جب مجھے حج کی سعادت نصیب ہوئی۔۔۔


اپنے ٹھکانے پر پہنچے۔ غسل لینے کے بعد شلوار قمیض پہن کر بڑا ہلکا پھلکا محسوس ہوا۔ اب رات کے کھانے کا وقت تھا سب کے لئے کھانا تیار تھا۔ میں نے کھانے سے معذرت چاہی اور باہر آ گیا خطیب صاحب پیچھے آئے اور کہا آپ کھانا ہمارے ساتھ کھائیں گے۔ میں نے کہا کہ دوپہر کو آپ کی طرف سے مہمان نوازی ہو چکی اب میں اس شرط پر کھاوں گا کہ خدمت کی اللہ آپ کو جزا دے مگر کھانے کی لاگت میں میری شراکت ضرور ہو گی۔ خطیب صاحب اس وقت تو مان گئے لیکن بعد میں انہوں نے اس مد میں کچھ لینے سے سختی سے گریز کیا جبکہ کمرے کے کرایہ کی ادائیگی میں پہلے ہی کر چکا تھا جو کہ بہت معمولی رقم تھی۔

اگلے روز غالباً ظہر کی نماز کے بعد واپس آ رہا تھا کہ راستے میں ہمارے ہم جماعت کیپٹن اظہار الحسن چوہدری ( بعد میں بریگیڈئیر ریٹائر ہوئے ) مل گئے وہ بڑی گرم جوشی سے ملے۔ پاکستان حج میڈیکل مشن کے ساتھ خدمات انجام دے رہے تھے اور پاکستان ہاؤس میں مقیم تھے۔ اگلے دو تین روز ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ اسی روز مغرب کے بعد سڑک پر کیپٹن ریاض قریشی اور میجر عبدالغفور شاہ سے ملاقات ہو گئی۔ کیپٹن ریاض بعد میں بریگیڈئیر ریٹائر ہوئے تھے اور جلد ہی اس جہاں سے رحلت فرما گئے تھے۔

میجر عبدالغفور شاہ بعد میں میجر جنرل ریٹائر ہوئے۔ دونوں صاحبان بیگمات کے ہمراہ تھے اور ابھی مکہ شریف پہنچے ہی تھے۔ معلوم ہوا کہ انہیں کہیں رہائش نہیں مل رہی۔ کہنے لگے ہمارا بھی کوئی رہنے کا انتظام کروا دو۔ میں نے اپنی صورت حال بتائی اور پوچھا اگر اتنے لوگوں میں رہ سکیں گے تو بات کرتا ہوں۔ کہنے لگے ٹھیک ہے۔ انہیں انتظار کرنے کا کہہ کر میں خطیب صاحب کے پاس آیا اور اپنے دوستوں کے لئے رہائش کی بات کی۔

خطیب صاحب مان گئے اور ہم دونوں جا کر ان لوگوں کو کمرے میں لے آئے۔ میرے معلم یوسف جمیل حلوانی تھے ان کے آفس میں جا کر اسی روز حاضری لگوا دی تھی۔ حج سے پہلے کے دو تین ایام بہت اچھے گزرے کیونکہ حرم شریف نزدیک ہونے کے سبب ہم ہر نماز میں پہنچ سکتے تھے یا باہر کی صفوں میں جماعت میں شامل ہو جاتے تھے۔ اماں جی کے ہاتھ کا پاکستانی کھانا نعمت غیر مترقبہ تھا۔ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ آج اس کمرے میں اکٹھے ہمارا آخری دن تھا اور اگلی صبح منیٰ کی جانب روانگی تھی۔

فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کے اجتماع میں سب سے کسمپرسی کی حالت انڈونیشیا کے لوگوں کی تھی۔ ان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی مگر معاشی طور پر ناگفتہ بہ حالات میں گزارہ کر رہے تھے۔ ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے مگر چھوٹے چھوٹے خوانچے لگا کر کچھ رقم اکٹھی کر لیتے تھے اور بسا اوقات کمیٹی کے اہلکار آ جائیں تو بھاگ کر گلیوں میں دبک جاتے۔ پچھلی چند دہائیوں میں اس قوم نے ماشا اللہ ترقی کی منازل طے کی ہیں اور دور حاضر میں یہ لوگ خاصے متمول نظر آتے ہیں۔

سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے اعداد و شمار پر مبنی ایک ہینڈ آؤٹ شایع ہوا تھا جس میں اس برس کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے حاجیوں کی تعداد بھی درج تھی۔ کچھ اعداد مجھے یاد رہ گئے ہیں جو یہ ہیں :۔

پاکستان 85000
نائجیریا 82000
انگلینڈ چند سو
فرانس 3
سپین 1
یورپین ممالک سے دور حاضر میں اضافہ حیران کن ہے۔ الحمدللہ۔

8 ذوالحج کی صبح نماز فجر کے بعد طواف کی سعادت حاصل کی اور ناشتہ سے فارغ ہو کر ہم سب منیٰ روانہ ہو گئے۔ روانگی سے پہلے آج کل حاجیوں کی تعداد زیادہ ہونے کے سبب طواف کرنے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ منیٰ کی طرف روانگی سات اور آٹھ ذالحج کی درمیانی شب سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ کمرے کے ساتھیوں کا گروپ علیحدہ تھا اس لئے میں اپنے طور پر ایک ویگن کے ذریعے منیٰ پہنچ گیا۔ راستے میں تلبیہ کا مسحور کن ورد ہوتا رہا۔ گیارہ بجے کے قریب ہم منیٰ پہنچ گئے تھے۔

ویگن کے ساتھیوں کو آسانی سے ان کا خیمہ مل گیا مگر میرا خیمہ نہیں دکھائی دیا۔ ان میں سے دو ساتھی میری مدد کے لئے میرے ساتھ پریشان ہوتے رہے بہت لوگوں سے مدد بھی لیتے رہے مگر یوسف جمیل حلوانی صاحب کا مکتب کہیں نظر نہیں آیا۔ پانچ روز کے قیام کی بات تھی اس لئے ٹھکانے کو تلاش کرنا انتہائی ضروری تھا۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے کی تلاش بسیار کے بعد گوہر مقصود مل گیا۔ ساتھیوں کو رخصت کیا اور نئے ساتھیوں میں جا بسا۔

سب سے تعارف ہوا اور یوں قیام منیٰ کا آغاز ہو گیا۔ زیادہ تر لوگ گروپ کی شکل میں تھے اور عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد زیادہ تھی۔ یہ مسکن شامیانوں کی چھت اور قناتوں کی دیواروں پر مشتمل تھا اور زمین پر دری بچھی ہوئی تھی جس پر رات کے وقت بستر سیدھے کر لئے جاتے تھے۔ عقب میں ایک لائن میں خندق نما بیت الخلا بنائے گئے تھے۔

منیٰ ایک عارضی شہر ہے جو ہر سال پانچ روز کے لئے بسایا جاتا ہے۔ اس زمانے میں حاجی صاحبان کھانا بھی خیموں کے اندر ہی تیار کرتے تھے جس کے باعث تقریباً ہر سال آتشزدگی کے واقعات رونما ہوتے جو بعض اوقات انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بھی بنتے تھے۔ ان ایام میں منیٰ میں خورد و نوش و دیگر ضرورت کی چیزوں کا بازار بھی لگا ہوتا ہے اور اس کے علاوہ ایک ہسپتال جو پاکستان میڈیکل مشن نے تیار کیا ہوتا ہے۔ منیٰ میں ایک روز کے ابتدائی قیام کے بعد اگلی صبح عرفات روانگی ہو جاتی ہے۔

اگلی صبح یعنی 9 ذوالحج کو فجر کی نماز کے بعد سب لوگ عرفات روانہ ہو رہے تھے۔ زیادہ تر لوگ گاڑیوں میں سوار تھے اور کچھ پیدل مگر پیدل چلنے والوں کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ پیدل جانے والوں کے لئے راستہ مخصوص تھا۔ میں نے پیدل چلنے کو ترجیح دی۔ اپنا بستر کندھے پر رکھا اور چل دیا۔ آٹھ متوازی سڑکیں میدان عرفات کی طرف جا رہی تھیں۔ لاکھوں لوگ بسوں میں سوار اور پیدل چلنے والوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سب دیوانہ وار ایک ہی ورد کرتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔

