صنفی تعصب: لمحہ موجود میں کیسے جیا جائے؟


قرنطینہ میں گزارے دو ہفتوں ک بدولت کچھ وقت ملا صرف اپنے لئے۔ ابتدائی دو تین دن کورونا نے تھوڑا بہت پریشان کیا لیکن اس کے بعد سکون ہی سکون تھا۔ نہ دفتر کی ذمہ داریاں اور نہ ہی گھر کے کام۔ اگر کسی کی کمی شدت سے محسوس ہوئی تو وہ ہے میرا بیٹا۔ لیکن اس کی مسکراہٹ اتنی حسین ہے کہ وڈیو کالز اور دور سے دیکھنے پر ہی میری ساری تھکن اور پریشانی بھگا دیتی ہے۔

ان دو ہفتوں میں اپنی پسند کی موسیقی سنی وہ بھی فل والیوم پر ہیڈ فونز لگا کر، نیٹ فلکس پر اپنی پسند کی فلمیں اور ڈاکیومینٹریز دیکھیں بنا کسی تعطل یا فاسٹ فارورڈ کے، کچھ کتابوں کو دوبارہ پڑھا جن میں لکھے قیمتی الفاظ سے منسلک ہونے کی خواہش بار بار جنم لیتی تھی لیکن وقت کی تنگی اجازت نہ دیتی تھی۔ لیکن سب سے اہم وقت وہ تھا جب انسانی رویوں کو پرکھنے اور جانچنے کا موقع ملا۔ اپنے ارد گرد موجود ان تمام معاشرتی روایات، اخلاقیات، رشتوں اور تعلقات کا تجزیہ کیا جن کو شاید زندگی کی مصروفیات کی دھول نے چھپا رکھا تھا۔ ذہن میں کچھ ایسے سوالات نے بھی جنم لیا جو اکثر ذہن میں ابھرتے تھے لیکن ان کو پیار سے تھپکی دے کر سلا دیا کرتی تھی۔ شاید ہم ان چیزوں کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتے جو ہماری معمول کی زندگی میں خلل ڈالیں یا شاید اس ڈر سے کہ یہ سوال ہمارے معاشرتی تعلقات اور رشتوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔

جب میں نے مختلف نقطہ نظر سے انسانی رویوں کا تجزیہ کرنا شروع کیا تو میں نے یہ جانا کہ ہم میں سے بیشتر لوگ ماضی یا مستقبل میں زندگی گزار رہے ہیں، اور شاید ہمارے الجھے ہوئے طرز عمل کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم ماضی یا مستقبل کے بارے میں سوچ کر ہی زندگی گزارتے ہیں، لیکن جو موجود ہے اور نظر آ رہا ہے اس کو نہیں جیتے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ماضی اور مستقبل میں رہنا منطقی ہے لیکن میرے مطابق جو موجودہ لمحے میں رہتا ہے وہ واضح طور پر زندگی گزار رہا ہے، کیوں کہ اصل حقیقت حال ہی میں پوشیدہ ہے۔

جس لمحے میں ہم زندہ رہتے ہیں اور تجربہ کرتے ہیں وہی تو ہے اصل زندگی۔ باقی تو سب ہو چکا ہے یا ہونا ہے اور اس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ موجودہ لمحے میں زندہ رہنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اپنی زندگی کو شعوری طور پر گزارا جائے، یہ جان کرکہ ہر لمحہ آپ جوسانس لیتے ہیں وہ ایک تحفہ ہے۔ موجودہ لمحے میں رہنے کی صلاحیت ذہنی تندرستی کا ایک اہم جزو ہے۔

ان دو ہفتوں میں مختلف طرح کی شخصیات کی خصوصیات کو صنفی تناظر میں بھی سمجھنے کی کوشش کی۔ شخصیت کی بہت سی پرتوں کو جانا اور اس بات کا بھی تجزیہ کیا کہ کیسے یہ پرتیں ہمارے رویوں میں جھلکتی ہیں۔ نفسیات پڑھنے یا پڑھانے والے لوگ اکثر شخصیات کی اقسام کا تعین مخصوص رویوں کے حامل افراد کی نفسیاتی درجہ بندی سے کرتے ہیں۔ جب ہم کسی سے پہلی بار ملتے ہیں، تو ہم اس کو بہت کم جانتے ہیں۔ لیکن ایک ہی وقت میں کئی برس تک کسی کو جاننے کے بعد بھی، ہم زیادہ تر سطحی رویوں کو دیکھ پاتے ہیں۔

