نہیں پروفیسر چومسکی، یہ درست نہیں!


پروفیسر نوم چومسکی ہمارے عہد کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ لسانیات، تاریخ، سیاست، ابلاغیات، فلسفے، تعلیم اور عمرانیات کے شعبوں میں نوم چامسکی کی خدمات صدیوں فراموش نہیں کی جا سکیں گی۔ 92 سالہ امریکی پروفیسر کو حق اور سچ کی آواز سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے ہر موقع پر جبر اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی۔ امرکہ کے جنگی جنون پر سخت تنقید کی۔ اس کی بین الاقوامی پالیسوں کو نشانہ بنایا۔ ان کی ایک سو سے زیادہ تصانیف مختلف موضوعات پر قیمتی سرمایہ خیال کی جاتی ہیں۔ نوم چامسکی بانوے برس کی عمر میں بھی ذہنی طور پر پوری طرح بیدار ہیں۔ لکھ بھی رہے ہیں اور بول بھی رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں حبیب یونیورسٹی کراچی میں ورچوئل (فاصلاتی) لیکچر دیتے ہوئے پروفیسر صاحب نے بعض نہایت اہم باتیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”۔ آج بنی نوع انسان کی نئی نسل کو ایسے چیلنجز کا سامنا ہے جو بڑی حد تک نئے ہیں۔ یہ چیلنجز ہمارے لئے بوجھ بھی ہیں اور بہت بڑا سوال بھی“ ۔ نوم چو مسکی نے نئی نسل کو درپیش چار مسائل کا تذکرہ کیا۔ ایٹمی تصادم کا خطرہ، ماحولیاتی بحران، کمزور ہوتی ہوئی جمہوریتیں اور کاوڈ 19 یا مزید متوقع وبائیں۔

انہوں نے اپنے لیکچر کو امریکی صدر ٹرمپ کے بعد کی صورتحال تک محدود رکھا۔ یعنی یہ کہ ٹرمپ کے بعد کی دنیا کو کیا خطرات درپیش ہیں۔ کاوڈ 19 کے حوالے سے نوم چومسکی نے امریکہ، بھارت، اور برازیل کی کارکردگی پر کڑی تنقید کی اور جنوبی کوریا کی کارکردگی کو سراہا۔ چومسکی نے چین کو بھی خراج تحسین پیش کیا کہ اس نے نہایت مختصر مدت میں ویکسین تیار کر لی جو ٹیسٹنگ کے مرحلے سے گزر رہی ہے اور بہت جلد دنیا کو دستیاب ہو گی۔

چومسکی نے تنقید کی کہ امریکہ محض چین سے مخاصمت کی وجہ سے اس کی خدمات کو نظر انداز کر رہا ہے۔ چو مسکی کا کہنا تھا کہ ”دنیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث ایٹمی تصادم کے خطرے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم غیر معمولی حالات سے گزر رہے ہیں۔ یہ انسانی تاریخ کا بڑا ہی نازک دور ہے۔ ہماری سلامتی ایک کمزور دھاگے سے بندھی ہے“ ۔ چومسکی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں بھارتی سیکولرازم شدید خطرے میں ہے کیونکہ اقلیتوں کو کچلا جا رہا ہے اور کشمیر میں مظالم ختم نہیں ہو رہے۔ چومسکی نے کہا کہ جمہوریتیں کمزور ہو رہی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ لوگ خود اپنے حقوق کے لئے متحرک ہوں۔ انہوں نے ایشیاء، آسٹریلیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کی یونیورسٹیوں سے کہا کہ وہ ایسا نظام تعلیم اپنائیں جو جدید دنیا کے عملی مسائل اور زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہو۔

پروفیسر نوم چومسکی نے اپنے لیکچر میں پاکستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ۔ ”پاکستان سائنس کے میدان میں تیزی سے پیچھے لڑھک رہا ہے اور یہ پاکستان کے تعلیمی نظام سے تقریباً خارج ہو گئی ہے۔ کبھی پاکستان جدید سائنس میں آگے تھا۔ اس نے نوبل انعام لینے والے سائنسدان پیدا کیے لیکن اب سائنس کہیں دکھائی نہیں دیتی“ ۔ پروفیسر چومسکی کا کہنا تھا۔ اگر پاکستان ”مذہبی توہمات“ کی دنیا سے نہیں نکلتا، تو اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ پروفیسر چومسکی کا خیال ہے کہ پاکستان کے سنجیدہ سائنس دانوں کو جو عملی اور حقیقت پسندانہ نظام تعلیم کو زمینی حقائق سے ہم آہنگ رکھنا چاہتے ہیں، ان مذہبی توہمات سے نکلنا ہو گا۔

