش ہے اور نہ ہی لفٹ ونگ پسند کرتا ہے۔ نہ عمران خان والے خوش ہیں اور نہ ہی مسلم لیگ نون والے، آپ کو سمجھ نہیں آتی کہ بندہ جائے تو جائے

کدھر؟ یعنی انسانیت فرقوں، عہدوں، ہم خیالوں اور جماعتوں کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔

نوٹ: پلیز یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ کمنٹس کرتے ہوئے خیال رکھیے گا۔ پلیز ان بلوچوں کا خیال رکھیے گا، جو مقامی سطح پر پرامن احتجاج کر رہے ہیں، جن کی آنکھیں اپنے لاپتہ رشتے داروں کی تلاش میں ہیں، جو اپنے جائز حقوق مانگ رہے ہیں۔ شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).