ملتان میں عشق اور لاہور میں شادی


کورونا وبا نے زندگی ہی بدل کر رکھ دی ہے، لوگوں، دوستوں، رشتہ داروں سے ملنا ملانا اورسماجی تقریبات میں جانا میرا سب سے محبوب کام ہے، نومبر کے آغاز میں ہی ملتان سے بہت ہی عزیز، مخلص اور محبت کرنے والے دوست علی شیخ نے فون کیا کہ بیٹی کی شادی کی تاریخ 5، 6 دسمبر طے ہو گئی ہے لہذا نوٹ کرلو، پوری فیملی کے ساتھ آنا ہے کوئی بہانہ نہیں چلے گا، پھر نومبر کے تیسرے ہفتے میں علی شیخ بھابھی کے ہمراہ لاہور شاپنگ کے لئے آئے اور رات گیارہ بجے مجھے آفس آ کر شادی کا کارڈ دیا، بھابھی نے حکم دیا بھائی فیملی ساتھ ضرور آنا ہے

پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ کوورنا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا، بیوی، بچوں، بہن، بھائیوں اور لاہور کے دوستوں کو تشویش ہوئی اور مفت مشورے ملنے لگے کہ حالات خراب ہو رہے ہیں اور پھر شادی میں شرکت، یہ تو موت کو دعوت دینے والی بات ہے مگر علی شیخ کو کس منہ سے جواب دیتا، لاہور میں ہی ہمارے مشترکہ دوست ملک ریاض کو فون کیا، پوچھا ملک صاحب کیا پروگرام ہے، وہاں بھی یہی ایشو تھا کہ گھر والوں اور دوستوں کا پریشر ہے کہ معذرت کرلو، میں نے پوچھا علی کو جواب دے سکتے ہو، ملک صاحب بولے، قطعاً نہیں، حل یہ نکالا کہ 6 دسمبر کی صبح نکلتے ہیں، بارات میں شرکت کر کے رات دس بجے واپس آ جائیں گے

28 نومبر کو علی شیخ کا فون آیا کیا پروگرام ہے بتایا ڈانواں ڈول ہے مگر بارات میں ضرور پہنچیں گے، علی نے جواب دیا کہ جناب آپ کے ہوٹل میں کمرے بک ہو گئے ہیں جب مرضی آؤ، 3 دسمبر کو جمشید رضوانی کا فون آیا، آرہے ہو، پروگرام بتایا تو جمشید بھڑک اٹھا، شرم کرو، ابھی رؤف کلاسرا کا فون آیا ہے کہ وہ شادی میں ضرور آئے گا، اس لئے لازمی پہنچو، مدت بعد تو تمام دوست اکٹھے ہو رہے ہیں اور پھر غصے سے فون بند کر دیا

بیوی، بچوں کو بتایا کہ جمشید رضوانی غصہ کر گیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اللہ خیر کرے گا، ہرصورت آؤ، بیوی نے تو اتنا زیادہ زور نہ دیا اس نے سوچا ہوگا دو، تین دن سکون سے گزریں گے مگر بیٹیوں نے گھیرا ڈال لیا، پاپا نہیں، حالات بہت خراب ہیں، اتنے زیادہ لوگوں میں احتیاط نہیں ہو سکتی، یہ رسک نہیں لینا چاہیے، بیٹیوں کو سمجھایا کہ عمر کے 50 سالوں میں 29 سال ملتانی دوستوں علی شیخ، سجاد جہانیہ، جمشید رضوانی، رؤف کلاسرا، طاہر ندیم، فیاض انور، آغا محمد علی، ناصر محمود شیخ اور درجنوں ایسے ہی دوستوں کے ساتھ گزار دیے، اب ان حالات میں ان کی خوشیوں میں شریک نہ ہونا منافقت اور خود غرضی ہوگی

خیر 5 دسمبر کو اکیلا کوئی 4 سال بعد ملتان پہنچ گیا کیونکہ نہیں چاہتا تھا کہ بیٹیاں کسی مشکل میں مبتلا ہوں، سیدھا جمشید رضوانی کے پاس پہنچے، چائے کا کپ پیا اور دوستوں کے پاس چلے گئے کیونکہ یہی دو گھنٹے تھے اس کے بعد وقت نہیں ملنا تھا، رات نو بجے مہندی میں پہنچے، ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا، وہاں ملتان کا معروف گلوکار نعیم الحسن ببلو، گلوکارہ نینسی انجیلا اور حیدر بھی موجود تھے، نعیم الحسن ببلو سے کوئی 20 سال بعد ملاقات ہوئی، یونیورسٹی کی یادیں تازہ کیں، نعیم الحسن ببلو ہمارے یونیورسٹی دور میں ملتان بلکہ پاکستان کے مقبول گلوکار تھے۔

