انمول خرانے کے نادان رکھوالے


صادقین کی تحریر اور شری کرشن کی مورتی کے ساتھ گوتم بدھ کے یہ مجسمے میرے بک شیلف کا حصہ ہیں۔ اس کونے کو دیکھ کر میرا راجکمار من سدھارتھ کی طرح بے گھر سالک سا ہو کر ”اندرسالا“ یعنی اپنے اندر کی غار میں ڈوب جاتا ہے۔ بدھ مت سے مجھے ہمیشہ ایک عجیب سا لگاؤ رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ ٹیکسلا اور جولیاں کے آثار اور پاٹھ شالائیں ہیں۔ جولیاں یونیورسٹی ہو یا ٹیکسلا کی خوشبودار ٹھنڈی چھاؤں، بدھ مت کے ان آثار کو دیکھتے ہی روح پانچویں صدی عیسوی میں پہنچ جاتی ہے۔

کہتے ہیں چوتھی صدی قبل مسیح میں ٹیکسلا میں تین مذہب رائج تھے : ’بدھ مت‘ ، ہندومت ’اور‘ زرتشت ’اور مذہبی رواداری عروج پر تھی۔ یہ ایک پرسکون شہر تھا۔ ٹیکسلا میوزیم جائیں تو دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے ؛ کسی خاندان کا چولہا، کسی الہڑ مٹیار کا کاجل، کسی البیلے جوان کا ستار نما آلہ۔ جانے وہ کیسے لوگ ہوتے ہوں گے ، جانے ان کی دھنیں کتنی مدھر ہوتی ہوں گی ، ان کے گیتوں کے بول کیا ہوں گے ، ان کے سر اور لے کیسے ہوں گے ، ان کی محبت کی داستانیں کیسی ہوں گی ، ان کے چاند کا زرد تھال کیسا ہوگا اور جانے ان کا دسمبر کیسا ہوتا ہوگا۔ ٹیکسلا کی زمین حملہ آوروں کے لئے بہت آسان ہدف تھا، وجہ صاف ظاہر ہے ؛ محبت، علم اور فلسفے میں ڈوبی اس سرزمین کے باسیوں نے کبھی ہتھیار اور تیز دھار آلے بنانے پر وقت ضائع ہی نہیں کیا۔

ویسے شاید اس تہذیب سے انسیت کی وجہ میری ”رگ شیعت“ کی تسکین بھی ہے۔ کہتے ہیں کہ جابجا دکھنے والے سٹوپے (مثلاً موہڑہ مرادو سٹوپا) درحقیقت گوتم بدھ اور ان کے حواریوں کی خاک کا مدفن ہیں۔ ابتدا میں مہاتما بدھ کی خاک یا ہڈیوں کو آٹھ سٹوپوں میں محفوظ کیا گیا۔ اشوک اعظم نے اس خاک کو سلطنت کے تمام بڑے صوبوں میں بھجوایا تاکہ جابجا شاندار سٹوپے تعمیر ہوں اور یوں یہ خاک چوراسی ہزار سٹوپوں میں محفوظ ہوئی۔ کئی جگہ ایک چٹکی خاک کو مٹی کی ڈھیری میں ملا کر تقسیم کیا گیا۔ کون جانے یہ خاک ان کے لئے خاک شفا ہو۔ اور کون جانے وہ اس خاک کی تسبیح پروتے ہوں۔ آخر معجزے کا تعلق عقیدت و عقیدے سے بھی تو ہوتا ہے۔

مہاتما بدھ یعنی سدھارتھ کے اقوال بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں : ”وجود کے تمام عناصر عارضی ہیں۔ وجود آتا، ہوتا اور چلا جاتا ہے۔ جن چیزوں کو ہم پائیدار سمجھتے ہیں وہ عارضی واقعات کے سوا کچھ نہیں۔ ہماری خواہشات اور ضرورتیں ہی ان کی پائیداری کا سراب پیدا کرتی ہیں۔“ ۔ کیسا بے پناہ انسان تھا یہ جس نے وجود کی حقیقت کو سمجھ لیا، نروان حاصل کر لیا۔

کوشش میری یہی تھی کہ یہ تحریر سراسر غیر سیاسی ہو، لیکن لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے۔ پنجاب میں ٹیکسلا، کے پی کے میں تخت بائی اور وادیٔ سوات میں جنم لینے والی گندھارا تہذیب۔ کئی سو کلومیٹر پر پھیلا یہ ایسا عظیم الشان خزانہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کالعدم مدارس کو دیے گئے فنڈز کا کچھ حصہ بھی اگر ان کی ترقی و اشاعت پر لگاتے تو چار سال میں یہ علاقے سیاحت کے بہترین مراکز ہوتے۔ یہ علاقے نہ صرف تاریخ دانوں اور آثار قدیمہ کے ماہرین کے لئے سونے کی کان ہیں، بلکہ بدھ مت کے پیروکاروں کے لئے بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

ضلع ہری پور میں خانپور ڈیم کے قریب بھمالہ سٹوپا تو ان کے لئے پوری دنیا میں سات مقدس ترین مقامات میں سے سب سے اوپر سمجھا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ بدھ مت دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے جس کے کروڑوں پیروکار ہیں، ذرا سوچئے اگر انہیں ان کے مقدس ترین مقام تک آسان رسائی دے دی جائے تو اس کے مفید نتائج کہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔

گندھارا تہذیب، جس کی جنم بھومی پاکستان کا خطہ ہے، دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے۔ اسی طرح انڈس ویلی جس کا گڑھ پاکستان کے سندھ اور پنجاب ہیں، دنیا کی دوسری قدیم ترین تہذیب ہے۔ رومن، یونانی، مایا حتی کہ مصر کی تہذیبیں اس کے مقابلے میں نئی ہیں لیکن جن ممالک میں ان تہذیبوں کے آثار ہیں (مصر، یونان، روم وغیرہا) وہ ان کے بل بوتے پر پوری ملکی معیشت چلا رہے ہیں۔ معیشت تو ہم بھی چلا لیتے اگر اس طرف توجہ ہوتی۔

ادھر توجہ تو کیا ہونی، وطن عزیز کو مذہبی رواداری کے راستے پر لانے کے بجائے شدت پسندی کی راہ پر ڈال دیا گیا۔ اب ہزاروں سال پرانا کوئی مجسمہ ملتا ہے تو مجاہدین اسلام اس کا سر قلم کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ ایسے ہی حالات راجا داہر اور سندھ کے دوسرے قدیم بادشاہوں کے ہیں جن کے اروڑ جیسے میلوں پر پھیلے شہر آج پتھروں کا ڈھیر ہیں۔

بات کہاں سے نکلی تھی اور کہاں پہنچ گئی۔ تاریخ کے زمینی آثار ہوں یا خود تاریخ، ہمیں انہیں ان کی اصل شکل میں محفوظ کرنا ہی ہو گا۔ یہ ہماری اپنی تاریخ، اپنے آپ اور اپنی نسلوں سے امانتداری کا تقاضا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).