لاہور اپنے والٹیئر کو گرفتار نہیں کیا کرتا


روایت ہے کہ مئی 1968 میں پیرس کے سٹوڈنٹس کو خیال آیا کہ اس برس ابھی تک انقلاب نہیں آیا حالانکہ چار ماہ گزر چکے ہیں۔ تو انہوں نے سرمایہ داری، کنزیومرازم، امریکی سامراج اور ملکی سامراج کے خلاف انقلاب لانا شروع کر دیا۔ ساربون یونیورسٹی سے نکلے اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے انہیں بند کرنا شروع کر دیا۔ فرانس پر اس وقت مرد آہن جنرل چارلس ڈی گال کی حکومت تھی جو اتنا سرپھرا تھا کہ ہٹلری نازیوں سے لڑ گیا تھا، وہ ان بچہ لوگوں کو کہاں خاطر میں لاتا۔ اس کی پولیس نے پکڑ کر سٹوڈنٹس کو خوب دھونا شروع کر دیا۔ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں سٹوڈنٹ زخمی اور گرفتار ہوئے۔ لیکن فساد پھیلتا رہا اور فیکٹری ورکر بھی احتجاج میں شامل ہو گئے۔ یہ دیکھ کر ٹریڈ یونینوں کو اعلان کرنا پڑا کہ اصل میں یہ احتجاج ان کی کال پر ہوا ہے۔

خیر فساد اتنا پھیلا کہ خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ ایک موقعے پر جنرل ڈی گال کسی کو کچھ بتائے بغیر اچانک ملک چھوڑ کر کسی نامعلوم مقام پر چلا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ موصول فرانس کے ازلی دشمن جرمنی گئے تھے۔ پانچ لاکھ مظاہرین ”خدا حافظ ڈی گال“ کے نعرے لگاتے ہوئے جشن فتح منانے سڑکوں پر نکل آئے۔ لیکن ڈی گال واپس آیا اسمبلی توڑ کر الیکشن کا اعلان کر دیا۔ ساتھ مزدوروں کو دھمکی دی کہ میاں کام پر واپس آؤ ورنہ مارشل لا لگ رہا ہے۔ ساتھ ہی اس کے آٹھ لاکھ حامی بھی سڑکوں پر نکل آئے۔ الیکشن ہوا، یہ محض قسمت ہے کہ ڈی گال کی پارٹی پہلے سے زیادہ طاقت سے حکومت میں آئی حالانکہ ہمارے خیال میں تو عوام اس کے بہت خلاف تھے۔

اسے فرانس کی تاریخ کا سماجی انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد نہ صرف بچہ لوگ بدتمیز ہو گئے اور اپنے بڑوں اور استادوں کے فرمودات پر من و عن یقین کرنے کی بجائے ان سے سوال کرنے لگے، بلکہ مزدور بھی مل مالکان سے زیادہ پیسوں کا مطالبہ کرنے لگے۔ فرانسیسی سماج میں ایک انقلاب آ گیا۔

اس سماجی انقلاب میں فرانس کے دانشوروں کا بہت ہاتھ تھا۔ ان کا سرغنہ ژاں پال سارتر نامی ایک شخص تھا۔ ایک موقعے پر جب معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکل چکے تھے تو خیر خواہوں کی اکثریت نے صدر ڈی گال کو کہا کہ سارتر کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ ڈی گال نے یہ آئیڈیا ویٹو کر دیا اور کہنے لگا ”فرانس اپنے والٹیئر کو گرفتار نہیں کیا کرتا“ ۔ ایک دوسری روایت کے مطابق اس نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”سارتر فرانس ہے، فرانس کو کوئی چھو بھی نہیں سکتا“ ۔

یہ ساری بیکار قسم کی افسانوی تاریخ اس وجہ سے یاد آ گئی کہ گزشتہ دنوں بٹ کڑاہی پر پرچہ کاٹ دیا گیا۔ اہل لاہور کی نظر میں بٹ کڑاہی کا وہی مقام ہے جو اہل فرانس کی نگاہ میں والٹیئر کا۔

بیسویں صدی کے اوائل سے ہندوستان کا فکری اور ادبی مرکز لاہور رہا ہے۔ اسے متحدہ ہندوستان کا پیرس کہا جاتا تھا۔ فکری سوتے بھی یہیں سے پھوٹتے تھے اور فیشن کا بھی یہی مرکز تھا۔ بعض انٹلیکچوئل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس فکر و دانش کا مرکز ”انڈیا ٹی ہاؤس“ تھا جو بعد میں ”پاک ٹی ہاؤس“ کہلایا۔ تمام ادیب اور دانشور یہیں جمع ہوتے تھے۔ وہ اتنے زیادہ عقلمند تھے کہ چائے کا صرف ایک کپ خریدتے تھے مگر ساری شام اسی خریداری کے بل پر اس میز پر گزار دیتے تھے۔

مگر یہ انٹلیکچوئل یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ تمام ادیب و دانشور ادھر لکشمی چوک سے کھا پی کر چائے کا یہ ایک کپ پینے ادھر انارکلی آیا کرتے تھے۔ جس بڑے ادیب شاعر کو دیکھیں یا تو وہ لکشمی چوک کا رہائشی نکلتا تھا، یا پھر فلمیں دیکھنے یا کھابے کھانے وہاں پہنچا ہوتا تھا۔ لاہور ہندوستان کا دل تھا تو لاہور کا دل لکشمی چوک تھا۔ اور لکشمی چوک کی روح ظاہر ہے کہ بٹ کڑاہی ہے۔

اب ہر صاحب نظر پر یہ بات عیاں ہے کہ تحریک پاکستان سے لے کر ترقی پسند تحریک اور مولا جٹ تک، ہر بڑی تخلیق کے پس پردہ بٹ کڑاہی سے اخذ کردہ دانش اور قوت تحریک رہی ہے۔ فرانس کی فکری ترقی میں جو اہمیت والٹیئر کی ہے، وہی لاہور شہر میں بٹ کڑاہی کی ہے۔

فرانس اپنے والٹیئر کو گرفتار نہیں کیا کرتا تو لاہور اپنے بٹ کڑاہی کو کیسے گرفتار کر سکتا ہے؟ اب حکومت کی اس حماقت کی وجہ سے انقلاب آ کر رہے گا۔ اپوزیشن کی مردہ ہوتی تحریک میں لاہور کے والٹیئر کے خلاف اس مقدمے نے جان ڈال دی ہے۔ لاہوری ہر شے پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں مگر کھابوں پر نہیں۔ اب حکومت خواہ لاکھ رکاوٹیں کھڑی کرے مگر ہر لاہوری باہر نکلے گا اور لکشمی چوک سے سب کچھ کھا کر ہی پلٹے گا۔ اور اس دوران کھانا ہضم کرنے کے لیے یادگار پر جا کر اپوزیشن کے جلسے میں بھی شامل ہو سکتا ہے۔
پتہ نہیں حکومت کا کون دشمن ہے جس نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ لاہور کے والٹیئر کو گرفتار کر لے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar