عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ


2007 میں لیاقت باغ کے جلسہ کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے 2008 کے عام انتخابات کا رخ متعین کر دیا۔ عوامی ہمدردی کی ایسی لہر چلی جس نے جنرل مشرف کے ارادوں کو خاک میں ملادیا۔ اقتدار من پسند سیاسی جماعت کی بجائے پیپلز پارٹی کو دینا مجبوری بن گیا۔ اگر محترمہ کی شہادت سے پہلے کے انتخابی حالات کا بغور جائزہ لیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ ق بہت آسانی سے اقتدار حاصل کر لیتی اور مسلم لیگ ق کس نے بنائی اور کیوں بنائی اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سیاست سے وابستہ ہر شخص اس کے پس منظر سے بخوبی آشنا ہے۔ معاملات سنجیدہ سیاسی جماعت کے ہاتھ میں آئے توامید پیدا ہو گئی کہ شاید اب کی بار پائیدار جمہوریت کے ذریعے عوام کے حق حاکمیت کو تسلیم کر لیا جائے گا۔

یہ امید کیوں پیدا ہوئی تو اس کی دلیل یہ ہے کہ 2007 میں میثاق جمہوریت پر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے دستخط ہو چکے تھے۔ جمہوری حکومت قائم ہو چکی تھی۔ 18 ویں ترمیم آ چکی تھی اورجنرل مشرف کی رخصتی کے ساتھ ہی نئے آرمی چیف نے سول اداروں کے فوجی سربراہان کو واپس بلا لیا تھا۔ فوج اور جمہوری حکومت کے مابین خوشگوار تعلقات سے اندازہ کیا جانے لگا کہ شاید اب سول بالادستی کا دور شروع ہو گیا ہے اور عوام کے حق حاکمیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔

مگر ایسا نہیں تھا ہنوز دلی دور است کی طرح سول بالادستی کی منزل کافی دور تھی۔ اکتوبر 2011 میں مینار پاکستان پر عمران خان کا جلسہ کرا کے ملکی سیاست کا رخ اپنی مرضی سے متعین کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک منظم انداز میں تحریک انصاف کے غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش کی گئی۔ سیاسی جماعتوں اوران کے قائدین کی کردار کشی کر کے انقلاب لانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم پہلی کوشش میں کامیابی نا مل سکی اور 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون کو اقتدار مل گیا۔ اس بار منتخب حکومت کو زیادہ مہلت نہیں دی گئی اور 2014 میں عمران خان کی اپوزیشن شروع ہوئی اور 2018 کے عام انتخابات تک جاری رہی۔

طاقت اور اختیار کی اس باہمی چپقلش میں ہر چال قیامت کی چلی گئی ہر مہرہ شاہ مات کی غرض سے چلا گیا۔ میمو گیٹ اسکینڈل سے شروع ہونے والا سلسلہ ڈان لیکس سے ہوتا ہوا پانامہ پر آن رکا۔ ترکش کا آخری تیر بھی چلا دیا گیا۔ 2018 کے عام انتخابات میں ایک سیاسی جماعت کے مضبوط امیدواروں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔ پارٹی ٹکٹ واپس کرائے گئے۔ دھونس، جبر اور خوف کی فضا میں امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا مگر پھر بھی مطلوبہ نتائج حاصل نا ہو سکے۔ اور اتحادیوں کے تعاون سے اقتدار ہم خیال اور پسندیدہ ترین کو سونپ دیا گیا

اقتدار کبھی بھی کسی کے لیے پھولوں کی سیج نہیں رہا اور یہی کچھ 2018 میں نومنتخب حکومت کے ساتھ ہوا۔ زمینی حقائق سے دور تصوراتی دنیا میں طلسمی دعووں اور پرکشش وعدوں کی تکمیل کا جب مرحلہ آیا تو معلوم ہوا کہ نا تو وسائل دستیاب ہیں نا ہی مسائل کی دلدل سے نکالنے والی ٹیم موجود ہے اور نا ہی کوئی ویژن ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بے ربط، بے سمت اور منتشر الخیال طرز حکمرانی سے مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی اضطراب میں اضافہ ہونے لگا۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ حکومت عوامی امنگوں کے مطابق ڈلیور نہیں کرپائی۔