لوگ اپنی ساری زندگی ایک ساتھ گزارنے کے باوجود ایک دوسرے کو نہیں جان پاتے۔ ایک دوسرے کو جاننے کا تعلق آپ کی سوچ سے ہے۔ اپنے ارد گرد نظر ڈالئے تو آپ کو تین طرح کے لوگ ملیں گے : پہلی قسم ہے ماضی میں رہنے والے (جو اکثریت میں ہیں)، عام طور پربہت جذباتی ہوتے ہیں اور آکثر ماضی میں ہونے والے واقعات، گفتگو اور مفروضات کو من و عن یاد رکھتے ہیں۔ اگر ان کی توجہ ماضی کے صرف غیر صحتمند واقعات پر مرکوز رہے تو، وہ حل نہ ہونے والے تنازعات، صدمات اور خوف کو ہمیشہ دل سے لگا کر رکھتے ہیں۔

ایسے لوگ ہمیشہ ماضی ہی میں جیتے ہیں، ناراضگیوں کا شکار رہتے ہیں، اور اکثر زندگی میں آکے نہیں بڑھ پاتے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو صرف حال میں جیتے ہیں : ایسے لوگ ہر لمحے سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور اپنی زندگی میں قابل عمل اہداف طے کر نے اور ان کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ مستقبل سے مکمل غافل بھی ہو جاتے ہیں جو ان کی زندگیوں کی کامیابیوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ تیسری قسم ان افراد کی ہے جو ہمیشہ مستقبل کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں، ہر وقت مصروف رہتے ہیں اور کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں بہت سے کام کرنا جسے انگریزی میں ملٹی ٹاسکنگ کہتے ہیں ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ وہ قدرتی طور پرمنصوبہ سازہوتے ہیں اور بظاہر کامیاب انسان گردانے جاتے ہیں، لیکن مستقل مستقبل کی فکر میں گھل گھل کر وہ زندگی کو جی نہیں پاتے۔

اسی حوالے سے صنف کے زیر اثر شخصیات کی مختلف اقسام اور خصائل کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے۔ اگرچہ جسمانی لحاظ سے مرد اور عورت بہت مختلف ہیں لیکن سوچ اور نفسیات سے متعلق فرق کا سوال بہت پیچیدہ ہے۔ مردوں اور عورتوں میں نفسیاتی فرق کی بنیادی وجوہات ارتقائی اور معاشرتی ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مرد اور عورت کی سوچ، احساس اور رویوں میں کس طرح کے فرق پائے جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات نے مردوں اور عورتوں کے مابین نفسیاتی فرق کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا ان نفسیاتی تفرقات کی وجوہات فطری اور حیاتیاتی ہیں، یا معاشرتی اور ثقافتی ہیں۔ کیا مرد اور عورت مختلف نفسیات کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں یا معاشرہ ان کی تشکیل اسی طرح کرتا ہے؟ اس کا تعلق صنف سے متعلق مخصوص کردار اور ذمہ داریاں بھی ہیں جو مرد اور عورت کی سوچ اور نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ زیادہ ترتفرقات بظاہر بہت بڑے نہیں ہوتے لیکن ان کے مضمرات نہایت اہم ہوسکتے ہیں۔

مارے صنفی تفرقات ہمارے آبا و اجداد کی بقا کی جنگ اور تجربات کی عکاسی کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام مغاشروں نے ہمیشہ مرد کو طاقتور اور عورت کو کمزور گردانا ہے۔ اس کی بنیدی وجہ یہ ہے کہ صنعتی انقلاب سے پہلے، جسمانی طاقت کا براہ راست تعلق حکمرانی اور اقتدار سے تھا۔ مرد جنگوں میں لڑتے تھے، درندوں کا شکار کرتے تھے، جسمانی مشقت سے عمارتیں کھڑی کرتے تھے، اور کھیتوں میں اناج بھی اگاتے تھے۔ جبکہ عورت چونکہ جسمانی لحاظ سے مرد کے برابر نہ تھی لہذا اس کو ہمیشہ کمزور اور کمتر تصور کیا گیا، یہ حقیقت جانتے ہوئے کہ ہر مرد کو عورت ہی جنم دیتی ہے۔