پروفیسر نوم چو مسکی نہایت محترم شخصیت ہیں۔ ان کی بات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ان کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ پاکستان کے نظام تعلیم کو جدید دنیا کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ ان کا یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ ہم سائنس کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ دو تین دہائیاں پہلے کے مقابلہ میں ہماری سائنسی تعلیم زوال کا شکار ہوئی ہے۔ آج سائنس کے شعبے میں پاکستان قابل ذکر بھی نہیں رہا۔ ہماری تحقیق کا معیار بھی دن بہ دن پست ہو رہا ہے۔

ایجادات کی دنیا میں ہم کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ کاوڈ 19 ہی کی مثال لے لیجیے۔ ہم محتاجوں کی طرح دیکھ رہے ہیں کہ کب کہاں سے کوئی اللہ کا بندہ ہمیں ویکسین فراہم کر دے گا جو ہم اپنے عوام کو دے سکیں گے۔ سکولوں اور کالجوں کو تو جانے دیجیے جہاں اول تو سائنسی لیبارٹریاں ہیں ہی نہیں، اگر ہیں بھی تو ان میں ضروری اشیاء دستیاب نہیں اور وہاں اسی طرح کے روایتی تجربات کی بے سود مشق جاری رہتی ہے جو نہ جانے کتنے برسوں سے ہمارے نصاب کا حصہ ہیں۔ یونیورسٹیوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

پروفیسر نوم چومسکی کے تمام تر احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ یہ گزارش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سائنس میں ہمارے یا اسلامی دنیا کے زوال کی وجہ ہر گز ”مذہبی توہمات“ نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام کے ساتھ توہمات کا تصور جوڑنا بھی بہت بڑی نا انصافی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بزرگ دانشور نے شایداسلام کی تعلیمات کا غور سے مطالعہ نہیں کیا۔ اسلام ہر گز توہمات، کا مجموعہ نہیں۔ اللہ پر ایمان اور حضرت محمد ﷺ کو خاتم النبین تسلیم کرنا اسلامی عقائدکی بنیاد ہے۔

قرآن کو اللہ کا کلام اور مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لئے روشنی اور ہدایت کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے تو تمام ”توہمات“ کی نفی کی۔ اللہ کی وحی کا آغاز ہی لفظ ”اقراء“ سے ہوتا ہے کہ پڑھ۔ پڑھنا، تعلیم اور تحقیق کے سفر کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ اسلام نے انسان کو کائنات کے مطالعے اور تحقیق و جستجو کا حکم دیا ہے۔ اللہ پاک نے سورت آل عمران میں مسلمان کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”بے شک آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق اور شب و روز کی گردش میں عقل سلیم والوں کے لئے (ا اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو کھڑے، بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر بھی اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور و فکر کرتے رہتے ہیں۔ اور پھر پکار اٹھتے ہیں کہ اے ا اللھ۔ تو نے یہ سب کچھ بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا“ ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں تحقیق و جستجو، یعنی سائنس کی اہمیت اور تلقین ایک مستقل موضوع ہے جس پر سینکڑوں کتب موجود ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نہ تو ”توہمات“ کا مجموعہ ہے اور نہ ہی وہ سائنسی تعلیم کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے۔ اس کا ایک بڑا ثبوت وہ عظیم مسلم سائنس دان اور ماہرین ہیں جنہوں نے مختلف علوم میں دنیا کی راہنمائی کی اور جن کی تحقیق و جستجو آج بھی ممتاز مقام رکھتی ہے۔

بے شک پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے رہ گیا ہے لیکن اس زوال کے بیسیوں اسباب ہیں۔ مذہب ہرگز ان اسباب میں شامل نہیں۔ ان اسباب اور محرکات کا ذکر کسی دوسرے کالم کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔

۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).