وجوہات جو بھی ہوں مگر انتخابی تقاریر میں خواہشات کا جو ہمالیہ کھڑا کیا گیا وہ زمین بوس ہونے لگا۔ ان دگرگوں حالات میں اپوزیشن جماعتیں باہر نکلیں اور ایک بار پھر سول بالادستی، رول آف لا، پارلیمان کی بالادستی کا نعرہ لگایا۔ پی ڈی ایم اے کے نام سے اتحاد بنا اور ملک بھر میں احتجاجی جلسوں کا شیڈول جاری کیا گیا اور شیڈول کا آخری جلسہ 13 دسمبر کو لاہور میں کرنے جا رہی ہے۔ اکتوبر 2011 کے تحریک انصاف کے جلسے کے 9 سال بعد اسی مقام پر ایک اور جلسہ ماضی میں کیے گئے مطالبات اور الزامات کے ساتھ ہوگا۔ مطلب یہ کہ کم سے کم ایک دہائی تک یہ قوم ایک دائرے میں گھومتی رہی حالات تبدیل نہیں ہوئے۔ ان دس سالوں کا الزام کس پر عائد کیا جائے۔

اگرالزامات کی بات کی جائے تو پی ڈی ایم کے الزامات ماضی کے اپوزیشن رہنما عمران خان کی طرف سے لگائے گئے الزامات سے زیادہ سنگین ہیں۔ جو کچھ 13 دسمبر کے جلسے میں کہا جائے گا اس کی سنگینی کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی 11 سیاسی جماعتیں اداروں کے آئینی حدود میں کام کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ عوام کے حق حاکمیت اور پارلیمان کی بالادستی کی بات کررہی ہیں۔ قانون کی حکمرانی کا مطالبہ کچھ ایسا غیر قانونی بھی نہیں کہ اس پر توجہ نا دی جائے۔ طاقت کے مراکز کو ان مطالبات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا کہیں ایسا نا ہوکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ یہ مطالبات عوامی سطح پر دہراے جائیں اگر ایسا ہوا تو ان مطالبات کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا

مریم نواز شریف 13 دسمبر کے جلسہ کے لیے لاہور کی سڑکوں پر نکلیں تو لاہوریوں نے بھرپور ساتھ دے کر ایک بار پھر ثابت کیا کہ لاہور میں نون لیگ کی مقبولیت تاحال برقرار ہے۔ بلاول بھٹو زرداری جاتی عمرہ پہنچے اور ایک بار پھر مریم نواز کے ساتھ مل کر سول بالادستی کے عزم کا اعادہ کیا۔ اور پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ملک کے اداروں کو عوام کا حکم ماننا پڑے گا۔ عوام کے حق حاکمیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ مولانا فضل الرحمن کے مطابق آئین کو بالادست تسلیم کرنا پڑے گا۔ اختر مینگل، اسفند یار ولی سمیت دیگر قومی رہنماؤں کے مطالبات پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

سول بالادستی، عوام کے حق حاکمیت اور اداروں کی آئینی حدود میں کردار کی یہ جنگ پہلے فیز کے بعد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ حکومت کی نا اہلی کے سبب عوام ایک بارپھر ان مطالبات پر اپوزیشن کا ساتھ دے رہی ہے اگر ایسے میں اپوزیشن نے کوئی بیچ کا رستہ تلاش کیا تو یاد رہے کہ پھر قومی سیاست میں ان کو کوئی راستہ نہیں ملنا۔ اس لیے پی ڈٰی ایم کو اپنے بیانیے کے ساتھ مخلص ہونا پڑے گا۔ کیونکہ جنگ کے فیصلہ کن مرحلے میں مذاکرات نہیں ہوتے ہار یا جیت ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).