دو کالے ریچھ افغانستان سے پشاور کے چڑیا گھر کیسے پہنچ گئے


ریچھ
پشاور کے چڑیا گھر میں دو نئے ننھے منے مہمان افغانستان سے آئے ہیں، جو بظاہر یہاں آکر زیادہ خوش نہیں بلکہ خوفزدہ ہیں۔ شاید اسی لیے دونوں مہمان جالی کے پیچھے سے لوگوں کو تکتے رہتے ہیں۔

یہ دونوں مہمان ریچھ کے چھوٹے بچے ہیں جن میں ایک مادہ ہے اور ایک نر۔ دونوں کے مزاج سے ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی قسم کی انسانی مداخلت کو پسند نہیں کرتے۔

پشاور کے نئے قائم ہونے والے چڑیا گھر کے جس کمرے میں ان ننھے مہمانوں کو رکھا گیا ہے اس میں دو روشندان ہیں۔ یہ دونوں مہمان اس کمرے میں آتے ہی روشندان تک پہنچ گئے اور پھر وہیں بیٹھ گئے۔ ان روشندانوں سے وہ باہر کا نظارہ کر سکتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ جنگلی ریچھ قید میں خوفزدہ ہیں اور باہر کے نظاروں سے انھیں کچھ تسکیں مل رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’ریچھ پکڑنے کے لیے پہلے اس کی ماں کو مارا جاتا ہے‘

مرغزار چڑیا گھر کے زخمی ریچھ کی فریاد

نایاب کھالیں اسلام آباد میں کیسے بک رہی ہیں؟

ریچھ کے ان بچوں کو پھل دیے گئے لیکن انھوں نے پھل کھانے سے انکار کر دیا۔ جب سے انھیں اس کمرے میں رکھا گیا ہے اس وقت سے یہ اوپر روشندان میں اسی طرح کھڑے ہیں اور ایک دوسرے سے بھی جدا نہیں ہونا چاہتے۔

یہ ریچھ پاکستان کیسے پہنچے؟

ریچھ

محکمہ جنگلی حیات کے حکام نے بتایا ہے کہ افغانستان سے کوئی شخص ان ریچھ کے بچوں کو نشہ دے کر بوری میں بند کر کے لا رہا تھا۔ طور خم بارڈ پر تعینات اہلکاروں نے انھیں تحویل میں لے کر ایک کمرے میں بند کر دیا اور پھر محکمہ جنگلی حیات کے حکام کو اطلاع دی گئی جو ان کو بحفاظت چڑیا گھر لے آئے۔

پشاور میں چڑیا گھر کے ڈائریکٹر اشتیاق خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کو ملنے والی معلومات کے مطابق ایک شخص بوری میں بند کر کے ایک ہتھ ریڑھی میں یہ ریچھ کے بچے لا رہا تھا جنھیں بظاہر نشہ دیا گیا تھا۔ وہاں موجود اہکاروں نے دیکھا کہ بوری میں حرکت ہوئی اور پھر اس میں سے آواز بھی آئی، جب انھوں نے بوری کھلوائی تو اس میں ریچھ کے بچے تھے۔

محکمہ جنگلی حیات کے حکام نے بتایا کہ بظاہر دونوں بچے صحت مند ہیں تاہم ان کا خیال رکھا جا رہا ہے اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کی جا رہی ہیں کہ آیا یہ بچے انسانوں سے مانوس ہیں یا یہ جنگلی ریچھ ہیں۔

اشتیاق خان نے بتایا کہ بظاہر لگتا ہے کہ یہ وائلڈ ریچھ ہیں اور ان کی عمر ایک سال کے قریب ہے۔ ان کا وزن 30 سے 35 کلو گرام کے درمیان ہے۔ ان کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے انھیں خشک موسمی علاقے سے لایا گیا ہے۔

چڑیا گھر کے حکام کے مطابق ان کی عادات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا رہی ہیں جس کے بعد یہ اندازہ لگایا جا سکے گا کہ آیا انھیں دوبارہ جنگل میں چھوڑ دیا جائے یا انھیں اس طرح انسانوں سے مانوس کر کے چڑیا گھر میں ہی رکھا جائے۔

ان کا شکار کیسے کیا جاتا ہے؟

اشتیاق خان نے بتایا کہ ریچھ کے بچے پیدائش کے بعد اپنی ماں کے انتہائی قریب رہتے ہیں اور اپنی ماں سے ایک پل بھی جدا نہیں ہوتے۔ اکثر شکاری بچوں کو پکڑنے کے لیے ماں کو مار دیتے ہیں جس کے بعد بچے پریشان ہو جاتے ہیں۔ اس پریشانی میں ان بچوں کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ اب کیا کریں اور ایسی حالت میں شکاری ان کو پکڑ لیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ یہ بچے ہیں اس لیے زیادہ خونخوار نہیں ہوتے اور اپنا دفاع بھی صحیح طریقے سے نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ مادہ ریچھ کا شکار کرنے کے بعد اس کی کھال میں سٹفنگ کر کے اسے بیچ دیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’بچوں کے خوف اور ان کے مزاج سے بھی ایسا لگتا ہے کہ شاید ان کی ماں کو اس نے سامنے مار دیا گیا ہوگا‘۔

ریچھوں کی یہ نسل کہاں پائی جاتی ہے اور پاکستان کیوں لائِے جا رہے تھے؟

پاکستان اور افغانستان کے مختلف علاقوں میں دو قسم کے ریچھ پائے جاتے ہیں جن میں براؤن اور بلیک ریچھ شامل ہیں۔

پاکستان میں بھورے رنگ کے ریچھ انتہائی اونچے علاقوں میں پائے جاتے ہیں جیسے گلگت میں دیوسائی نیشنل پارک اور خنجراب نیشنل پارک۔ جبکہ کالے ریچھ کم اونچائی والے علاقوں میں ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ کالے رنگ کے ریچھ چترال، کوہستان، دیر اور گلگت کے کم اونچائی والے علاقوں میں پاتے جاتے ہیں۔

اشتیاق خان نے بتایا کہ اس موسم میں عام طور پر برف باری کی وجہ سے یہ جانور خوراک کی تلاش میں برف والے علاقوں سے نیچے آجاتے ہیں کیونکہ اوپر کے علاقوں میں خوراک ناپید ہو جاتی ہے۔

ان کے مطابق افغانستان سے جنگلی حیات کو اکثر سمگل کیا جاتا ہے کبھی کنٹینرز میں یا دیگر طریقوں سے لیکن کالے ریچھ پہلی مرتبہ پکڑے گئے ہیں۔

پاکستان میں کئی لوگ اپنے گھروں میں جنگلی جانور پالتے ہیں لیکن عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب کے کچھ علاقوں میں ریچھوں اور کتوں کی لڑائیاں بھی کرائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں جانوروں کی اس طرح لڑائیوں پر اگرچہ پابندی ہے لیکن خفیہ مقامات پر اس طرح کی لڑائیاں ہوتی ہیں اور ان پر بھاری رقوم لگائی جاتی ہیں۔ ریچھ اور کتوں کی لڑائی میں ایک ریچھ پر دو کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں جس سے یہ جانور شدید زخمی بھی ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں ان ریچھوں کو گلی کوچوں میں نچایا بھی جاتا ہے۔ اکثر خانہ بدوش شہر کی گلیوں میں ریچھ لے کر جاتے ہیں اور بندر کی طرح ڈگڈگی پر اسے نچاتے ہیں جس سے انھیں پیسے یا آٹا ملتا ہے۔ تاہم اب اس طرح کی سرگرمیوں میں پہلے کی نسبت کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32535 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp