مصطفیٰ نواز کھوکھر: حقیقی بھٹواسٹ


پیپلز پارٹی کی سیاست نوجوانوں سے نکل کر جوڑ توڑ اورڈرائینگ رومز تک محدود تھی۔ جب نواز کھوکھر نے اس وقت ہوا کے برعکس پیپلز پارٹی میں انٹری دی اور بھرپور طریقے سے اپنی سیاسی اننگز کا آغاز کیا۔ پیپلز پارٹی کے سابق سپیکر قومی اسمبلی حاجی نواز کھو کھر کے سپوت ہونے کے باوجود خاندانی سیاست کے امین نہیں ہیں اور نہ روایتی نوجوان سیاسی رہنماؤں کی طرح ان کا سفر ہے۔

والد کی انگلی پکڑ کر سیاست میں نہیں آئے ہیں۔ حاجی نواز کھوکھر چاہتے تو مصطفیٰ کو ایم پی اے، ایم این اے بنوا سکتے تھے۔ مگر انہوں اپنے سپوت کو لیڈر بنانے پر ترجیح دی اور حصول تعلیم کے لئے برطانیہ روانہ کرتے ہوئے اس امر کا خیال بھی رکھا کہ نوجوان کو سیاسی اور نظریاتی شعور سے لیس کرنا ہے۔ مصطفیٰ کوپیپلز پارٹی کے بنیادی فلسفہ اور سیاست کا امین بنایا۔ حقیقی بھٹواسٹ تیار کیا ہے۔

مصطفیٰ اگر محض سیاست کرنے کے خواہاں ہوتے تو مصلحت پسندی سے کام لیتے اختلاف کی بجائے جی حضوری کو ترجیح دیتے اور دو زانو ہو کر سر تسلیم خم کرتے کہ جناب کا فرمایا حکم ہے۔ مگر مصطفیٰ جس نے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو جس کے وہ ترجمان بھی ہیں سے اختلاف کیا اور ترجمانی کے فرائض سے مستعفی ہو کر ثابت کیا کہ انہوں چاچا صفدر ہمدانی سے جو سیاسی سبق پڑھا ہے وہ مصلحت نہیں سکھاتا ہے۔ احتلاف رائے اور مزاحمت ہی اس کی سیاست ہے۔ تحسین ہے کہ انہوں نے نظریات پر سودا بازی نہیں کی ہے۔ اپنے نظریات پر کسی سیاسی مفاد کو ترجیح نہیں دی ہے۔

وہ چاچا صفدر ہمدانی جس نے میر مرتضیٰ اور کامریڈ شاہنواز کے ہمراہ ضیا آمریت کے خلاف جدوجہد کا علم اٹھائے رکھا اور عمر بھر مزاحمت جاری رکھی۔ مصطفیٰ برطانیہ میں دوران تعلیم دو سال تک جلاوطنی کی زندگی گزار رہے چاچاصفدر ہمدانی کے مہمان رہے اور کسب سیاست اور مزاحمت پا کر وطن واپس آئے اور پیپلز پارٹی میں بھٹو ازم کے پرچارک بن گے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت مصطفیٰ کی مزاحمت اور جذبات کے مظاہرے 20 مارچ 2020 کو نیب ہیڈکوارٹر کے سامنے دیکھ چکی ہے۔ جب آصف زرداری اور بلاول کی نیب میں پیشی کے موقع پر پولیس پارٹی کارکنوں پر لاٹھی چارج کر رہی تھی۔ یہ جذباتی مصطفیٰ ہی تھے جنہوں نے کارکنان کے ساتھ کھڑے ہو کر اک نیا تحرک پیدا کیا تھا جو مفادات اور جوڑ توڑ کی سیاست نے ختم کر دیا تھا۔

پیپلز پارٹی کا حقیقی چہرہ بلاول یا کوئی اور نہیں ہے۔ مصطفیٰ اور مصطفیٰ جیسے لیڈر اور نوجوان ہیں جو پارٹی کے بنیادی نظریے پر کھڑے ہیں اور پارٹی کے اندر اور باہر نظریاتی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی ملکی سیاست میں مزاحمت کی علامت رہی ہے۔ آج بھی مزاحمت کی روایت کے امین صرف پیپلز پارٹی کے اندر ہیں۔ جن کی پارٹی کے اندر کشمکش جاری ہے اور جاری رہے گی۔

بلاول بھٹو زرادری کو بطور پارٹی چیئرمین اس امر کا ادراک کرنا ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکن پارٹی سے کس پوزیشن کی توقع کرتے ہیں اور کن کلیدی عہدوں پر کن لوگوں کی قیادت کے خواہاں ہیں۔ مفاہمتی سیاست چاہتے ہیں یا مزاحمتی سیاست کے خواہش مند ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو اس امر کی پڑتال کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ پارٹی تنظیم میں فعالیت کتنی ہے اور فعال کردار کون ادا کر سکتا ہے۔

پیپلزہارٹی کی مرکزی تنظیم میں فعال اور متحرک قیادت کی ضرورت ہے۔ سیاسی تنظیم فلاسفر اور دانشور نہیں، سیاسی کارکن چلاتے ہیں۔ تنظیم ہدف لے کر کام کرتی ہے۔ تنظیمی عہدوں کے لئے صحت مند اور جوان لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ وقت اور عمر کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔

پیپلز پارٹی کی تنظیم میں فعالیت کی ضرورت ہے۔ جذباتی، ولولہ انگیز اور پرجوش تنظیمی قیادت ہی ملک بھر میں پارٹی کو تنظیمی طور پر فعال بنا سکتی ہے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر سیاسی کارکن ہیں۔ جوان ہیں۔ پارٹی چیئرمین سے مطابقت رکھتے ہیں۔ حقیقی بھٹواسٹ ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جنرل سیکرٹری شپ کے لئے موزوں ترین ہیں۔ جو پارٹی کو تیزی کے ساتھ فعال کرنے پوری اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو مصطفیٰ جیسے کارکنان کی ضرورت ہے جو خوش آمد اور جی حضوری کے بجائے اصولوں پر کھڑے رہیں اور ان میں اختلاف کرنے کی جرات ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).