بزدار کا لاہور کے لئے ترقیاتی پیکج کتنا فائدہ مند ہوگا؟


پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار لاہور کے لئے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان منصوبوں سے متعلق بریفنگ دینے کے لئے خصوصی طور پر کالم نگاروں، اینکر پرسنز اورسینئر صحافیوں کودعوت دی گئی تھی۔ تقریب کے دوران وزیر اعلیٰ نے لاہور کو اس کا حق دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اس میگا پراجیکٹ کے مختلف منصوبوں کے بارے میں بتایا۔ بلاشبہ لاہور کے لئے ساٹھ ارب روپے لاگت کے ترقیاتی منصوبوں کا یہ میگا پراجیکٹ ایک منفرد اہمیت رکھتا ہے جس سے نہ صرف تعمیرات کے شعبے سے وابستہ چالیس صنعتوں کو فائدہ حاصل ہوگا بلکہ ہزاروں، لاکھوں افرادکوروزگار کے نئے مواقع حاصل ہوں گے۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا لاہور کے لئے یہ میگا پراجیکٹ بہت سی انقلابی تبدیلیاں لائے گا۔ یہ ایک عوامی میگا پراجیکٹ ہے جس میں شہریوں کورہائش، صحت، آمدورفت کی جدید بنیادی سہولتوں کی فراہمی ساتھ روزگار کے مواقع بھی ملیں گے۔ لاہور میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کے پیش نظرفلائی اوورز اورانڈر پاسزکی تعمیر سے آمدورفت میں آسانی ہوگی جبکہ بین الاقوامی معیار کا جدید بس ٹرمینل اور الیکٹرک بسیں شہریوں کو سفر کی جدید اور معیاری سہولتیں فراہم کریں گی اور سب سے بڑھ کر بے گھرخاندانوں کو آسان ماہانہ اقساط پر فلیٹس کی فراہمی یقیناً لاہویوں کے لئے کسی بڑی خوشخبری سے کم نہیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ان ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اب سرمایہ کاروں کو آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کا انحصاراس ملک کی سرمایہ کاری پر منحصر ہوتا ہے۔

برطانیہ کے ماہر اقتصادیات ڈبلیو آرتھر لیوس نے اپنی تصنیف ”اقتصادی ترقی کا نظریہ“ میں لکھا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی قومی آمدنی 4 یا 5 فیصد ہے۔ ان ممالک میں یہ اخراجات قومی آمدنی کے 21 سے 31 فیصد تک ہوتے ہیں۔ مجموعی سرمایہ کاری میں 02 فیصدمیں ٹوٹ پھوٹ کے اخراجات 7 یا 8 فی صد ہوتے ہیں کیونکہ کسی ملک کی پیداوار کا انحصارا س ملک کی سرمایہ کاری پرہوتا ہے، اس لیے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کی پیداوار میں دن بدن فرق برہتا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی ترقی یافتہ ممالک کے برابر آنے کی امیدیں دن بدن کم ہوتی جا رہی ہیں۔

پنجاب حکومت کے میگا پراجیکٹ سے قبل وزیر اعظم عمران خان بھی تعمیرات کے شعبے کے لئے تاریخی پیکج کا اعلان کرچکے ہیں جس کے بارے میں بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اس پیکج سے نہ صرف سرمایہ کاروں کو فائدہ حاصل ہوگا بلکہ کالا دھن بھی گردش میں آ جائے گا جس سے ملکی معیشت میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے لیکن کچھ لوگ اس بات سے خوفزدہ بھی تھے کہ و ہ تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کر کے کہیں ایکسپوز نہ ہوجائیں۔ ان خدشات کو دور کرنے اور کالے دھن کو گردش میں لانے کے لئے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے یہ بھی اعلان کیا گیا کہ تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدن نہیں پوچھے جائیں گے اوراس شعبے میں ٹیکس کو بھی فکسڈ کر دیا گیا جس کامثبت نتیجہ نکلا اور ملک میں تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری بڑھنے لگی اورنئے تعمیراتی منصوبے شروع ہو گئے۔

قومی اسمبلی میں سن 2016 میں بھی انکم ٹیکس ترمیمی ایکٹ کے تحت ایک بل پاس کیا گیا تھا جس کے تحت یہ رعایت دی گئی تھی کہ ریئل سٹیٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے محض تین فیصد اضافی ٹیکس ادا کر کے بغیر کسی حکومتی روک ٹوک کے اپنے کالے دھن کو سفید کر سکیں گے۔ اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ دی جانے والی یہ عایت کوئی ایمنسٹی سکیم نہیں بلکہ اس کامقصد جائیداد کی خریدوفروخت کے اربوں روپے کے کاروبار کو رسمی معیشت میں شامل کرنا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستانی سرمایہ کار اپنا سرمایہ ملک میں لگانے کی بجائے دیگرترقی یافتہ ممالک میں لگانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں یہ ایسے سرمایہ کار ہیں جن کو ملک کی اقتصادی اور معاشی صورتحال سے کوئی غرض نہیں، انھیں بس اپنا منافع بلکہ بہت زیادہ منافع کمانے کی خواہش ہوتی ہے۔ اس بات کی تصدیق متحدہ عرب امارات کے حالیہ سرکاری اعداد و شمار سے بھی ہوتی ہے ان اعداد و شمار کے مطابق پاکستانیوں نے ایک سال میں دبئی اور یو اے ای کی دوسری ریاستوں میں پراپرٹی کے کاروبار میں آٹھ ارب ڈالرز تک کی سرمایہ کاری کی ہے۔

اسی طرح یورپ اور امریکہ میں بھی پاکستانیو ں نے سرمایہ کاری کی۔ پاکستانی سرمایہ کاروں کو اب قومی ذمہ داری نبھاتے ہوئے پاکستان کے تمام شعبوں خصوصاً تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لئے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک میں کوروناکی وبا اور بدحالی کے باعث پیدا ہونے والے معاشی اور اقتصادی بحران کا ازالہ کیا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).