نہ گرم موسم سے پریشان نہ گرم لو کے تھپیڑوں کی پرواہ اللہ ہم لبیک کے ورد مسلسل کے ساتھ خشک ہونٹ لئے عاجزی و بے چارگی کی تصویر بنے رواں دواں سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ اپنے مالک و خالق، پروردگار عالم، بدیع السموات و الارض، وحدہ لا شریک اللہ رب العزت کو راضی کرنا ہے۔ تقریباً تیرہ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا تھا۔ عازمین حج کا ذوق و شوق اور جذبہ ایمانی دیدنی تھا، اگر فاصلہ تیرہ سو کلو میٹر بھی ہوتا تو اس جذبے میں کمی نہ آتی۔

جو لوگ گروپ کی شکل میں تھے انہوں نے گروپ سے بچھڑ جانے کے تدارک کے طور پر ایک لمبی چھڑی کے سرے پر کوئی نہ کوئی نشانی باندھی ہوئی تھی جن میں سب سے مضحکہ خیز چھڑی کے سرے پر باندھا ہوا ایک لوٹا تھا جو گروپ کے لوگوں کو متحد رکھے ہوئے تھا۔ میرے قریب ہی ایک بزرگ کسی نوجوان کو ہدایت دے رہے تھے کہ اس نے اسفنج کی جو چپل پہن رکھی ہے اس کے سٹریپ سبز کیوں ہیں۔ سبز جوتا نہیں پہننا چاہیے کیونکہ گنبد خضرا کا رنگ بھی سبز ہے لہذا یہ چپل اتار دو۔ میں نے مداخلت کی کہ ابھی کافی سفر باقی ہے وہ کیسے چپل بدل سکتا ہے منزل پر پہنچ کر اتار دے گا۔ میری بات کوئی تاثر نہ پیدا کر سکی اور نہ ہی بزرگوں کو پسند آئی۔ انہوں نے اس کے چپل اتروا کر پھینکوا دیے اور اسے باقی راستہ ننگے پاؤں چلنا پڑا۔

ہمارے بائیں طرف سڑک کے ساتھ ساتھ پہاڑ تھا جس پر کچھ اونچائی پر ایک ہموار سی دیوار نظر آ رہی تھی۔ ایک بزرگ نے بتایا کہ یہ نہر زبیدہ ہے۔ ہم چند لوگ نہر دیکھنے کے لئے اوپر چڑھ گئے۔ اس نہر کے بارے میں پڑھا ہوا تھا اس لیے حقیقت میں دیکھنا بہت اچھا لگا اور اتفاق سے اس وقت تک یہ ایک جاری نہر تھی مگر پانی کا لیول کافی نیچے تھا۔ بے شک زبیدہ خاتون کی طرف سے یہ ایک گراں قدر صدقہ جاریہ تھا۔

بلندی سے فرزندان توحید کے سفر سوئے عرفات کا نظارہ بہت دلکش لگا۔ تقریباً دو ڈھائی گھنٹے میں یہ با برکت سفر اختتام کو پہنچا۔ ابھی نماز ظہر میں کافی وقت تھا۔ کچھ لوگوں نے جبل رحمت پر جانے کی ترغیب دی۔ اسی سمت میں چل پڑے۔ فاصلہ طے ہونے کے ساتھ ساتھ بھیڑ میں اضافہ ہوتا گیا۔ کھوے سے کھوا چھلنے لگا۔ ابھی جبل رحمت کافی دور تھا کہ ہجوم نے ازدحام کی شکل اختیار کرلی ایسے میں میرے ایک پاؤں سے چپل نکل گئی، میں لا شعوری طور پر اٹھانے کے لئے جھکا مگر اٹھنا مشکل ہو گیا۔ کئی لوگ مجھے روندتے ہوئے اوپر سے گزر گئے۔ اللہ نے مدد کی اور بصد مشکل میں اٹھ پایا۔ وہیں سے میں واپس آ گیا۔ اس طرف جانا ہی ایک بیوقوفانہ فیصلہ تھا۔ جبل رحمت پر جتنے لوگ سما سکتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ لوگ وہاں جانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں حادثات ہوتے ہیں۔