تمام جدید معاشرے، ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد صنعتی انقلاب سے مستفید ہوئے ہیں۔ اس وقت عورت کو معاشرے میں جو مقام حاصل تھا وہ صرف مردانہ تعصب کے ذریعہ نہیں قرار پایا تھا بلکہ یہ معاشرے کی ضرورت بھی تھی کیونکہ انسانی بقا کے لئے نسل کو آگے بڑھانا بہت اہم تھا۔ جب سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے صنعتی انقلاب کی وجہ سے معاشرے کے تحفظ اور زندگی کی بقا کے لئے بچے پیدا کرنے کی ضرورت کم ہو گئی تو مضبوط مردوں کی کھیتوں، فیکٹریوں اور جنگ میں کام کرنے کی ضرورت بھی کم ہونا شروع ہو گئی۔ کیونکہ اب ان کی جگہ مشینوں نے لے لی تھی۔ اور جسمانی طاقت سے زیادہ دماغی طاقت کی اہمیت بڑھنے لگی۔

لیکن ان تمام حقائق اور صدیاں گزرنے کے باوجود ترقی پذیر معاشروں میں صنفی تقاضے تبدیل نہیں ہو پائے۔ اب سوال یہ ہے کہ آج کی عورت جو تمام ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد ہر وہ کام کررہی ہے جو مرد کر سکتا ہے تو پھر طاقت کا سر چشمہ مرد ہی کیوں؟

دنیا ترقی کے ایک ایسے مقام پر پہنچ رہی ہے جہاں یہ مطالبہ بہت ضروری ہے کہ ہر انسان کو زندگی کے تمام شعبوں میں اور بالخصوص فیصلہ سازی کے عمل میں برابری کی بنیاد پر شامل ہونا چاہیے۔ اس تناظر میں پاکستانی معاشرہ اب بھی ذہنی طور پر شدید پسماندہ ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم یہ سمجھنا ہوگا کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک ہر شہری کو یکساں حقوق حاصل نہ ہوں۔ پاکستان میں زندگی کے تمام شعبوں میں مرد اور خواتین کے مابین بہت زیادہ تفاوت ہے مثال کے طور پر گھریلو معاملات کی فیصلہ سازی، وسائل / اثاثوں پر قابو پانا، ملازمت کے مواقع، تعلیم اور روزگار، ووٹ کا حق یا سیاسی عمل میں شرکت، وغیرہ وغیرہ۔ پاکستانی معاشرے میں مردانہ تعصب معاشرتی سیاسی اور معاشی نظام میں ضم ہو جکا ہے، اور اس کو مزید تقویت دینے کے لئے اکثر مذہب کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔

پاکستان میں خواتین کے حقوق اور خودمختاری کو بڑا دھچکا 1970 کی دہائی میں لگا، جب حکومت اپنی فوجی حکمرانی کے جواز کے لئے ایک مضبوط بنیاد کی تلاش میں تھی، جس نے بعد میں اسلامائیزیشنشن کی شکل اختیار کی۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ مذہب پر مبنی تحاریک سب سے پہلے خواتین کے حقوق پر حملہ کرتی ہیں۔ فحاشی کے خلاف نام نہاد لڑائی کے نام پرخواتین کے بنیادی حقوق کو نشانہ بنانے کی ہدایات جاری کردی گئیں اوراس حوالے سے خوفناک قانون سازی بھی کی گئی۔

ہمارے معاشرے میں خواتین کی حیثیت کو جانچنے کے لئے، نہ صرف عوامی شعبے میں بلکہ خاندانی سطح پر بھی ان کے کردار اور اہمیت کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ بنیادی خاندانی فیصلوں میں خواتین کی رائے کو کتنی اہمیت حاصل ہے؟ اور کیا وہ اپنی ذات سے متعلق فیصلے اپنی مرضی سے کر سکتی ہیں؟ ہمارے معاشرے میں، مثالی مرد کو قابل، مستحکم، مضبوط، ضدی، پراعتماد اور جارحانہ رہنما کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ مثالی خاتون مطیع، جذباتی، شائستہ، حساس، دوستانہ، نرم مزاج اور پیروکار کی حیثیت سے دیکھی جاتی ہے۔

ایک عمومی معاشرتی تصور یہ ہے کہ بچپن میں عورت کو اپنے والد کے تابع رہنا چاہیے، شادی کے بعد اپنے شوہر کے تابع ہونا چاہیے اورشوہر کے بعد اسے اپنے بیٹوں کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنی ہے۔ عورت کو کبھی بھی مکمل طور پر خود مختار نہیں ہونا چاہیے۔

