استعفوں کی سیاست نتیجہ خیز ثابت ہوگی؟


حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان بداعتمادی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کوئی بھی فریق دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنے سے عملاً انکاری ہے۔ حزب اختلاف کا بڑا اتحاد ”پی ڈی ایم“ کا براہ راست نشانہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ، نئے انتخابات اور اسٹیبلیشمنٹ سے جڑے اداروں کے سربراہان ہیں۔ ان کے بقول عمران خان حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان جو باہمی گٹھ جوڑ ہے اسے ہر صورت توڑنا ہوگا۔ حکومت کے خاتمہ یا وزیر اعظم کی تبدیلی کے لیے تین راستے ہیں۔

اول وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے اسے کامیاب بنانا اور وزیر اعظم کو رخصت کر کے کسی متبادل وزیر اعظم کی طرف پیش رفت کرنا تاکہ سیاسی نظام چلتا رہے۔ دوئم اجتماعی طور پر پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں اجتماعی طور پر قومی، صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر ایک بڑا سیاسی بحران پیدا کریں تاکہ ملک میں حکومت کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ نئے انتخابات کا راستہ اختیار کرے۔ سوئم ملک میں ایک بڑی تحریک کے نتیجے میں ریاستی، وحکومتی نظام کو مفلوج کر دیا جائے اور حکومت کو ہر محاذ پر مجبور کیا جائے کہ وہ انتخابات کا راستہ اختیار کرے۔

حزب اختلاف کی پہلی سیاسی حکمت عملی یہ تھی کہ کسی طریقے سے حکومت او ر اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان دوریاں یا تلخیاں اس انداز سے پیدا کی جائیں کہ فیصلہ ساز حکومت کی حمایت سے دست بردار ہو کر کوئی متبادل راستہ اختیار کریں۔ اسی حکمت عملی کے تحت اداروں کے سربراہان کو ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت نشانہ بھی بنایا گیا تاکہ اداروں کے اندر سے بھی اپنے سربراہان کے خلاف ردعمل پیدا ہو۔ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ اسٹیبلیشمنٹ حکومت اور وزیر اعظم سے نالاں ہے اور متبادل کا سوچ رہی ہے۔ لیکن یہ حکمت عملی کامیاب نہ ہو سکی۔ دوسری حکمت عملی کے تحت اسٹیبلیشمنٹ سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ہم مذاکر ات کے لیے تیار ہیں لیکن یہ مذاکر ات حکومت سے نہیں اسٹیبلیشمنٹ سے ہوں گے اور اس کی شرط حکومت کا خاتمہ ہے۔ یعنی اسٹیبلیشمنٹ ہی سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ عمران خان کو باہر نکالیں۔

اب حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کی ایک نئی حکمت عملی قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی طور پر استعفوں کی سامنے آئی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے بقول تمام حزب اختلاف کی جماعتیں 31 دسمبر تک اپنے استعفے پارٹی قیادت کو جمع کروادیں تاکہ مناسب وقت پر یہ استعفے اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلیوں کو بھیجے جاسکیں۔ پی ڈی ایم کا خیال ہے کہ جب ایک بڑی تعداد میں اسمبلیو ں سے اجتماعی استعفے سامنے آئیں گے تو ضمنی انتخابات کا ماحول نہیں بلکہ عام انتخابات کا راستہ ہموار ہوگا۔ اصولی طور پر تو جب تک پارلیمانی ارکان کے استعفے اسپیکر کو جمع نہیں ہوں گے ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔ فی الحال پارٹی قیادت تک استعفوں کی سیاست کے پیچھے یقینی طور پر ایک دباو ڈالنے کی سیاست کی حکمت عملی زیادہ نظر آتی ہے۔

یہ بات بھی کافی حد تک بجا نظر آتی ہے کہ پی ڈی ایم کے اتحاد میں اسمبلیوں سے استعفی کے معاملے میں اختلافات موجود ہیں۔ اول پیپلز پارٹی کی حکمت عملی اسمبلیوں سے استعفی دینے کی بجائے پارلیمنٹ او رپارلیمنٹ سے باہر محاذ پر جدوجہد کی ہے۔ دوئم پیپلز پارٹی اس وقت سندھ کی حکومت اپنے پاس رکھتی ہے وہ کسی بھی طور پر وقت سے قبل اپنی حکومت کے خاتمہ کہ حق میں نہیں ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ اگر وہ پی ڈی ایم کے فیصلہ کے تحت اسمبلیوں سے استعفی دیتے ہیں تو ان کا فائدہ کم او رنقصان زیادہ ہوگا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو نے اپنے ارکان کو استعفوں پر بات کرنے سے روک دیا ہے۔ سوئم مسلم لیگ نون میں بھی شہباز شریف سمیت بہت سے لوگ اسمبلیوں سے استعفی دینے کے حق میں نہیں ہیں او ران کے بقول یہ حکمت عملی کارگر نہیں ہو سکے گی۔ اس لیے دیکھنا ہوگا کہ جب معاملہ واقعی اسپیکر کو استعفی جمع کروانے کا آیا تو کتنے مسلم لیگی اس فیصلہ کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔

ہماری سیاسی تاریخ میں عمومی طور پر استعفوں کی سیاست کا کھیل ماضی میں بھی ایک ہتھیار کے طور پر ہی استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ ایسا عمل اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب پس پردہ قوتیں اس کھیل کا حصہ ہوں یا ان کو کسی کی حمایت یا سیاسی تھپکی ہو تو یہ کھیل سامنے آ سکتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی فریق یا حزب اختلاف سیاسی تنہائی میں استعفوں کا فیصلہ کر کے سیاسی خودکشی نہیں کرے گا۔ خطرہ یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ نون یا پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن استعفوں پر بضد رہتے ہیں تو اس کانتیجہ پی ڈی ایم میں تقسیم کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کے بقول وہ حزب اختلاف کی جانب سے استعفوں پر ضمنی انتخابات کروادیں گے، اتنا آسان کام نہیں ہوگا۔ اگر واقعی اجتماعی طو رپر استعفے آتے ہیں تو یقینی طور پر سیاسی بحران کم نہیں بلکہ بڑھے گا بھی اور اس میں شدت بھی پیدا ہوگی۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کا اہم نشانہ مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات ہیں۔ خود مولانا فضل الرحمن کے بقول ان موجودہ اسمبلیوں سے سینٹ کے انتخابات کی کوئی سیاسی ساکھ نہیں ہوگی اور ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔ یعنی پی ڈی ایم کسی بھی صورت میں موجودہ سیاسی صورتحال میں سینٹ کے انتخابات کے حق میں نہیں۔ ان کے بقول سینٹ کے انتخابات اسی طرح ہو گئے تو اس سے وزیر اعظم عمران خان او ران کی حکومت کمزور نہیں بلکہ زیادہ مضبوط ہوگی۔

پی ڈی ایم کو خطرہ ہے کہ سینٹ جہاں حکومت کو عددی تعداد میں برتری نہیں تو وہ سینٹ میں برتری حاصل کر کے نیب یعنی احتساب کے حوالے سے اپنی مرضی کی قانون سازی کرنا چاہتا ہے جو یقینی طور پر حزب اختلاف کے حق میں نہیں ہوگی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت سیاسی ٹارگٹ سینٹ کے انتخابات کو روکنا ہے۔ پی ڈی ایم کے بقول اگر اجتماعی استعفے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے آتے ہیں تو سینٹ کے انتخابات ممکن نہیں ہو سکیں گے۔

اب دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ لاہو رکے جلسہ کے بعد پی ڈی ایم کی نئی سیاسی حکمت عملی استعفوں کے علاوہ کیا ہوگی؟ کیونکہ بقول پی ڈی ایم کے ہم نے ہر حال میں جنوری کے آخر میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنا ہے۔ اگر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ جاتا ہے تو کیا واقعی پیپلز پارٹی بھی اسی سخت گیر پالیسی کا حصہ ہوگی؟ کیا اسلا م آباد کا لانگ مارچ واقعی حکومت کی رخصتی کا سبب بن سکے گا اور اگر وہاں پی ڈی ایم کی سیاسی دال نہیں گلتی تو ان کا اگلا قدم کیا ہوگا؟ کیا اسلام آبادسے حکومت گراو کے بغیر واپسی سیاسی خودکشی نہیں ہوگی؟ اسی طرح ادارے جن کے سربراہان کو براہ راست نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ کیونکر پی ڈی ایم کے موقف کی حمایت کریں گے۔

اگر تمام معاملات پی ڈی ایم کی اپنی خواہش کے مطابق حل ہوجائیں او رعمران خان کی حکومت کو طاقت کے زور پر بھیج دیا جائے تو کیا عمران خان خاموش رہیں گے، یقینی طور پر نہیں اور پھر بحران ختم نہیں بلکہ بدستور باقی رہے گا۔ اس لیے بظاہر یہ لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس بھی سیاسی آپشن زیادہ نہیں۔ استعفوں کی سیاست بھی سیاسی دھمکی سے زیادہ نہیں ہوگی او رپیپلز پارٹی کی طرف سے اس حکمت عملی کا ساتھ نہ دینے پر پی ڈی ایم خود کہاں کھڑی ہوگی یہ بھی غور طلب پہلو ہے۔ واحد راستہ بحران کے حل کے لیے سیاسی ڈائیلاگ ہے اس کا ایجنڈا بھی سامنے آنا چاہیے او راس پر اتفاق رائے بھی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ڈائیلاگ کی پہل حکومت نے ہی کرنی ہے اور پی ڈی ایم کو ڈائیلاگ کے لیے حکومتی مینڈیٹ کو قبول کرنا ہوگا، وگرنہ ڈائیلاگ بھی پیچھے چلا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).