میدان عرفات کے شروع میں ہی مسجد نمرہ واقع ہے جہاں سال بھر میں ایک ہی مرتبہ نماز پڑھائی جاتی ہے۔ میری خواہش تھی کہ مسجد کے اندر نماز پڑھوں بمشکل میں مسجد میں داخل ہوا۔ صحن سے ہوتے ہوئے مین ہال میں بھی جا پہنچا لیکن بیٹھنے کے لئے جگہ نظر نہ آئی اور زبردستی دوسروں کو تنگ کر کے میں نہیں بیٹھنا چاہتا تھا اس لئے باہر نکل آیا۔ گزشتہ روز منیٰ میں اپنے خیمے کو تلاش کرنے میں جو تلخ تجربہ ہوا تھا اس کے مد نظر میں نے فیصلہ کیا کہ وقت کے ضیاع سے بہتر ہے کہ ان مبارک ساعتوں سے مستفید ہوا جائے لہذا میں نے مسجد کے قریب ہی ایک فٹ پاتھ پر کوئی پانچ فٹ اونچائی والے پودے کے سایہ نارسا میں گدا بچھا کر پڑاو ڈال دیا اور چھتری بھی تان لی۔

عرفات کے میدان میں نیم کے پودے جنرل ضیاء الحق نے لگوائے تھے جو اس وقت چھوٹے تھے لیکن آج کل تن آور درخت ہیں جو حجاج کرام کو سایہ کی شکل میں آرام و سکون پہنچا رہے ہیں۔ پودے کا سایہ تو ایک ڈھارس تھی البتہ چلچلاتی دھوپ کی شعاوں کی راہ میں چھتری کے حائل ہونے سے دوپہر اچھی گزر گئی۔ کبھی ہوا کا جھونکا چھو لیتا تو وہ نعمت غیر مترقبہ تھا۔ وہیں پر ذکر اذکار کرتے خطبہ حج شروع ہوا۔ اگرچہ سمجھ نہیں آ رہا تھا مگر لاکھوں کا مجمع مکمل خاموشی کے ساتھ سن رہا تھا، ایک انتہائی متاثر کن منظر تھا۔ خطبہ کے اختتام پر ظہر اور عصر کی قصر نمازیں یکے بعد دیگرے ملا کر ادا کی گئیں۔ اور اس کے بعد ایک جامع دعا۔

اللہ تعالی نے 9 ذوالحج کے دن کرہ ارض کی ہر سر زمین سے آئے ہوئے سوالیوں کو اس میدان میں جمع کر کے ان کو نوازنے کا پروگرام بنایا ہوتا ہے اور اس عطاے خاص کے نزول کا پروگرام اس دعا کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ اب سے لے کر مغرب تک کا وقت وقوف عرفہ کا وقت ہے۔ بڑی ہی با برکت اور قبولیت کی ساعتیں ہیں جو یہاں موجود لوگوں کو نصیب ہو رہی ہیں۔ سب لوگ ذکر میں مشغول ہیں اور اپنے اپنے انداز میں مناجات کر رہے ہیں کوئی جھولیاں پھیلائے ہوئے ہیں، کوئی سجدہ ریز ہو کر گڑگڑا رہے ہیں، کوئی کھڑے ہو کر ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں، کوئی بیٹھ کر باری تعالی سے ملتجی ہے تو کچھ ناتواں لیٹے لیٹے اپنی عرضیاں ڈال رہے ہیں اس ذات اقدس خدائے ذوالجلال غفور الرحیم رب العالمین کے حضور بخشش کے لئے گڑگڑا رہے ہیں گناہوں پہ نادم ہیں سرزد ہونے والی زیادتیوں پہ تائب ہو رہے ہیں کوئی صحت کے لئے ملتجی ہے تو کوئی دنیاوی ضروریات کے لئے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے۔

یہ واحد دربار ہے کہ جہاں مالک کل سے جتنا مانگا جائے وہ اتنا ہی خوش ہوتا ہے اور اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آتی۔ آج کے روز رب کائنات کی طرف سے ان سب کی دعاؤں کی قبولیت کے علاوہ اپنی غفور ورحیمی کے مظہر خاص کے طور پر سب کے لئے بخشش کی عطائے عام ہے۔ اور تمام حاجیوں کو جہنوں نے اخلاص کے ساتھ حج کیا اور تائب ہوئے اللہ گناہوں سے یوں پاک کر دیتا ہے جیسے نو مولود گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔ سبحان اللہ۔