اس حوالے سے صرف غیر تعلیم یافتہ اور غریب خواتین کی حق تلفی نہیں ہو رہی بلکہ بظاہر بہت مہذب اور پڑھے لکھے مرد بھی عورت سے مشورہ لے کر فیصلہ کرنے کو بالکل غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ مردوں کی اکثریت اب بھی ان تمام دقیانوسی معاشرتی روایات کی پاسداری کرتی ہے جہاں ان کی برتری قائم رہ سکے۔ آج بھی عورت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک اچھی ماں، بیوی اور بہن تبھی ہو گی جب وہ گھر کے سربراہ مرد کے ہر فیصلے کی من وعن عطاعت کرے گی اور کبھی بھی برابری کے حقوق کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ بہت سی اعلی تعلیم یافتہ خواتین جو برسر روزگار بھی ہیں اور خاندان کی مالی معاونت بھی کررہی ہیں، برابری کے حقوق کا مطالبہ نہیں کر پاتیں۔

ہمارے معاشرے میں عورت کسی مرد سے شادی نہیں کرتی بلکہ قبیلے سے شادی کرتی ہے۔ آج بھی عورت سے ہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ اس کے پورے خاندان کواپنائے لیکن اگر کبھی بیوی کے خاندان کو اس کی کسی بھی طرح کی معاونت درکار ہو تو شوہر کی انا جاگ جاتی ہے اور وہ اس تصور ہی کو نا قابل قبول قرار دے دیتا ہے۔

افسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ اس معاشرے میں والدین اور ان کی بیٹیوں کے مابین شادی کے بعد ایک فاصلہ بنا دیا جاتا ہے۔ کچھ شادی شدہ لڑکیوں کو تو ان کے والدین کے گھر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ انہیں یا تو خاص مواقع پرہی اپنے والدین سے ملنے کی اجازت ہے جس کا فیصلہ شوہر یا سسرال والے کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لڑکیوں کو ان کے والدین کے گھر میں ٹھہرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ روایتی تصور بالکل غلط ہے کہ شادی کے بعد والدین کی بیٹیوں کی حمایت ان کی ازدواجی زندگیوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ اگر والدین یہ محسوس کریں کہ ان کی بیٹی کسی بھی طرح کی زیادتی کا شکار ہے اور اس کی حق تلفی ہو رہی ہے تو ان کو اپنی اولاد کو تحفظ اور اعتماد دینا جاہیئے۔

کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہوتا ہے اور اگر خاندانی یونٹ میں فیصلہ سازی میں عدم توازن موجود ہے، جس کا مطلب ہے کہ تمام اختیارات اور طاقت صرف مرد کے لئے ہیں تو پھر معاشرے کی دیگر تمام اکائیوں میں اس کی روک تھام کرنا بہت مشکل ہے۔

ہمارا معاشرہ دقیانوسی صنفی تصورات کو مذہب اور ثقافت کا لباس پہنا کر معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں کو چھپاتا رہا ہے۔ ان نا انصافیوں کی روک تھام کے لئے اس کی وجوہات کی نشاندہی اور روک تھام کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں خواتین کا کردار بہت اہم ہے، جب تک ایک ماں خود اپنے حقوق سے آکاہ نہیں ہو گی وہ اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت، صنفی تعصب کے بغیر نہیں کرسکتی، پاکستانی معاشرے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے بارے میں ماں کا رویہ انتہائی متعصبانہ ہے جو معاشرے میں صنفی تعصب کو فروغ دیتا ہے۔ تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ خاندان کے لوگوں کے رویے اور سلوک بچے کی سوچ اور فہم پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کا احترام نہیں کرتے تو ان کے بچے بھی اپنی آنے والی زندگی میں وہی رویے اپناتے ہیں۔

دوسرا اہم کردار اساتذہ اور تعلیمی نصاب کا بھی ہے، جو طالب علم کی سوچ اور رویوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ اسکولوں کو والدین اور اساتذہ کی میٹنگز کے دوران اس موضوع پر بات کرنی جاہیئے اور رہنمائی فراہم کرنا چاہیے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو دوران تدریس صنفی مساوات سے متعارف کرانا چاہیے اور بالواسطہ یا بلا واسطہ ایسے پیغامات دینے چاہیئیں جن سے ان کو شعورملے اور انہیں ایسی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف کرنا چاہیے جو صنفی مساوات کو فروغ دیں۔ اس کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو صنفی مساوات کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لئے کام کرنا چاہیے۔

آخر میں تمام والدین سے میری التجا ہے کہ خدارا اپنے بچوں سے صنفی مساوات اور خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کریں اور ان کی سوچ کو جاننے کی کوشش کریں۔ ان کو صرف ڈگری نہیں بلکہ اپنے حقوق وفرائض کے متعلق شعور اور آگہی بھی دیں۔ تبھی ہم آنے والی نسلوں کو صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ بنا سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).