طلبہ اور یونین


ایک ریاست کا بادشاہ مر گیا۔ اس کی مسند پر بیٹھنے والا بادشاہ نیا نویلا سیاستدان، گرم جوش نوجوان اور قوم کی ہمدردی رکھنے والا تھا۔ حکومت سنبھالتے ہی اس نے عوام دشمن پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ٹھان لی مگر اس شرط پر کہ عوام اپنی رائے احتجاج کی صورت میں سامنے رکھے۔ کافی عرصے تک جب عوامی ردعمل سامنے نہ آیا تو اس نے حکم صادر کیا کہ عوام دشمن پالیسیاں مزید سخت کر دی جائیں مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ عوام حسب سابق خاموش ہے۔

اس نے بے حسی کا یہ عالم دیکھا تو حکم نامہ نکالاکہ کل سے ہہر شخص کو کام پر جانے سے پہلے جوتے مارے جائیں گے۔ جب یہ سلسلہ چلا توعوام کچھ دن بعد احتجاج کرتی نظر آئی بادشاہ خوش ہوا کہ عوام زندہ ہے اور خود عوامی مطالبات سننے پہنچ گیا۔ معلوم کیا کہ مطالبات کیا ہیں مگر عوام نے کہا کہ مطالبہ صرف ایک ہی ہے کہ جوتے مارنے والے افسران کی تعداد بڑھائی جائے کیوں کہ ہم کام کاج پر جاتے ہوئے دیر کا سامنا کر رہے ہیں۔

حال ہی میں ہر سال کی طرح اس سال بھی طلبہ یونین کی بحالی کے لیے اور دیگر مسائل جن کا سامنا طلبہ عرصہ دراز سے کر رہے ہیں ان کے حل کے لیے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیاجس کے بعد بغیر کسی مثبت نتیجے کے سب مظاہرین ناکامی کا سکہ اپنے نام کیے اپنے گھر کو لوٹ گئے۔

آخر طلبہ کی طاقت کو ناکامی کا سامنا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟

ہماری مثال مندرجہ بالا کہانی میں موجود عوام کی سی ہے کہ جن کو جوتے کھانے کی پرواہ ہرگز نہیں مگر یہ کہ کام کاج نہ رکے اور نہ کام کاج سے دیر ہو۔ ظلم ہوتا رہے قبول ہے مگر حقوق کے لیے میدان عمل میں رکنا حرام ہے۔

میرے ذاتی تجزیے میں اب طلباء، طلباء نہیں رہے بلکہ کوئی ”سرخہ“ تو کوئی ”ملاں“ ، کوئی ”سوشلسٹ“ ہے تو کوئی ”کامریڈ“ ، کوئی ”لبرل“ ہے تو کوئی ”سیکولر“ ، کوئی ”دہشتگرد“ ہے تو کوئی ”دشمن دین“ ۔ اگر میری رائے لی جائے کہ میری نظر میں طلبہ کتنے ہیں؟ تو شاید میرا جواب بہت ہی محدود ہندسوں پر مشتمل ہو۔

یونین کی اہمیت سے طلباء روشناس ہی نہیں ہیں۔ کوئی اس کو سیاسی مقاصد تو کوئی ذاتی مشہوری کے لیے نامزد کرتا ہے۔ مگر یہ نہیں سوچتے کے آپ کے پاس اب لیڈرشپ پیدا کرنے کے ذرائع کون سے ہیں۔ اگر یونین نہیں ہوگی تو آپ کے پاس اور کون سا پلیٹ فارم ہے جس کی مدد سے آپ اپنی لیڈرشپ کی خصوصیات کو سامنے لا سکتے ہیں اور بہتری پیدا کر سکتے ہیں۔ پیدا ہونے والے غلط شبہات براہ راست طلباء اور قوم کے لیے زہر قاتل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

بہر حال! اس دفعہ جو طلبہ یونین کی بحالی کے لیے مظاہرہ ہوا اس مظاہرے کو گزشتہ برس کی طرح بے دین لوگوں سے منسوب کر کے بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں پر حیرت ہے کہ وہ کس دین کا نعرہ لگاتے ہیں۔ تاریخ کی رائے کے مطابق دین تو نام ہی اہنے حقوق کی جدوجہد کا ہے۔ خد ا جانے محمد ﷺ کی جدوجہد کی مثال دینے والے طلباء اپنے حقوق کے لیے کیوں جدوجہد نہیں کرتے؟ ابوبکر (رض) ، عمر (رض) و عثمان کی وفاداریوں کی مثالیں دینے والے خدا جانے اپنے ساتھ کیوں وفاداری نہیں کرتے؟

علیؑ کی شجاعت کے قصے سنانے والا کیوں بھیگی بلی بن کر چند چھوٹے چھوٹے مسائل کی وجہ سے سر چھپا کر بیٹھ جاتا ہے؟ اور مسائل بھی ایسے جو چند منٹ کی گفتگو سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ حسنؑ کی صلح پسندی کا تزکرہ کرنے والا اپنے حقوق پر سمجھوتا کرتا ہے مگردوسرے سے صلح کیوں نہیں کرتا؟ حسینؑ کی قربانی کا مقصد بیان کرنے والا کیوں بھاگتا پھرتا ہے اس ذمہ داری سے جو حسینؑ کی طرف سے عائد کر دی گئی ہے؟

آپ یہ سوال کسی کے سامنے دہرائیے اور خدا کے فضل سے بے شمار دلیلیں سننے کو تیار ہو جائیے۔ حقوق کی آواز اٹھانا تو دینداروں کا خاص وظیفہ ہے مگر افسوس حقوق کو فرقوں میں تقسیم کر دیا گیا ”کوئی سرخہ تو کوئی ملاں“ ، کوئی ”فلاں“ تو کوئی ”فلاں“ ۔

مسائل کچھ بھی نہیں اگر حل کرنا چاہیں تو۔ مگر آج کے طالب علم کو یہ جاننے کا موقعہ ہی نہیں دیا جاتا کہ ان کے حقوق کیا ہیں؟ بنیادی حقوق سے نا آشنائی میں مبتلا یہ لوگ آپ کو ایک دوسرے پر الزامات دھرتے نظر آئیں گے مگر عملی میدان میں ”صفر“ ۔

بہر حال اگر اپنے حقوق حاصل کرنے ہیں توان مظاہروں کو مخصوص لوگوں سے منسوب کرنے کی بجائے اجتماعی طور پر ”ادا“ کرنا ہو گا، سر ننگی لڑکیوں پر ”نظریں جمانے“ کی بجائے اسی مظاہرے میں موجود ”باحجاب لڑکیوں“ سے بھی دریافت کرنا ہوگا وہ کیوں شامل ہیں ”ان آواز اٹھانے والوں میں؟“ ایک دوسرے پر جملے کسنے کی بجائے جدوجہد کر کے ”دیندار“ ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ ”ملاں کے چاہنے“ والے کوگالی کی بجائے پھول دے کر مطمئن کرنا ہوگا کہ ہم ”دشمن دین“ نہیں اور تھوڑے ”سادہ لوح“ طلباء کو یہ یقین دہانی کروانی ہوگی کہ ہم اپنے ذاتی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ آپ اور آپ کی نسلوں کے لیے کوشاں ہیں۔ تب ہی ممکن ہے کہ ہم اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے ہدف کو پا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).