سائے پھیکے پڑ رہے تھے سورج پہاڑوں کی اوٹ میں اترنے لگا اور مغرب کی جانب صرف سرخی نظر آنے لگی ہر جانب ایک سناٹا طاری تھا۔ اذان مغرب سے قبل کی یہ ساعتیں قبولیت کی ساعتیں، اللہ کی رحمتوں و نوازشات کے نزول کی گھڑیاں عطائے عفو و در گزر کا دریا موجزن تھا کہ سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی چودھویں صدی کا آخری یوم عرفہ اختتام کو پہنچا۔ مؤذن نے اللہ اکبر اللہ اکبر کہا اور ساتھ ہی حکم ربی کی اطاعت میں میدان عرفات خالی ہونے لگا اور سب کی منزل مزدلفہ تھی۔

عرفات سے واپس منیٰ جاتے ہوئے تقریباً آدھی مسافت پر مزدلفہ نام کی وادی ہے جہاں پر حجاج کرام نے کھلے آسمان تلے شب بسری کرنا ہوتی ہے۔ پیدل چلنے والوں کے لئے یہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت تھی مگر بسوں کے مسافر بھیڑ اور انتظامی امور کے سبب دیر سے پہنچتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر سب لوگ مغرب اور عشا کی کسر نمازیں ادا کر کے عرفات سے لائی ہوئی کھانے کی اشیا کھا کر گزارا کرتے ہیں کیونکہ یہاں کچھ بھی میسر نہیں ہوتا۔

میں نے گدے کے اوپر ہی جانماز بچھایا اور کسر نمازیں ادا کیں۔ نماز کے بعد سب لوگ سو گئے اور سنا بھی یہی تھا کہ مزدلفہ میں صرف سونا ہی ہوتا ہے لہذا ہم بھی لمبی تان کر سو گئے۔ افسوس کہ اس وقت علم نہیں تھا اور نہ ہی کسی نے بتایا کہ یہاں ذکر اذکار کرنا ہوتے ہیں اگر چہ نماز بھی ذکر میں شمار ہوتی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ نماز کے علاوہ بھی اذکار کرنے چاہئیں تھے۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے کہ تم پر گناہ نہیں کہ اللہ کے فضل کی تلاش کرو پس جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعرالحرام (مذدلفہ ) میں اللہ کا ذکر کرو، اللہ کو یاد کرو جیسا کہ تمہیں ہدایت کی گئی اگر چہ اس سے قبل تم ناواقفوں میں سے تھے۔ ( سورہ بقرہ آیت 198 )

صبح فجر کے وقت قریبی ساتھیوں نے نماز کے لئے جگا دیا اور نماز سے فارغ ہو کر سب لوگ منیٰ کی طرف روانہ ہو گئے۔ منیٰ میں اپنے خیمے کے ساتھی بھی پہنچنا شروع ہو گئے۔ یہ 10 ذوالحج کی صبح تھی اور سب سے بڑا مسئلہ قربانی کا تھا۔ اس دور میں قربانی کا ٹوکن سسٹم نہیں ہوا کرتا تھا۔ ہر کوئی اپنے طور پر جانور خرید کر ذبح کرواتا تھا۔ خیمے کے ساتھیوں نے مشورہ کیا کہ سب لوگ حصہ ڈالیں اور گائے کی قربانی کریں۔ میں نے بھی دو حصے ڈال دیے ایک قربانی کے لئے اور دوسرا بطور دم کیونکہ مجھے شک ہوا تھا کہ کسی لمحے میں احرام میرے سر پر آ گیا تھا۔

میں خوش تھا کہ یہ لوگ قربانی کر کے آ جائیں گے مگر ایک بزرگ، جو قربانی پارٹی کے لیڈر تھے، نے کہا کہ سب مل کر جانور پسند کریں گے۔ اس طرح سب لوگ جانوروں کے باڑہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ ایک بڑا سا احاطہ تھا جس میں بے شمار جانور تھے زندہ بھی اور ذبح شدہ بھی کیونکہ جونہی جانور کا دام طے پا جاتا تھا وہیں اسے ذبح کر دیا جاتا۔ اب بزرگوں کو جانور پسند نہیں آ رہا تھا تا حتی احاطہ کے سارے جانور دیکھ لئے۔ ساتھ ہی دوسرا احاطہ تھا اس میں چل دیے۔

پہلے احاطے والی کارروائی دہرائی گئی اور تیسرے احاطے میں داخل ہو گئے۔ اس طرح کے سات آٹھ احاطے تھے، گندگی اور کیچڑ سے اٹے ہوئے۔ میں تو پہلے احاطے میں ہی اوبھ گیا تھا۔ میرے پاؤں کے انگوٹھے پر زخم بھی تھا تشنج کے خوف سے میں سخت ذہنی تناو میں تھا لہذا میں بزرگوں سے معذرت کر کے تیسرے احاطے سے ہی واپس آ گیا۔ فوری طور پر پانی کی بوتل خریدی اور زخم دھونے میں ساری انڈیل دی اور خیمے میں آ گیا۔ کافی دیر کے بعد باقی لوگ آئے اور انہوں نے قربانی ہو جانے کی نوید سنائی۔

دوپہر کے وقت بڑے شیطان کو رجم کیا زمین پر ہی ایک ستون کھڑا تھا جس کے گرد ایک بڑا سا دائرہ بنا ہوا تھا جس میں ستون سے ٹکرا کر کنکریاں گرتی تھیں۔ اس وقت تک شیطانوں کی جگہ پر پل نہیں بنے ہوئے تھے۔ یہ عمل آسانی سے ہو گیا۔ اس کے بعد قریب سے ہی ویگن مل گئی اور میں طواف زیارہ کے لئے مکہ شریف پہنچ گیا۔ زیادہ تر لوگ صبح کے وقت طواف زیارہ کر چکے تھے اس لئے بھیڑ زیادہ نہ تھی۔ الحمدللہ آسانی کے ساتھ طواف اور سعی بھی ہو گئی۔

میجر جمیل نے بتایا تھا کہ منیٰ میں اشیائے خورد و نوش حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتیں اس لئے اکثر لوگوں کے پیٹ خراب ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے مجھے ٹینڈ فوڈ اور جوس کے استعمال کا مشورہ دیا تھا جس پر میں سختی سے کاربند رہا۔ مکہ میں ایک ریستوران میں آلو اور انڈوں والا پراٹھا بن رہا تھا جو میں نے سیر ہو کر کھایا۔ میں ابھی تک احرام میں تھا اس لئے مکہ والی رہائش گاہ میں جا کر غسل کیا اور شلوار قمیص پہنی۔ مغرب تک واپس منیٰ پہنچ گیا۔

اگلے دو روز بھی منیٰ میں گزرے۔ اس دوران سوائے شیطانوں کو رجم کرنے کے اور کوئی مصروفیت نہ تھی۔ منیٰ میں دو دفعہ کیپٹن اظہار چودھری سے بھی ان کے ہسپتال میں ملاقات کرنے گیا تھا۔ منیٰ میں سب سے مشکل مرحلہ لیٹرین جانے کا ہوتا تھا۔ ویسے تو اچھی بنی ہوئی تھیں مگر استعمال کنندگان نے بوتلوں کے انبار لگائے ہوتے۔ میں تو گریز کرتا تھا مگر احتیاج تو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیتی ہے لہذا میں درجنوں کا جائزہ لینے کے بعد کہیں بچ بچا کر داخل ہوتا۔

اس دفعہ بھی منیٰ کے خیموں میں آتشزدگی کے واقعات ہوئے جس کی زد میں میجر عبدالغفور شاہ اور کیپٹن قریشی صاحبان کا خیمہ بھی آیا۔ اور تو خیریت رہی مگر ان کا سامان جل گیا۔ 12 ذوالحج کو مکتہ المکرمہ واپسی تھی۔ یہ سفر بھی میں نے پیدل طے کیا جو کہ بہت خوشگوار رہا۔ مدینہ شریف کی حاضری کے بارہ میں اس وقت تک یہی پروگرام تھا کہ ڈیڑھ مہینے بعد واپسی کے سفر کے دوران یہ سعادت حاصل کروں گا اس لئے اگلے روز طواف وداع کر کے اور اللہ تعالی سے دوبارہ حاضری کی استدعا کرنے کے بعد میں غروب آفتاب تک جدہ حاجی کیمپ پہنچ گیا۔ میری کراچی کے لئے فلائٹ اگلے روز تھی لہذا میں نے اپنا بستر لگایا اور رات بھر سویا رہا۔ صبح اٹھ کر بستر رول کر کے وہیں چھوڑ دیا اور ہینڈ بیگ لے کر کراچی کی فلائٹ میں سوار ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).