مہندی کا پروگرام بہت طویل تھا، صبح چار بجے جمشید نے ہوٹل چھوڑا، دس بجے ناشتہ کرنے اٹھا تو ملک ریاض جو پہلے ہی لاہور سے اپنے آبائی علاقے میلسی پہنچ چکے تھے، پہنچ گئے، ملتان جانے کے لئے طاہر کلاسرا کو بھی تیار کر لیا کیونکہ طاہر کلاسرا ایسی شخصیت ہے کہ آپ پورا سال دن رات اس کے ساتھ رہیں ایک منٹ بھی بور نہیں ہونے دیتا، جسامت میں اداکارننھے جیسا اور حاضر جواب بھی ننھے کی طرح، کبھی کبھی مجھے یہ خیال آتا ہے کہ ننھے کی روح شاید طاہر کلاسرا میں آ گئی ہے

سجاد جہانیہ کی داڑھ میں درد تھا، مجھے لاہور میں ہی اس نے مطلع کر دیا تھا اور معذرت بھی کرلی تھی کہ ہفتہ کو شاید وقت نہ دے سکوں، لاہور سے روانہ ہوا تو سجاد جہانیہ کا فون آ گیا، پوچھا شاہ جی کہاں ہو، بتایا کہ ملتان آ رہا ہوں، کہنے لگا شام چھ بجے ڈینٹسٹ کے پاس جانا ہے، آپ کے لئے بیڈروم حاضر ہے، رات جب بھی چاہیں آجانا، سجاد کو بتایا کہ علی نے ہوٹل میں انتظام کر دیا ہے

دوپہر کو علی شیخ کے گھر تمام دوست اکٹھے ہوئے، رؤف کلاسرا رات دیر سے پہنچا تھا، وہ بھی تین بجے پہنچ گیا، پھر چھ بجے تک جو گپ شپ ہوئی ایسا لگتا تھا کہ شاید وقت پھر لوٹ آیا ہے، دوست بہت ترقی کرگئے، بہت بڑے نام بن گئے مگر ایک لمحے کے لئے یہ احساس نہ ہوا کہ کوئی بڑا اینکر بیٹھا ہے یا بڑا صحافی

میں نے دوستوں کوبتایا کہ بیٹیاں نہ جانے کے لئے بہت اصرار کررہی تھیں جس پر رؤف کلاسرا نے کہا کہ اس کے بیٹوں کو علم ہوا کہ بابا ملتان شادی میں جا رہے ہیں تو امریکہ سے بڑے بیٹے نے فون کیا، پاپا پلیز نہ جائیں، لوگ ملیں گے، گلے بھی ملیں گے، سلفیاں بنوائیں گے، ایسے میں کہاں احتیاط ہو سکتی ہے، پھر لندن سے دوسرے بیٹے کا فون آ گیا اور نصیحتیں کیں، رؤف نے کہا کہ میں نے بیٹوں کو جواب دیا کیسے علی کی بیٹی کی شادی مس کردوں، بیٹی کو دعاؤں کے ساتھ رخصت نہ کیا تو 30 سالہ دوستی کی لاج نہیں رہے گی

شادی میں پہنچے تو سجاد جہانیہ بھی آ گیا، ایک میز پر بیٹھ کر ماضی کو یاد کیاکہ وقت کتنی تیزی سے گزر گیا کچھ علم ہی نہیں ہوا، کل کی بات لگتی ہے ملتان سے تمام دوستوں نے اپنے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور آج بچوں کی شادیوں میں شریک ہو رہے ہیں، تمام دوستوں نے بیٹی کے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا اور سرخرو ہوئے یہ فرض بخوبی ادا کر دیا۔

اب تک جو زندگی گزاری اس میں سب سے خوبصورت وقت وہی تھا جو ملتان گزارا، مولا علی علیہ سلام کا فرمان ہے جس کے دوست ہوں وہ امیر شخص ہوتا ہے، ملتان سے واپسی پر سوچتا رہا کہ کتنا امیر شخص ہوں جسے ہیرے جیسے دوست ملے، دو روز ملتان رہتے ہوئے کچھ اور سوچنے کا موقع ہی نہ ملا واپسی پر ملتان کے عشق ہی سوار رہے، عشق بھی ایک نہیں تھا، درجنوں تھے یا شاید اس سے بھی زیادہ، بعض میں، میں بے وفا ٹھہرا اور بعض میں دوسرا بیوفائی کر گیا، المختصر کوئی عشق بھی منزل پر نہ پہنچ سکا، لاہور میں ابا جی نے اپنی بھتیجی سے شادی کر دی، تابعدار بچوں کی طرح کچھ بھی نہ کہہ سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).