ایران: احتجاج منظم کرنے کے الزام میں صحافی کو پھانسی



روح‌الله زم چند ماہ قبل جلا وطنی کے بعد پر اسرار حالات میں ایران واپس آئے تھے۔ (فائل فوٹو)
ایران نے 2017 میں حکومت مخالف احتجاج میں مظاہرین کو مبینہ طور پر تشدد پر اُکسانے کے جرم میں صحافی روح اللہ زم کی سزائے موت پر عمل درآمد کرتے ہوئے پھانسی دے دی۔

روح اللہ زم چند ماہ قبل جلا وطنی کے بعد پر اسرار حالات میں ایران واپس آئے تھے۔

امریکی خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ 47 سالہ روح اللہ زم کو ہفتے کی صبح پھانسی دی گئی۔

روح اللہ زم کو رواں سال جون میں ایک عدالت نے سزائے موت سنائی تھی اور کہا تھا کہ وہ زمین پر فساد پھیلانے کے مرتکب ہوئے تھے۔

ان پر ایسا الزام لگایا گیا تھا جو کہ عمومی طور پر مخبروں یا ایرانی حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کرنے والوں پر لگایا جاتا ہے۔

حکام کے الزامات کے مطابق روح اللہ زم کی ویب سائٹ اور سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ‘ٹیلی گرام’ پر قائم کردہ چینل نے مظاہروں کے دوران ایسی معلومات پھیلائی تھیں جن سے ایران کی حکومت کے اقدامات کو چیلنج کیا گیا تھا۔

ایران میں 2017 کے آخر میں ہونے والے مظاہروں نے 2009 کی سبز تحریک کے بعد حکومت کے لیے سب سے زیادہ مشکلات پیدا کی تھیں۔ اسی طرح کی بے چینی گزشتہ برس نومبر میں بھی سامنے آئی تھی۔

تین سال قبل 2017 میں ہونے والے مظاہرے بنیادی طور پر غذائی اشیا کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے بعد شروع ہوئے تھے۔

مبصرین کا ماننا ہے کہ قدامت پسند شہر مشہد میں ہونے والے مظاہرے ایرانی صدر حسن روحانی کے مخالفین نے شروع کیے تھے۔ جن کا مقصد ایرانی صدر پر تنقید کرنا تھا۔

زم کی گرفتاری سے متعلق معلومات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ حالانکہ وہ فرانس کے شہر پیرس میں رہائش پذیر تھے۔ جو کہ ایران واپس آگئے اور انہیں خفیہ اداروں نے گرفتار کر لیا۔ (فائل فوٹو)
زم کی گرفتاری سے متعلق معلومات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ حالانکہ وہ فرانس کے شہر پیرس میں رہائش پذیر تھے۔ جو کہ ایران واپس آگئے اور انہیں خفیہ اداروں نے گرفتار کر لیا۔ (فائل فوٹو)

تاہم جیسے جیسے مظاہرے دیگر علاقوں میں پھیلے حکومت کے خلاف احتجاج میں شدت آتی چلی گئی۔

اس کے بعد روح اللہ زم کی طرف سے شیئر کی گئی ویڈیوز میں صدر حسن روحانی اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

زم کے چینل کی طرف سے مظاہروں کے اوقات اور منتظمین کی تفصیلات بھی نشر کی گئی تھیں۔

ایرانی حکومت کی شکایت پر ٹیلی گرام نے گیس بم بنانے سے متعلق معلومات پھیلانے کے الزام میں زم کے چینل کو بند کر دیا تھا۔ تاہم مذکورہ چینل نے دیگر ناموں کے ساتھ اپنی نشریات جاری رکھیں۔

روح اللہ زم کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان پر لگائے جانے والے جھوٹے الزامات کی وجہ سے ملک چھوڑا تھا۔ روح اللہ زم نے تشدد پھیلانے کے الزامات کی بھی تردید کی تھی۔

حکومت نے 2017 میں ہونے والے مظاہروں میں شریک ہونے والے لگ بھگ پانچ ہزار مظاہرین گرفتار کیے تھے۔ جب کہ 25 افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔

روح اللہ زم کی گرفتاری سے متعلق معلومات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ حالاں کہ وہ فرانس کے شہر پیرس میں مقیم تھے۔ اور اچانک ایران واپس آ گئے۔ جس کے بعد انہیں خفیہ اداروں نے تحویل میں لے لیا تھا۔

فرانس نے روح اللہ زم کو سنائی جانے والی سزائے موت پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ صحافت کو شدید جھٹکا ہے۔

زم کے چینل کی طرف سے مظاہروں کے اوقات اور منتظمین کی تفصیلات بھی نشر کی گئیں تھیں۔ (فائل فوٹو)
زم کے چینل کی طرف سے مظاہروں کے اوقات اور منتظمین کی تفصیلات بھی نشر کی گئیں تھیں۔ (فائل فوٹو)

رواں سال روح اللہ زم کے اعترافات سے متعلق ٹی وی پر ایک سیریز بھی نشر کی گئی تھی۔

جولائی میں نشر کیے جانے والے ایک انٹرویو میں روح اللہ زم کا کہنا تھا کہ انہوں نے اکتوبر 2019 میں گرفتاری کے بعد 30 کلو گرام وزن کم کیا ہے۔

گرفتاری کے بعد ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والد سے نو سال اور والدہ اور بہن سے چھ سال بعد ملیں گے۔

زم شیعہ عالم محمد علی زم کے صاحبزادے تھے۔ ان کے والد 1980 کے اوائل میں سرکاری عہدے پر بھی فائض رہے تھے۔

ان کے والد کی طرف سے لکھے گئے خط، جو کہ جولائی 2017 میں سامنے آیا تھا، میں کہا گیا تھا کہ وہ روح اللہ زم کی عماد نیوز کی رپورٹنگ اور ٹیلی گرام چینل پر دیے جانے والے پیغامات کی حمایت نہیں کریں گے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa